بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کروانے کے لیے امریکی دباؤ کی کہانی خفیہ دستاویزات کی زبانی

پاکستان، انڈیا کی نصف صدی پر محیط جوہری ہتھیاروں کی دوڑ امریکی خفیہ دستاویزات کی روشنی میں

  • وقار مصطفیٰ
  • صحافی و محقق

انڈیا پاکستان

،تصویر کا ذریعہKAGENMI/GETTY IMAGES

’اگر میں پاکستان کا وزیراعظم ہوتا تو وہی کرتا جو (ذوالفقارعلی) بھٹو کر رہے ہیں۔‘

امریکہ کے سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر نے یہ بات انڈین وزیرِ خارجہ یشونت راؤ چوان سے ایک ملاقات میں اُس دباؤ کے پس منظر میں کہی تھی جو امریکا انڈیا کے جوہری تجربے کے بعد پاکستان پر جوہری ہتھیار نہ بنانے کے لیے ڈال رہا تھا۔

اس گفتگو کا احوال اس خفیہ یادداشت سے ملتا ہے جو امریکی خارجہ پالیسی سے متعلق افشا کی جانے والی ہزاروں دستاویزات میں سے ایک ہے۔

نیویارک میں آٹھ اکتوبر 1976 کی صبح ہونے والی اس ملاقات میں کسنجر نے مزید کہا ’عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان روایتی ہتھیاروں کا توازن قائم نہیں کر سکتا۔۔۔ اگر انھیں 10، 15 جوہری ہتھیار مل جائیں تو اس سے انڈیا اور پاکستان میں برابری ہو جائے گی۔ آپ کے جوہری آلات کے حصول نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس میں ایک بار پھر ایسی مساوات ممکن ہے جو روایتی ہتھیاروں سے ممکن نہیں تھی۔‘

مگر یہ سب کچھ ماننے کے باوجود جوہری ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے امریکی رویہ پاکستان کے بارے میں سخت رہا۔

کسنجر نے انڈین وزیر خارجہ کو مزید کہا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ (پاکستان) اس خیال کو ترک کر دیں۔ میں نے پاکستانیوں سے کہا ہے کہ اگر وہ اپنے جوہری منصوبوں کو ترک کرنے کے لیے تیار ہوں، تو ہم انھیں روایتی ہتھیاروں کی فراہمی بڑھا سکیں گے۔‘

نصف صدی پر محیط جوہری ہتھیاروں کی دوڈ

پاکستان، جوہری ہتھیار

،تصویر کا ذریعہAFP

انڈیا اور پاکستان کی جوہری پیش قدمی قریباً پچاس برس پر محیط ہے۔ اس نصف صدی سے متعلق افشا کی جانے والی ہزاروں امریکی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ جوہری صلاحیت سے ہتھیاروں کے حصول کے سفر میں واشنگٹن نے ہمیشہ انڈیا کے لیے تو قدرے نرم گوشہ رکھا مگر پاکستان کے لیے دباؤ، امداد کی بندش اور دیگر پابندیوں جیسے اقدامات کیے گئے۔

حکومت بھٹو کی تھی یا اُن کا تختہ الٹ کر آنے والے جنرل ضیاالحق کی، اِن مشکلات سے چھٹکارا صرف تب ملا جب جب امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی۔

انڈیا نے اپنا پہلا ریسرچ ری ایکٹر سنہ 1956 میں کینیڈا کی مدد سے اور پہلا پلوٹونیم ری پروسیسنگ پلانٹ سنہ 1964 میں بنایا جبکہ پاکستان نے اٹامک انرجی کمیشن سنہ 1956 میں اس خیال سے قائم کیا تاکہ وہ آئزن ہاور انتظامیہ کے اعلان کردہ ’ایٹم فار پیس‘ پروگرام میں حصہ لے سکے۔

سنہ 1960 میں ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان کی کابینہ میں وزیر معدنیات اور قدرتی وسائل بنے تو ڈاکٹر عشرت ایچ عثمانی کو اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔

عثمانی نے بہت سے اہم پروگرام شروع کیے اور اداروں کی بنیاد رکھی۔ اُن کے اہم کاموں میں سے ایک وہ تربیتی پروگرام تھا جس کے تحت ذہین نوجوانوں کو منتخب کر کے بیرون ملک تربیت کی غرض سے بھیجا گیا۔

سنہ 1965 کے وسط میں بھٹو نے انڈیا کی جوہری صلاحیت کے برابر ہونے کا عہد کچھ یوں کیا: ’انڈیا بم بناتا ہے تو ہم گھاس یا پتے کھا لیں گے، بھوکے بھی سو جائیں گے، لیکن ہمیں اپنا بم بنانا ہو گا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘

مگر پھر اسی برس پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کے بعد صدر لِنڈن جانسن نے پاکستان انڈیا جنگ کے تناظر میں پاکستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد بھی بند کر دی۔

بھٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگلے 16 برسوں میں، یعنی 1982 تک، پاکستان کو امریکا کی طرف سے بہت کم مدد ملی۔

نو ستمبر 1965 کو امریکی خارجہ سیکریٹری ڈین رسک نے صدر جانسن کو یہ یادداشت بھیجی کہ ’پاکستان، انڈیا تلخی دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا غیر معمولی طور پر مشکل بناتی ہے۔ اگر ہمیں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو انڈیا اپنی بہت بڑی آبادی، صنعتی بنیاد، جمہوریت اور دیگر صلاحیتوں کی وجہ سے بہتر ہو گا۔ تاہم ہم کبھی انڈیا یا پاکستان کے پالیسی اہداف کی مکمل حمایت نہیں کر سکتے۔‘

بھٹو نے سنہ 1969 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’دی متھ آف انڈیپینڈینس‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے لیے جوہری ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔

بھٹو مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کے تین دن بعد یعنی 20 دسمبر 1971 کو صدر بنے۔

جوہری موضوعات پر لکھنے والے کیری سبلیٹ کے مطابق 24 جنوری 1972 کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں سرکردہ سائنسدانوں کی ایک خفیہ میٹنگ میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا اعادہ کیا۔ بھٹو نے سائنسدانوں سے براہ راست خطاب میں انھیں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اپنے تصور کی ایک جھلک پیش کی۔

اسی دوران امریکی دستاویزات کے مطابق انڈیا میں امریکی سفارتخانے نے امریکی محکمہ خارجہ کو 21 جنوری 1972 کو بتایا کہ امریکی حکومت یا بین الاقوامی برادری فی الحال جوہری میدان میں انڈیا پالیسی کی سمت پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔

تین اگست 1972 کی امریکی انٹیلیجنس کی ایک دستاویزکے مطابق ’امکانات اس بات کے ہیں کہ انڈیا ایک تجربہ کرے گا اور اسے پُرامن دھماکا قرار دے گا۔‘

چار اکتوبر 1973 کی تجزیاتی یادداشت میں لکھا گیا ’اگر انڈیا نے انتخاب کیا تو، پلوٹونیم کے موجودہ ذخیرے کا استعمال کرتے ہوئے درجن بھر یا اس سے زیادہ اضافی جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔۔۔ انڈیا نیوکلیئر کلب میں داخلے کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ بااثر کردار حاصل کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھے گا۔‘

اور بلآخر 18 مئی 1974 کو انڈیا نے جوہری تجربہ کر دیا۔

ہنری کسنجر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہنری کسنجر

23 مئی 1974 کی ایک یادداشت کے مطابق پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع اور امور خارجہ عزیز احمد نے صدر رچرڈ نکسن سے ملاقات کی جس میں انڈین جوہری تجربے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس یادداشت سے لیے گئے کچھ اقتسابات ظاہرکرتے ہیں کہ یہ ملاقات لاحاصل رہی۔

’عزیزاحمد: (انڈین وزیراعظم) مسز (اندرا)گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ’پرامن‘ ہے۔ ہمارے خیال میں سوویت یونین انھیں جوہری ہتھیار بنانے کے قابل بنائے گا۔ ہم پریشان ہیں۔ ہم امن کے لیے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ بہت مہربان رہے ہیں۔‘

’صدر: ہمیں ہندوستانی جوہری ہتھیاروں کے مضمرات کے بارے میں ایک جائزے کے ساتھ آغاز کرنا چاہیے۔۔۔ آپ کو بھی ایک جائزہ لینا چاہیے۔ ہم آپ کو اپنے تجزیے سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ میں فکر مند ہوں۔ ہم وہ وعدہ نہیں کرنا چاہتے جو ہم پورا نہیں کر سکتے۔‘

دھماکے کے مضمرات پر اٹھارہ مئی کو کسنجر نے ایک انٹرایجنسی ورکنگ گروپ پیپر کی تیاری کا کہا جس کا خلاصہ یہ تھا ’یہ ہماری (جوہری ہتھیاروں کے) عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو ایک دھچکا ہے۔ اس دھماکے کے شملہ (امن) عمل پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘

جون 1974 میں واشنگٹن میں عزیز احمد نے امریکی خارجہ سیکرٹری سے ملاقات کی جس میں کچھ یہ بات ہوئی۔ ’عزیز احمد: انڈین کہتے ہیں کہ یہ ایک پرامن دھماکا ہے۔ پھر ان سے کہا جائے کہ وہ بین الاقوامی تحفظات کو قبول کریں تاکہ یہ یقین ہو کہ ان کی پیش رفت پرامن رہے گی۔ سیکرٹری: یہ پرامن دھماکا نہیں ہے۔ ایٹمی دھماکے کو پرامن طریقے سے استعمال کرنے کا راستہ کسی کو نہیں ملا۔ ہم نے دھماکے کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا۔ مجھے امریکی وقار کا پورا وزن ایک کامیاب حقیقت کے خلاف ڈالنے سے سخت الرجی ہے۔ احمد: لیکن خطرہ ہمیں ہے۔ سیکرٹری: ہم پاکستان کی آزادی اور علاقائی سالمیت کےحق میں بیان دیں گے۔ پاکستان کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال بہت سنگین معاملہ ہو گا۔‘

12 جون 1974 کے ایک ٹیلی گرام میں پاکستان میں امریکی سفیر بائیروڈ نے یہ تجویز کیا کہ امریکی خارجہ سیکریٹری پاکستان اور انڈیا کے اپنے آنے والے دورے میں بھٹو کو مناسب ’یقین دہانیاں‘ فراہم کریں۔ ہندوستانی عزائم پر بھٹو کے اپنے تحفظات سے بالکل ہٹ کر، انھیں مجموعی طور پر عوام اور خاص طور پر مسلح افواج کے مورال کا مسئلہ درپیش ہے۔‘

واشنگٹن میں پانچ فروری 1975 کو وزیر اعظم بھٹو اور انڈر سیکریٹری جوزف جے سسکو کی ملاقات ہوئی جس میں کچھ یوں بات چیت ہوئی۔ ’بھٹو: عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر ہمارے اعتراضات اخلاقی بنیادوں پر ہیں۔ بھارت نے دستخط نہیں کیے۔ یقیناً بھارت دستخط کرے تو ہم دستخط کریں گے۔‘

انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’سسکو: ہم نے جانا ہے کہ پرامن دھماکے اور ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں فرق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ میں ہمیشہ ہندوستانیوں سے کہتا ہوں، جب وہ اپنے پرامن دھماکے کی بات کرتے ہیں، کہ یہ بکواس ہے۔‘

اسی سال 28 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میں پاکستان نے انڈیا کو جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقے کے قیام کی تجویز پیش کی جس کے بعد فروری 1975 میں امریکہ نے پاکستان کے خلاف 10 سال سے جاری اسلحے کی پابندی ختم کر دی۔

30 ستمبر 1975 کو نیویارک میں عزیز احمد نے ہنری کسنجر سے ملاقات کی۔ ’احمد نے کہا : ہم نے آپ کو اُن ہتھیاروں کی دو فہرستیں پیش کی ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ کسنجر: مجھے امید ہے کہ جوہری ہتھیار دوسری فہرست میں ہیں۔‘

مارچ 1976 میں فرانس اور پاکستان نے چشمہ میں پلوٹونیم پر مبنی نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کی فراہمی کے لیے ایک باہمی معاہدے پر دستخط کیے تاہم، یہ معاہدہ امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے دباؤ کی زد میں آیا، اس دباؤ کی ابتدا معاہدے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔

19 فروری 1976 کے ایک ٹیلی گرام کے مطابق انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور سیسکو نے پاکستان کے سفیر یعقوب خان کو فرانس سے نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ اور جرمنی سے بھاری پانی کے پلانٹ کی مجوزہ خریداری پر امریکی تشویش کے اظہار کے لیے بلایا۔

11 مارچ 1976 کو کسنجر نے فرانسیسی وزیر خارجہ جین سووگنارگس کو لکھا کہ پاکستانی ری پروسیسنگ کی صلاحیت کے حصول کو روکا جائے یا اس میں تاخیر کی جائے۔ 16 مارچ کے اپنے جواب میں، سووگنارگس نے دلیل دی کہ مجوزہ فروخت ان اصولوں کے مطابق تھی جو 1975 کے لندن نیوکلیئر سپلائرز میٹنگ سے سامنے آئے تھے اور یہ کہ فرانس نے امریکا کو پاکستان کے ساتھ اپنے مذاکرات سے آگاہ رکھا تھا اور امریکا کے پاس پاکستان کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کے لیے تقریباً ایک سال کا وقت تھا۔ یوں انھیں ’مقررہ تاریخوں یعنی اس ہفتے میں مطلوبہ معاہدوں پر دستخط نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔‘

19 مارچ 1976 کو صدر فورڈ نے وزیر اعظم بھٹو کو خط لکھا جس میں امریکا میں جوہری ٹیکنالوجی کے دنیا بھر میں پھیلاؤ پر ’کافی خدشے‘ کا انتباہ تھا۔

دورہ پاکستان کے دوران صدر نکسن ایک لیمو گاڑی سے اتر رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دورہ پاکستان کے دوران صدر نکسن ایک لیمو گاڑی سے اتر رہے ہیں

اپریل میں سفیر یعقوب خان نے وزیر اعظم بھٹو کی طرف سے سیکرٹری آف سٹیٹ کسنجر کو ایک خط پہنچایا جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ ایران کے ساتھ ملٹی لیٹرل نیوکلیئر پروسیسنگ کی سہولت قائم کی جائے جو پاکستان کے ساتھ جوہری ری پروسیسنگ پلانٹ خریدنے پر سمجھوتا کرے۔

نو جولائی 1976 کی شام ہونے والے اس اجلاس میں ایک اور یادداشت کے مطابق ’پاکستانی ری پروسیسنگ کا مسئلہ‘ پر بات ہوئی: ’ایتھرٹن (اسسٹنٹ سیکریٹری الفریڈ ایل ایتھرٹن، جونیئر): ہمیں اس پروجیکٹ کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ کرنا ہے۔ سیکرٹری: میں یہ ضرور کہوں گا کہ مجھے اس میں بھٹو سے کچھ ہمدردی ہے۔ ہم روایتی اسلحے کے حوالے سے ان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہے، ہم دھماکے کے بعد بھی انڈیا کو ایٹمی ایندھن بیچ رہے ہیں اور پھر اس چھوٹے سے منصوبے پر ہم ایک ٹن اینٹوں کی طرح ان (پاکستان) پرگر رہے ہیں۔‘

قومی سلامتی کونسل کے عملے کی طرف سے صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (سکوکرافٹ) کو 12 جولائی 1976 کو بھیجی گئی یادداشت میں کہا گیا: ’اب جب کہ بھٹو نے صدر کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان فرانسیسی نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کے حصول کو ترک کر دے، بھٹو کو بتایا جائے کہ جب تک پاکستان ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ منسوخ نہیں کرتا تب تک فوجی امداد کی کسی درخواست پر غورنہیں کیا جائے گا۔‘

آٹھ اگست 1976 کوسیکریٹری کسنجر نے شاہ ایران سے تہران میں ملاقات کی۔ کسنجرکا کہنا تھا: ’میں نے شاہ کے ساتھ اس تجویز کا احاطہ کیا جو میں وزیراعظم بھٹو کو پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ ہم پاکستان کو فرانس کا ری پروسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے خیال کو ترک کرنے کے بدلے میں اے سیون طیارے فراہم کر سکتے ہیں۔ شاہ نے محسوس کیا کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے اور بھٹو کے لیے اسے قبول کرنا دانش مندی ہو گی۔‘

اس کے بعد کسنجر نے اگست 1976 میں لاہور کا دورہ کیا۔

راجستھان جوہری پاور پلانٹ

،تصویر کا ذریعہPALLAVA BAGLA/GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

انڈین ریاست راجستھان میں قائم انڈیا کا جوہری پاور پلانٹ

کسنجر نے 11 ستمبر 1976 کو سفیر یعقوب خان سے ملاقات میں بتایا کہ وہ روایتی ہتھیاروں کے بارے میں کچھ کرنا چاہیں گے۔ ’یعقوب: میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔ اگر میں کھل کر بات کروں تو آپ کے اعتراضات اس وقت سامنے آئے جب ہم نے فرانس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔ کسنجر: یقیناً آپ جانتے ہیں کہ یہ ’اخباری بحران‘ (سمنگٹن ترمیم پر تنازع کا حوالہ دیتے ہوئے) تیار کیا گیا تھا۔ میں نے سمنگٹن ترمیم کبھی نہیں پڑھی تھی۔‘

کسنجر نے فرانس کے وزیر خارجہ لوئی ڈی گیئرن گاؤڈ کو 17 جنوری 1977 کو ایک خط لکھا: ’نئی انتظامیہ کے ساتھ اس معاملے کا جائزہ لینے کے بعد، ان کے ری پروسیسنگ پروجیکٹ کو غیر معینہ مدت تک موخر کرنے کے لیے ہم نے وزیر اعظم بھٹو سے رابطہ کیا ہے۔ بھٹو نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی صورت میں، انتظام میں غیر معینہ مدت کے لیے التوا شامل ہوگا نہ کہ معاہدہ منسوخ کرنا۔ دوسری طرف، ہم خفیہ بنیادوں پر پاکستان کے التوا کو قبول کرنے کی ترغیبات بڑھانے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

رچرڈ نکسن اورجیرالڈفورڈ کی حکومت میں خارجہ سیکریٹری رہنے والے کسنجر کے بعد اگلی انتظامیہ جمی کارٹر کی تھی جس میں 20 جنوری 1977 سے 28 اپریل 1980 میں سائرس وانس نے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا۔

وانس نے تین فروری 1977 کو فرانس کے وزیر خارجہ کو خط لکھا: فرانس اور پاکستان کی طرف سے پاکستان کے ری پروسیسنگ پلانٹ کو غیر معینہ مدت تک موخر کرنے کے مشترکہ فیصلے اور فرانسیسی ری ایکٹرز، ایندھن اور شاید فیول فیبریکیشن پلانٹ کے متبادل کے فارمولے سے اس مسئلے کے کامیاب حل میں مدد ملے گی۔

17 فروری 1977 کے ایک ٹیلی گرام میں، سفیر بائروڈ نے محکمہ خارجہ کو بتایا: ’بھٹو نے یقینا انڈین دھماکے پر ہمارے ردعمل کو غور سے دیکھا تھا۔ ہم نے نہ صرف کچھ نہیں کیا تھا (میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہم بہت کچھ کر سکتے تھے) بلکہ ہم نے سوالوں کے جوابات کے علاوہ کوئی عوامی پوزیشن بھی نہیں لی تھی۔ کسنجر کے چند ماہ بعد نئی دہلی کے دورہ میں، جب انھوں نے برصغیر میں انڈیا کی غالب پوزیشن کو تسلیم کیا، تو تقریباً یقینی طور پر بھٹو کے اس تاثر کی تصدیق ہو گئی کہ امریکا کو نہ صرف انڈیا کی جوہری صلاحیت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ممکنہ طور پر وہ انڈیا کا بہت زیادہ احترام کرتا ہے۔‘

تین مارچ 1977 کے ایک خط میں صدر کارٹر نے وزیراعظم بھٹو سے کہا: ’مجھے ذاتی طور پر جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ پھیلاؤ پر تشویش ہے۔ یہ سوال واضح طور پر پاکستان کو متاثر کرتا ہے۔ عدم پھیلاؤ کے لیے حکمت عملی بناتے ہوئے۔۔۔ دیگر اقوام کے ساتھ قریبی تعاون میں، میں پاکستان کے مفادات کو واضح طور پر ذہن میں رکھنا چاہتا ہوں۔‘

24 مارچ کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، بائیروڈ نے بھٹو کی 24 مارچ کو ایٹمی مسائل پر بات چیت شروع کرنے کی پیشکش کی اطلاع دی۔

دو اپریل 1977 کے ایک میمورنڈم میں، قائم مقام خارجہ سیکریٹری کرسٹوفر نے صدر کارٹر سے کہا: ’ہمیں، جتنا جلد ممکن ہو، بھٹو کی بات چیت کے لیے آمادگی کا جواب دینا چاہیے۔‘

صدر کے معاون برائے امور قومی سلامتی (برزینسکی) کی طرف سے صدر کارٹر کو نو اپریل 1977 کی یادداشت میں کہا گیا: ’سفیر بائروڈ کو ہدایت کی جائے کہ وہ آپ کے تحفظات پر زور دیتے ہوئے انتہائی سخت لہجے میں بات کریں، اور مراعات کی طرف تب ہی جائیں جب انھیں یقین ہو کہ بھٹو نہیں جھکیں گے، اور مراعات آہستہ آہستہ پیش کریں، بجائے کہ ایک پیکج کے طور پر۔ پیشکشوں کی ترتیب، مثال کے طور پر، یہ ہو گی: توانائی اور زمینی اور بحری آلات میں مدد، ایف فائیو اور اے فور طیارے اور اقتصادی امداد۔ اے سیون سے بھٹو کو صاف انکار کر دینا چاہیے۔‘

وانس نے صدر کارٹر کو پیرس سے 31 مئی 1977 کو شام کی رپورٹ میں پاکستانی وزیر خارجہ عزیز احمد سے اپنی ملاقات کا احوال لکھا۔ ’انھوں نے (کچھ جواز کے ساتھ) نشان دہی کی کہ امریکا نے پراجیکٹ کی مخالفت ظاہر کرنے میں (پراجیکٹ شروع ہونے کے تین سال بعد) 1976 تک انتظار کیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات ایک دوراہے پر ہیں۔ اگر انتخاب تصادم کا ہے، تو انھوں نے سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن سے پاکستان کے نکلنے، سوویت آپشن کی طرف رجوع، اور بھٹو کی امریکا مخالف مہم کے تسلسل کی پیش گوئی کی۔ میں نے واضح کیا کہ ہماری ترجیح تعاون پر مبنی تعلقات کو آگے بڑھانا ہےلیکن کوئی وعدہ نہیں کیا۔‘

11 جون 1977 کے ٹیلی گرام میں، پاکستان میں سفارت خانے نے محکمہ خارجہ کو بتایا کہ 10 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم بھٹو نے اعلان کیا کہ پاکستان فرانس کے ساتھ اپنے جوہری ری پروسیسنگ معاہدے کو کبھی منسوخ یا ملتوی نہیں کرے گا۔

مگر پھر پانچ جولائی 1977 کو جنرل محمد ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

ضیا

،تصویر کا ذریعہAFP

دس جولائی 1977 کے ٹیلی گرام میں، پاکستان میں امریکی سفیر ہمل نے محکمہ خارجہ کو ضیا سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا: ’مجھے اتنا یقین نہیں ہے کہ ضیا کسی بھی طرح سے فرانس، پاکستان معاہدے کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

12 اکتوبر 1977 کو صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (برزینسکی) نے صدر کارٹر کو بتایا کہ پاکستان فرانس کے ساتھ اپنے معاہدے کی حفاظت کے لیے سفارتی مہم میں مصروف ہے۔

چودہ اکتوبر کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، سفارت خانے نے اطلاع دی کہ چونکہ فرانس کی جانب سے پاکستان کو نیوکلیئر ری پروسیسنگ آلات کی سپلائی روک دی گئی ہے اس لیے پاکستان کو گلین ترمیم کے تحت رکی امداد کی فراہمی دوبارہ شروع کر دینی چاہیے۔

26 اکتوبر 1977 کے ٹیلی گرام میں، محکمہ خارجہ نے پاکستان میں سفارتخانے کو بتایا کہ ہمیں فی الحال اپنی امداد کا التوا جاری رکھنا چاہیے۔

24 اگست 1978 کو واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا: ’پاکستان نے کل اعلان کیا ہے کہ فرانس اسے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کرنے کے معاہدے سے دستبردار ہو گیا ہے۔‘

پاکستانی حکمران جنرل محمد ضیا الحق نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مطلع کیا گیا ہے کہ فرانس صدر ویلری گیسکارڈ ڈی ایسٹانگ کے ایک ’انتہائی شائستہ‘ خط کے ذریعے معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے۔

کارٹر انتظامیہ نے 1977 سے غیر رسمی طور پر پاکستان کو دی جانے والی خوراک کے علاوہ تمام امداد بند کر رکھی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے فرانس اور برطانیہ میں سفارت خانوں کے لیے یکم نومبر 1978 کو ٹیلی گرام لکھا کہ پاکستان حساس جوہری تنصیبات کے حصول کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، بشمول ری پروسیسنگ اور افزودگی کی صلاحیت کے۔

واشنگٹن میں 30 نومبر 1978 کے پالیسی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ یہ واضح ہے کہ پاکستانی ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں اور اگر ان کی سرگرمیوں پر نظر نہ رکھی گئی تو بالآخر ہمیں اپنی اقتصادی امداد اور فوجی فروخت بند کرنے پر مجبور کر دیں گے۔

پاکستان میں سفارتخانے نے محکمہ خارجہ کو 30 اپریل 1979 کے ٹیلی گرام میں بتایا کہ پاکستان نے جوہری افزودگی کی سرگرمیوں کو منجمد کرنے کی ہماری تجاویز کو مسترد کر دیا ہے۔

’ضیا کا خیال ہے کہ انھیں ہمارے ساتھ ایسے حل پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو پاکستان کی سلامتی اور جوہری پھیلاؤ کے بارے میں ہمارے خدشات دور کرے۔ ہم آئی اے ای اے، جوہری سپلائرز، اور دیگر متعلقہ ممالک بشمول سوویت یونین، چین اور بھارت کی حمایت حاصل کرنے کی تجویز کرتے ہیں۔‘

نو جون کو نائب سفیر پیٹر کانسٹیبل کو جوہری عدم پھیلاؤ کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہیں کہہ دیا کہ وہ لکھ کر دینے کو تیار ہیں۔ 18 جولائی کو محکمہ خارجہ نے ہمل کو ہدایت کی کہ وہ ضیا کی پیشکش کی پیروی کریں۔ ہمل نے 29 جولائی کو ضیا کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی اطلاع دی۔

جوہری ہتھیار

،تصویر کا ذریعہPIB

صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (برزینسکی) نے 31 جولائی 1979 کوصدر کارٹر کو اسی ملاقات کے حوالے سے ایک یادداشت بھیجی۔ ’ہچکچاتے ہوئے اور کسی حد تک متضاد انداز میں، صدر ضیا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پرامن مقاصد کی تحریری یقین دہانی فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ ضیا نے کہا کہ ‘بار بار زبانی یقین دلانے کے بعد لکھ کر دینے کی اُن کی پیشکش ’محاورتاً‘ تھی۔‘

بہرحال انڈیا 1974 میں اور پاکستان 1998 میں ایٹمی طاقت بنا۔

امریکی دفتر تاریخ سے وابستہ مؤرخ سیٹھ اے روٹرمیل کا کہنا ہے کہ دسمبر 1979 کے آخر میں افغانستان پر سوویت حملہ جنوبی ایشیا کے ساتھ امریکی تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔

کارٹر نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوشش کی کیونکہ ان کی انتظامیہ کو سوویت توسیع کا اندیشہ تھا اور کارٹر کو ضیا کی شکل میں افغانستان پر سوویت قبضے کی مخالفت کرنے کے لیے ایک آمادہ (اگرچہ متضاد) ساتھی مل گیا۔ سوویت یونین کے سامنے امریکی انتظامیہ کا جوہری پھیلاؤ کا خوف ماند پڑگیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.