بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

متحدہ عرب امارات کا حوثی باغیوں کا بیلسٹک میزائل حملہ ناکام بنانے کا دعویٰ

متحدہ عرب امارات کا اسرائیلی صدر کے دورے کے دوران کیے جانے والا حوثی باغیوں کا بیلسٹک میزائل حملہ ناکام بنانے کا دعویٰ

modgovae

،تصویر کا ذریعہ@modgovae

متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اس نے یمن میں حوثی باغیوں کی طرف سے داغے گئے ایک بیلسٹک میزائل کو ناکارہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔

یو اے ای کی وزارت دفاع نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دعویٰ کیا کہ اتوار کی رات یمن کے الجواف نامی صوبے سے داغے گئے بیلسٹک میزائل کو اُن کے دفاعی نظام نے 00:20 (مقامی وقت) پر فضا میں ہی روک کر 00:50 (مقامی وقت) پر تباہ کر دیا۔

متحدہ عرب امارات نے کامیابی سے میزائل کو تباہ کرنے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے۔

وزارتِ دفاع کے مطابق حوثیوں کے اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور میزائل کی باقیات آبادی والے علاقوں سے باہر گری ہیں۔

حوثیوں کی جانب سے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ اپنے پہلے دورے پر متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں۔ اسرائیلی صدر اتوار کے روز دو روزہ دورے پر یو اے ای پہنچے ہیں اور یہ میزائل ان کے امارات پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد داغا گیا تھا۔

متحدہ عرب امارات یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے سعودی اتحاد کا حصہ ہے۔ حالیہ ہفتوں میں حوثیوں نے یو اے ای کے دارالحکومت ابوظہبی پر کئی ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں۔

یو اے ای کے بندرگاہ کے علاقے میں 17 جنوری کو ہونے والے ڈرون حملوں میں ایک پاکستانی اور دو انڈین شہری ہلاک جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔

یاد رہے چند روز قبل اماراتی وزارتِ دفاع نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ یمن کے الجواف نامی صوبے میں نصب بیلسٹک میزائل لانچر کو یو اے ای پر حملے کے فوراً بعد کارروائی کرتے ہوئے تباہ کر دیا گیا تھا۔

وزارتِ دفاع کے مطابق اس جوابی کارروائی میں ایک ایف سولہ جنگی طیارے نے حصہ لیا تھا اور اس وقت بھی وزارت کی جانب سے اس حملے کی فوٹیج جاری کی گئی تھی۔

اس حملے کے بعد حوثی باغیوں کے ترجمان کی جانب سے تنبیہ کی گئی تھی کہ مستقبل میں متحدہ عرب امارات پر مزید حملے کیے جا سکتے ہیں۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہ@Reuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی صدر اتوار کو دو روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں

لگاتار تیسرے ہفتے ہونے والے اس حملے سے خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے جہاں سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف گذشتہ کئی سالوں سے جنگ کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات اس فوجی اتحاد کا حصہ ہے تاہم ماضی میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے صرف سعودی عرب پر حملوں کی کوشش کی ہے اور بہت شاذ و نادر ہی متحدہ عرب امارات پر کسی قسم کے حملے کیے گئے ہیں، جس کا شمار مشرق وسطیٰ کی سب سے پُرامن اور محفوظ ریاستوں میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق سات سال سے جاری جنگ کے نتیجے میں یمن میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک یمن کی سرحد کا بیشتر حصہ سعودی عرب سے متصل ہے اور یمن کا دارالحکومت صنعا متحدہ عرب امارات کی ریاست ابو ظہبی سے تقریباً 1500 کلومیٹر دور ہے۔

مشرق وسطیٰ

اقوام متحدہ نے حالیہ کشیدگی پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے اور دونوں فریقین سے تحمل برتنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یو اے ای پر گذشتہ ہفتے ہونے والے حملے کے بعد سعودی اتحاد نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں باغیوں کے ٹھکانوں پر متعدد فضائی حملے کیے تھے جن میں ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔

سعودی اتحاد سنہ 2015 سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی شہروں پر حوثی حملوں کے بعد اس اتحاد نے حوثی اہداف پر فضائی حملے اور کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔

جمعے کو شمالی صنعا کے عارضی حراستی مرکز پر فضائی حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ جاری آپریشن میں حوثیوں کے زیر انتظام شہر میں 20 افراد مارے گئے تھے۔

سعودی اتحاد نے مارچ 2015 کے دوران یمن میں مداخلت کی تھی جب حوثیوں نے صنعا میں عالمی حمایت یافتہ حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ اس وقت سے حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ کرپٹ نظام اور غیر ملکی مداخلت سے لڑ رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے 2019 سے یمن میں اپنی موجودگی کم کر دی تھی مگر حال ہی میں اس کی حمایت یافتہ فورسز کی یمن میں توانائی کے اہم مراکز پر حوثیوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.