’لافورڈ‘: انگلینڈ کا وہ گاؤں جہاں عورتیں اقتدار کی اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں
- لورینس کاؤلی اور لوئی بِرٹ
- بی بی سی ایسٹ
سیلی مورِس مقامی سوکل میننگ ٹری سکول کی ہیڈ ٹیچر ہیں اور ساتھ ساتھ لافورڈ کے کلیسہ سینٹ میری چرچ کی پادری بھی ہیں۔
تقریباً 100 برس پہلے ایک اخبار ’ویسٹ منسٹر گیزیٹ‘ نے اپنے قارئین کو ایک ایسے گاؤں کے بارے میں بتایا تھا کہ جس کا انتظام خواتین چلاتی ہیں۔ یہ گاؤں دراصل ’لافورڈ‘ تھا جو کہ شمال مشرقی ایسیکس میں میننگ ٹری اور مِسلی سے ملحق ہے۔ کیا اب وہاں کچھ بدل گیا ہے؟
لندن کے اس با اثر اخبار نے سنہ 1925 میں خبر دی تھی کہ اس گاؤں میں ’ایک خاتون پوسٹ ماسٹر ہیں، دو اور پوسٹ ویمن ہیں، ایک سکول کی مالکن ہے اور دوسری چرچ کی کلرک ہے۔‘
لیکن جب سنہ 1928 میں یہ اخبار ختم ہو گیا، تب بھی لافورڈ نامی یہ گاؤں جدید دور کی کمیونٹی میں ترقی کرتا چلا گیا اور ہاں ایسا لگتا ہے کہ اس گاؤں، جس کی تقریباً 4,300 آبادی ہے، عورتیں اب بھی اقتدار کی اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔
سیلی مورس دو نمایاں عہدوں پر فائز ہیں: 890 کے قریب سٹوڈنٹس والے سکول میننگ ٹری سکول کی وہ سربراہ ہیں اور گاؤں کے سینٹ میری چرچ کی شریک پادری ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں سنہ 2011 میں پادری بنی تھی اور اس وقت تک چرچ میں ہر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے والوں میں بہت سی خواتین موجود تھیں اور مجھے کبھی بھی کوئی مشکل نہیں پڑی اور نہ کوئی تنازعہ پیدا ہوا۔‘
’تاہم جہاں لوگ میرے کام کی تعریف کرتے ہیں تو میں نے کچھ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا کہ میں ایسے کام کرتی ہوں جو روایتی طور پر مرد کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی پرورش اسی روایت میں ہوئی۔‘
’اگر وہ میرے کسی کام سے متفق نہیں ہوتے ہیں تو وہ اپنے اختلاف کا اظہار نہایت شائستگی سے کرتے ہیں۔‘
مقامی چرچ جہاں مسز مورس شریک پادری ہیں اس کی دو وارڈنز ہیں اور دونوں خواتین ہیں
سیلی مورس نے کہا کہ ’میرا نظریہ کہ مرد اور عورت برابر ہیں، شاید یہ بات میں نے اپنے خاندان سے سیکھی۔ مثال کے طور پر میری ایک دادی نے دوسری عالمی جنگ کے دوران اتنا پیسہ کمایا تھا کہ وہ اپنا ایک گھر خرید سکیں، جو اس زمانے میں کافی غیر معمولی بات تھی۔‘
’یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ اگر آپ کو کچھ کرنے چاہتے تھے تو آپ کرسکتے تھے آپ کی جنس آپ کی راہ میں مانع نہیں ہوتی۔‘
’یقینی طور پر ہماری لڑکیاں جو ہم سکول میں دیکھتے ہیں ان میں ایسا اعتماد ہوتا ہے جو میں چاہوں گی کہ ان کے پاس ہونا چاہیے، کہ وہ کچھ بھی حاصل کر سکتی ہیں اور روایات ان کی راہ میں حائل نہیں ہیں۔‘
’یقیناً یہاں کے پانی میں کچھ ایسا ضرور ہے کیونکہ ہمارے پاس ہر سال گروپ میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں ہوتی ہیں۔‘
لافورڈ کی سابق پوسٹ مسٹریس وال گُگلیلمی اس وقت لافورڈ پیرش کونسل کی چیئرپرسن ہیں
لافورڈ پیرش کونسل کی چیئر وال گُگلیلمی ہیں جو تین سال قبل لافورڈ اور دو دیگر برانچوں میں پوسٹ مسٹریس کی ملازمت سے ریٹائر ہوئی تھیں۔
اُن کا خیال تھا کہ گاؤں میں خواتین کے کنٹرول کی ایک طویل تاریخ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نورویچ اور لندن کے درمیان مرکزی ریلوے لائن پر ہونے کی وجہ سے لافورڈ کے بہت سے مرد کام کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں اور سفر کرتے رہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ اسے ہم خواتین پر چھوڑ دیتے ہیں جو یہ کرنے کی بہت صلاحیت رکھتی ہیں۔‘
مسز گُگلیلمی کے چھ پوتے پوتیاں ہیں، سبھی لڑکیاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب وہ بڑی ہو رہی تھیں اور یہ دیکھنے کے لیے منتظر تھی کہ ان کے پوتے پوتیوں کا مستقبل کیا ہے، اس لحاظ سے صنفی مساوات کے معاملے میں دنیا ’اب بہتر ہو گئی ہے۔‘
سیاست میں شرکت کے ذریعے مسز گُگلیلمی کا سامنا ایک اور خاتون سے ہوا جو کبھی لافورڈ میں کام کرتی تھی، مارگریٹ رابرٹس۔
سائنس میں گریجویشن کرنے کے بعد مس مارگریٹ رابرٹس نے برانتھم میں اپنے مرکزی دفتر سے دریائے سٹور کے اس پار لافورڈ میں بی ایکس پلاسٹک میں ریسرچ کیمسٹ کے طور پر چار سال کام کیا۔
مس رابرٹس نے بعد میں ڈینس تھیچر سے شادی کی اور مارگریٹ تھیچر کی حیثیت سے برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔
میگی وُوڈز کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسے خاندن میں پرورش پائی جہاں آہنی اعصاب والی خوتین تھیں۔
لافورڈ میں ان دنوں ایک اور طاقتور مارگریٹ ہیں حالانکہ وہ میگی کہلانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ میگی وُوڈز مقامی پیرش کونسل کی وائس چیئر ہیں۔
مسز وُوڈز نے کہا کہ ’لافورڈ کے بارے میں کچھ خـاص دلچسپ ہے۔‘
مسز ووڈس نے کہا کہ وہ مضبوط خواتین کے خاندان میں پلی بڑھی ہیں۔
’میری ایک رشتہ کی نانی جو سفولک میں رہتی تھیں، پوسٹ آفس اور مقامی میتھوڈسٹ چیپل چلاتی تھیں اور ہر لحاظ سے ایک ایسی زبردست خاتون کی تھی کہ انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
’میری دادی کا اپنا کاروبار تھا اور وہ ووڈ برج میں ایک مہ خانہ چلاتی تھیں۔ میری ماں ایک سپروائزر کے طور پر کام کرتی تھی۔ لہذا میرے پاس ہمیشہ سے کچھ بننے کی ایک مضبوط بنیاد تھی۔‘
گاؤں کے دونوں پرائمری سکول – لافورڈ پرائمری اور ہائی فیلڈز پرائمری – بھی خواتین چلاتی ہیں۔
سکول ٹیچر بننے سے پہلے ایبی فیئربئرن فوج میں تھیں۔
سکول ٹیچر بننے سے پہلے ایبی فیئربئرن فوج میں تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اُنھوں نے لافورڈ کو کبھی بھی ’خواتین کا گڑھ نہیں سمجھا تھا‘ وہ ’اس بات سے آگاہ تھیں کہ دو دیگر مقامی سکولوں میں خواتین سربراہ ہیں، اس لیے میرا اندازہ ہے کہ تعلیم کے لحاظ سے ہم ذمہ داری کے عہدوں پر دوسری خواتین کے ساتھ شامل ہیں۔‘
خواتین کے رول ماڈلز کے پروان چڑھنے کے بارے میں پوچھے جانے پر مسز کیٹی اشر نے کہا کہ ’میں لندن میں ایک طالبات کے سکول گئی جس میں خواتین کا اخلاق کافی مضبوط تھا جس نے ایک مضبوط خاتون ہیڈ ٹیچر کے ساتھ ہمیں یہ محسوس کرنے کی طاقت دی کہ اگر ہم اپنی ذہنی طاقت استعمال کریں تو ہم باہر جا کر کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
کیٹی اُشر کہتی ہیں کہ وہ بچپن مایں اپنی سکول کی استانی سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ کیٹی اشر پرائمری سکول میں مس فیئربئرن کے ساتھ ڈپٹی ہیڈ ہیں
’اس کا مجھ پر بڑا اثر پڑا۔‘
گاؤں میں بہت سے اہم عہدوں پر خواتین کے ہونے کی وجہ سے کیا لافورڈ میں نوجوان لڑکوں کی خود اعتمادی پر اثر پڑ سکتا ہے؟
مسز اشر اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہیں۔
’ہمارے نصاب میں جو توازن ہے اس کی وجہ سے یہ دونوں صنفوں کے لیے ہے اور یہ کہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں اپنے ذہنی صلاحیتوں کی نمو کرسکتے ہیں۔‘
Comments are closed.