بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانیہ کا یوکرین کو روس کے خلاف ٹینک شکن میزائل فراہم کرنے کا اعلان

روس یوکرین تنازع: برطانیہ کا یوکرین کو ٹینک شکن میزائل فراہم کرنے کا اعلان

  • جوزف لی
  • بی بی نیوز

روس، یوکرین، نیٹو

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

یوکرینی فوج کے ریزرو سپاہی روس کے ساتھ تناؤ پیدا ہونے کے بعد دسمبر 2021 میں ایک فوجی مشق کے دوران

برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے قلیل فاصلے تک مار کرنے والے ٹینک شکن میزائل فراہم کر رہا ہے۔

وزیرِ دفاع بین والیس کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس یوکرین کے ساتھ سرحد پر تقریباً ایک لاکھ سپاہی تعینات کر چکا ہے۔

برطانوی وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ ‘جائز اور حقیقی تشویش’ موجود ہے کہ روسی فوجیوں کو حملے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

روس نے حملے کے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے مغرب پر جارحیت کا الزام عائد کیا ہے۔

یوکرین کی مسلح افواج کو تربیت دینے کے لیے درجنوں برطانوی فوجی یوکرین میں سنہ 2015 سے موجود ہیں اور برطانیہ نے سنہ 2014 میں کریمیا میں روس کے حملے کے بعد یوکرینی بحریہ کی تعمیرِ نو کا وعدہ بھی کیا تھا۔

بین والیس نے کہا کہ برطانیہ روس کے ‘بڑھتے ہوئے پُرخطرہ رویے’ کی روشنی میں سکیورٹی میں اضافی مدد فراہم کرے گا۔

پیر کو ہلکے بکتر شکن اسلحے کی پہلی کھیپ بھیجی گئی تاہم وزیرِ دفاع نے ان کی قسم کے بارے میں نہیں بتایا۔

اُنھوں نے ارکانِ پارلیمنٹ کو بتایا کہ ‘یوکرین کو اپنی سرحدوں کے تحفظ کا پورا حق حاصل ہے اور امداد کا یہ نیا پیکیج ایسا کرنے کی اس کی صلاحیت کو مزید بہتر بنائے گا۔’

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے کہا ‘میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ امداد مختصر فاصلے کے لیے اور مکمل طور پر دفاعی صلاحیت کے لیے ہے۔ یہ سٹریٹجک ہتھیار نہیں ہیں اور روس کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ یہ ذاتی دفاع کے لیے ہیں۔’

اُنھوں نے مزید کہا کہ اگر روس نے یوکرین میں ‘عدم استحکام’ پیدا کرنے والا کوئی اقدام اٹھایا تو ‘بین الاقوامی پابندیوں کا پیکیج’ تیار ہے۔

وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ کسی بھی حملے کو ‘قبضے’ کے طور پر دیکھا جائے گا جس سے ‘دونوں اطراف بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو سکتا ہے۔’

اُنھوں نے کہا کہ ‘ہم روسی عوام کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں جیسا کہ ہم سینکڑوں برسوں سے رہے ہیں۔ اور ہم روس کے ساتھ متعدد شعبوں میں باہمی مفاد پر مبنی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔‘

روس، یوکرین، نیٹو

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

دسمبر 2021 میں روسی فوج کی ایک مشق کا منظر

‘مجھے اب بھی اُمید ہے کہ جمہوریت برتر رہے گی۔ یہ صدر پوتن کی مرضی ہے کہ وہ سفارت کاری اور مذاکرات کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر تنازعے اور نتائج کا۔’

مشرقی یوکرین میں سنہ 2014 سے روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرینی فوج کے درمیان تنازع جاری ہے تاہم ایک کمزور سی جنگ بندی بھی نافذ ہے۔

سرحد پر روسی فوجیوں کے جمع ہونے کے بعد مغربی اور یوکرینی انٹیلیجنس سروسز کا اندازہ ہے کہ دراندازی یا حملہ 2022 کے اوائل میں ہو سکتا ہے۔

اس دوران روس نے نیٹو ممالک پر یوکرین کو اسلحے کے ذریعے ‘ابھارنے’ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خطے میں تناؤ کو فروغ دے رہا ہے۔

روس کا بنیادی مطالبہ نیٹو میں مشرق کی جانب توسیع ہے۔ روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریابکوف نے حالیہ مذاکرات کے بعد کہا ہے کہ ‘یہ یقینی بنانا نہایت ضروری ہے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو کا رکن نہ بنے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.