اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سابق چیف جج رانا شمیم پر فردِ جرم عائد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جو 7 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم کو اوپن کورٹ میں چارج پڑھ کر سنایا گیا، رانا شمیم نے جرم قبول نہیں کیا اور کہا وہ اپنا دفاع پیش کریں گے۔
تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ رانا محمد شمیم کو بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت شفاف کارروائی کے لیے پہلے ہی عدالتی معاونین کا تقرر کر چکی، اٹارنی جنرل نے دلائل دیے صحافیوں کا کردار ثانوی تھا۔
حکم نامہ میں کہا گیا کہ معاون فیصل صدیقی نے کہا رپورٹر، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انچیف نے لاپروائی کی، میڈیا پرسنز کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس نہیں بنتا۔
اس حکم نامے میں کہا کہ صحافی رہنماؤں نے تسلیم کیا خبر زیر التوا کیسز سے متعلق اصولوں پر پوری نہیں اترتی تھی۔
اس میں کہا گیا کہ فری پریس اور میڈیا عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرتا ہے، عدالت اس مرحلے پر رپورٹر، ایڈیٹر اور ایڈیٹرانچیف پر فردِ جرم عائد نہیں کر رہی۔
حکم نامہ میں کہا گیا کہ ابھی تک ایسے شواہد نہیں کہ خبر کا مقصد عدالت پر اثرانداز ہونا تھا۔ ٹرائل کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے تو صحافیوں کیخلاف بھی کارروائی ہوگی۔
Comments are closed.