بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

آبدوز کے ذریعے منشیات سمگلنگ: ’خوفناک لہروں کے بیچ محسوس ہوا کہ آخری وقت قریب آ گیا‘

آبدوزوں کے ذریعے منشیات سمگلنگ: ’خوفزدہ کرنے والی لہروں کے بیچ کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ آخری وقت قریب ہے‘

  • ایرین ہرنینڈز ولیسکو
  • بی بی سی نیوز منڈو

صحافی ہاویئر رمیرو

،تصویر کا ذریعہOSCAR VAZQUEZ

،تصویر کا کیپشن

صحافی ہاویئر رمیرو اس آبدوز کا معائنہ کر رہے ہیں

تین صحتمند آدمی قریب ڈیڑھ مربع میٹر کی چھوٹی سی تنگ جگہ میں پھنسے ہوئے تھے جہاں ہلنے جلنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ یہ ایک آبدوز تھی جس میں 27 دن کے سفر کے دوران یہ تینوں باری باری اندر موجود ایک ڈبے میں سوتے تھے۔

اس آبدوز میں باتھ روم کا کوئی انتظام نہیں تھا چنانچہ رفع حاجت کے لیے وہ ایک بیگ کا استعمال کرتے تھے۔ کھانے کے لیے ڈبوں میں بند خوراک اور پیسٹریاں استعمال ہوتیں اور جاگتے رہنے کے لیے ریڈ بُل کے کین پی لیے جاتے۔ ہر وقت کپڑے گیلے رہنے کی وجہ سے اُن کی جِلد پر چھالے پڑ چکے تھے۔

ان تین لوگوں نے اکتوبر اور نومبر 2019 کے درمیان بحر اوقیانوس عبور کیا تھا۔ وہ فائبر گلاس کی بنی ایک چھوٹی اور غیر محفوظ آبدوز پر برازیل اور یورپ کے درمیان 3500 ناٹیکل میل سے زیادہ کا سفر طے کر رہے تھے۔ حیران کُن بات یہ تھی کہ اس آبدوز میں راستہ دکھانے کے لیے کوئی بڑا یا جدید آلہ نصب نہیں تھا۔ اس میں موجود آلات میں صرف روایتی سیٹلائٹ فون اور کمپاس ہی نصب تھے۔

اس آبدوز پر انھوں نے خطرناک سمندری طوفان، خوفزدہ کرنے والی لہروں اور مسلسل سامنے آنے والی تیکنیکی خرابیوں کو برداشت کیا۔ اس سفر کے دوران ایک بار تو انھیں ایک بڑا بحری جہاز کچلنے ہی والا تھا۔ کئی بار انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے آخری وقت اب قریب آ گیا ہے۔

اس آبدوز کا مقصد یورپ تک 3068 کلوگرام کوکین سمگل کرنا اور اس سروس کے عوض پیسے کمانا تھا۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہونے والے تھے۔

آبدوز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کئی دنوں تک انھوں نے متعدد ملکوں کی پولیس اور انٹیلیجنس اداروں کو چکما دیا۔ مگر آخر میں انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

’بلیک ٹائیڈ‘ نامی پولیس آپریشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں پہلی بار لاطینی امریکہ سے یورپ آنے والی منشیات سے بھری ایک آبدوز کو پکڑا گیا تھا۔ اس منصوبے کو نہ صرف ناکام بنایا گیا بلکہ آبدوز پر سوار تینوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سپین میں ان کے خلاف مقدمہ چلا جہاں انھوں نے جُرم کا اعتراف بھی کیا۔ مگر انھوں نے منشیات سمگلنگ گروہ کے ڈر سے حکام کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ انھیں ڈر تھا کہ جنھوں نے اُن کے ہاتھ منشیات یورپ بھیجنے کی کوشش کی اب وہ ان کے خاندان والوں سے انتقام لے سکتے ہیں۔

اس مقدمے کی کارروائی جاری ہے اور ان تینوں ملزمان کو 12 سے 13 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

منشیات سے بھری ایک آبدوز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

منشیات سے بھری آبدوز

منشیات سمگلنگ کے لیے آبدوزوں کا استعمال

صحافی ہاویئر رمیرو کی کتاب ’آپریشن ماریا نگرا‘ میں ان تینوں افراد کے حیرت انگیز 27 روزہ سفر کو بیان کیا گیا ہے جہاں وہ گندگی سے بھری آبدوز میں تین ہزار کلوگرام سے زیادہ کوکین کے ساتھ شب و روز گزار رہے تھے۔

اس کتاب میں پولیس افسران، ججز، ماہرین اور عینی شاہدین کے بیانات کی مدد سے آبدوز کے سفر کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس آبدوز کا نچلا حصہ زیر آب رہنے کے باوجود یہ پانی کی لہروں میں غائب رہتی تھی۔

منشیات سے لدی آبدوز کی روایت کولمبیا میں 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور اس کے پیچھے سابقہ سوویت یونین کے سابقہ فوجیوں اور انجینیئروں کا ہاتھ تھا۔ اس سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں بدنام زمانہ منشیات فروش پابلو اسکوبار بھی تھے جنھوں نے یہ بات نہیں چھپائی تھی کہ منشیات سمگل کرنے کے اُن کے بحری بیڑے میں دو آبدوزیں بھی ہیں۔

ہاویئر رمیرو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اب یہ کافی عام ہو چکی ہیں۔ ہر سال قریب 30 سے 40 آبدوزوں کو کولمبیا میں روکا جاتا ہے۔‘

منشیات کی سمگلنگ پر ماہرین کی متعدد پولیس رپورٹس میں کافی عرصے سے بتایا جا رہا تھا کہ سمگلرز بحر اوقیانوس پار کرنے کے لیے آبدوز استعمال کر رہے ہیں۔ مگر پہلی بار منشیات سے لدی آبدوز ’چی‘ پکڑی گئی تھی۔

آبدوز 'چی'

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آبدوز ‘چی’

آبدوز چی میں 123 ملین یورو مالیت کی کوکین تھی

’چی‘ نامی آبدوز کو ایمازون کے جنگلوں میں ایک خفیہ شپ یارڈ میں بنایا گیا تھا۔ اسے چلانے کی ذمہ داری ایک سابق ہسپانوی باکسنگ چیمپیئن اور ماہر ملاح اگسٹن الواریز کو سونپی گئی تھی۔ باقی ٹیم میں ایکواڈور سے تعلق رکھنے والے دو ملاح کزنز تھے: لیویز ٹوماز بنیٹز منزابا اور پیڈرو روبرٹو ڈلگاڈو منزابا۔

آپریشن بلیک ٹائیڈ پر کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ ’لیویز منزابا اور پیڈرو منزابا دونوں نے سفر سے پہلے پانچ، پانچ ہزار ڈالر پر حامی بھری۔ اگر یہ مشن کامیاب ہوتا تو انھیں 50، 50 ہزار ڈالر ملتے۔ مگر یہ واضح نہیں کہ اگسٹن الواریز کو کتنے پیسے ملنے والے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ چار سے پانچ لاکھ ڈالر کے بیچ ہو سکتے ہیں۔‘

سپین کی وزارت داخلہ کے اندازے کے مطابق اس آبدوز کے ذریعے بھیجی گئی منشیات کی مالیت 123 ملین یوروز تھی۔

29 اکتوبر 2019 کی رات کولمبیا میں 3068 کلوگرام کوکین کو 152 ڈبوں میں پیک کر کے آبدوز ‘چی’ میں رکھا گیا اور صبح اس کے سفر کا آغاز ہو گیا۔

پہلے یہ آبدوز 12 گھنٹوں تک ایمازون کے دریا میں تیرتی رہی جہاں نمی، مچھروں، مینگرووز (چمرنگ درخت) اور سرسبز ماحول تھا۔ ممکن ہے کہ کسی بڑے جہاز کی مدد سے آبدوز کو اس دشوار راستے سے لے جایا گیا۔ ایمازون سے بحر اوقیانوس تک کا سفر پانی کے اوپر ہی ہونا تھا جہاں درختوں کے تنوں سے ٹکر ہو سکتی تھی۔

کولمبیا میں منشیات کی سمگلنگ کے لیے آبدوزوں کا استعمال نیا نہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کولمبیا میں منشیات کی سمگلنگ کے لیے آبدوزوں کا استعمال نیا نہیں

یہ بھی پڑھیے

ایک ڈراؤنا خواب جو آٹھ دن تک جاری رہا

اس حقیقت کے باوجود کے ’چی‘ میں نہ کوئی ریڈار تھا، نہ ہی کوئی خودکار شناخت کا نظام، نہ ہی کوئی ریڈیو سگنل یا اس قسم کی کوئی بھی چیز مگر پھر بھی سب کچھ بہت اچھے سے چل رہا تھا۔

پانچ نومبر 2019 کو سفر کے آٹھویں روز پہلی مرتبہ طوفانی بادل آئے تھے۔

رومیرو کا کہنا ہے کہ ’اچھے موسم ہمیشہ کے لیے واپس نہ آنے کے لیے چلے گئے تھے، اس نے انھیں ان کی قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اگلی مرتبہ جب انھوں نے نیلے آسمان پر پیلی دھوپ دیکھی تھی وہ گلیشین کی جیل کے صحن میں چہل قدمی کر رہے تھے۔‘

سات نومبر تک ’چی‘ کو یکے بعد دیگرے تین طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایک وقت میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ڈوبنے والی ہے۔ عملے کے تین ارکان کے لیے ایک حقیقی ڈراؤنا خواب آٹھ دن تک جاری رہا۔

صرف 14 نومبر کو خراب موسم سے ان کی جان چھٹی تھی۔

مگر کم از کم ’چی‘ کے عملے کے تین افراد کو اس نارکو آبدوز میں مکمل طور پر بند نہیں رہنا پڑا تھا جیسا کہ اس سے پہلے ہوا تھا جب منشیات سے بھری ایک آبدوز نما نے اٹلانٹک کو عبور کیا تھا۔

چی کے عملے کے ایک رکن نے ہسپانوی حکام کو بتایا کہ ’آبدوز کے بیرونی دروازے کو لاک کر دیا گیا تھا تاکہ یہ صرف مقررہ مقام پر پہنچ کر ہی کھلے۔‘

یعنی عملے کے پاس اس دورے کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ماضی میں ایسے ہی ایک کیس میں منشیات چوری کر لی گئی تھیں۔

صحافی ہاویئر رمیرو کی کتاب 'آپریشن ماریا نگرا'

،تصویر کا ذریعہEDITIONS B

،تصویر کا کیپشن

صحافی ہاویئر رمیرو کی کتاب ‘آپریشن ماریا نگرا’

یورپی ایجنسیاں کوشش کے باوجود چی کو ڈھونڈنے میں ناکام

اپنے بحری سفر کے آغاز کے 17 دن بعد اٹلانٹک کے پانیوں کو عبور اور 4931 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ’چی‘ بلآخر اپنے دورے کے بنیادی مقصد یعنی جزائر آزورز پہنچنے میں کامیاب رہی۔

یہاں سے اس کے عملے کے تینوں ارکان نے شمال کی جانب جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس مقررہ مقام پر پہنچا جائے جہاں ’چی‘ نے منشیات اتارنی تھی۔

یہ علاقہ لسبون سے 270 میل دور سیدھا تھا۔ تب تک حبس اور خوراک کی کمی نے ان کی صحت کو متاثر کر دیا تھا۔

تاہم نقشہ پر درج مقررہ مقام پر ‘چی’ سے ملنے کوئی بھی نہیں آیا۔

پرتگال کے ساحل کے قریب انھیں دو تیز رفتار موٹر بوٹس ملی تھیں جو تکنیکی خرابی کے باعث واپس لوٹ رہی تھیں۔

ہسپانوی پولیس کی جانب سے اکٹھی کردہ معلومات کے مطابق منشیات کی سگلنگ کرنے والی تنظیم نے پھر ‘چی’ کے عملے کو ہدایات دی کہ وہ گلیشیا کی جانب اپنا سفر شروع کر دے جہاں سے اس کے پائلٹ اگسٹن کا تعلق تھا۔

جاویئر رومیرو کا کہنا ہے کہ ‘گلیشیا میں منشیات کے لیے اپنی کشتیاں دینے والوں کے لیے یہ ایک اہم کاروبار ہے جو ہر قسم کی منشیات کی سمگلنگ کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘

یہ دیکھتے ہوئے کہ منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں کی جانب سے تیار کردہ ابتدائی منصوبہ ناکام رہا ہے آگسٹن نے پلان بی پر کام کرنے کا سوچا اور اس کے لیے انھوں نے اپنے دو بچپن کے دوستوں کی مدد طلب کی۔

اس وقت تک یورپی انسداد منشیات سمگلنگ کے ادارے کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ ایک کشتی میں متعدد ٹن کوکین ہے۔ اس کی تلاش کے لیے بحری اور فضائی ذرائع استعمال کیے گئے لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک کشتی یا جہاز تلاش کر رہے تھے۔ ان کے وہم گمان میں بھی ایک نیم آبدوز نہیں تھی۔

سپین میں تحقیقات کے دوران ایک مقام پر معلوم ہوا کہ اس تلاش میں ’پرتگالی بحریہ کی ایک بحری کشتی اور ہوائی جہاز ایک وقت اس کے نہایت قریب تھے لیکن پھر بھی وہ اس نیم آبدوز کو تلاش نہیں کر پائے تھے۔‘

منشیات کی سمگلنگ کرنے والی تنظیم کی جانب سے کوکین کو اتارنے کی کوشش رنگ نہیں لا رہی تھیں۔ تاہم انھوں نے گلیشیا کے جنوب میں کوسٹا ڈی مورٹے کی جانب ایک چھوٹا بحری جہاز بھیجا تاکہ وہ یہ کوکین لینے کی کوشش کر سکے۔

ہسپانوی سول گارڈز کو اس کی خبر مل گئی اور انھوں نے اس علاقے میں ایک ہیلی کاپٹر اور کشتی کو تعینات کر دیا۔ چھوٹے جہاز نے یہ دیکھتے ہوئے منشیات حاصل کرنے کی کوشش ترک کر دی۔

آبدوز کا عملہ عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آبدوز کا عملہ عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران

جان بچا لیں، بعد میں منشیات بچا لیں گے

کھانے اور پینے کے پانی کی کمی کے باعث چی کے عملے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی سب میرین کو سپین کے شمال مغربی ساحلی علاقے میں لے جائیں گے۔ چی کے پائلٹ کے لیے یہ علاقہ نیا نہیں تھا کیوںکہ وہ یہاں بچپن میں گرمیاں گزارتے تھے۔

24 نومبر کو سب میرین ساحل کے قرین پہنچ چکی تھی لیکن جیسے ہی عملے نے باہر نکلنے کی کوشش کی پانی اندر داخل ہونا شروع ہو گیا۔ تینوں افراد نے سب میرین سے باہر پانی میں چھلانگ لگا دی۔ ان کا خیال تھا کہ ابھی اپنی جان بچا لیں، بعد میں منشیات بچا لیں گے۔ لیکن انھیں اس کا وقت نہیں ملا۔

لیویز ٹوماز کو اسی ساحل پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے کزن پیڈرو روبرٹو پانچ گھنٹے بعد قریبی سڑک سے گرفتار ہوئے جب کہ آبدوز کے کپتان اگسٹن الواریز پانچ دن بعد ایک گھر سے گرفتار ہوئے۔

اس آبدوز پر پہلے بار قدم رکھنے والے پولیس سارجنٹ بیسینٹ نے بتایا کہ اس کے حجم کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ لوگ سپین تک زندہ پہنچ گئے۔ ہاویئر رومیرو کہتے ہیں کہ وہ بھی اس آبدوز میں جا چکے ہیں جس کی تنگی سے ان کا سانس بند ہو رہا تھا۔ 27 دن تک ’اس میں رہنا تو بہت اذیت ناک ہو گا۔’

اس آبدوز سے 152 کوکین کی گانٹھیں برآمد کی گئیں۔ اس کا عملہ اس وقت جیل میں اپنی سزا کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن اس آبدوز اور دھندے کے اصل مالک اب تک آزاد ہیں اور یقیناً اس وقت وہ کسی اور طریقے سے اپنا کام جاری رکھنے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.