بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیپیٹل ہل پر حملے کا ایک سال: ٹرمپ اور تاریخی ہنگامہ آرائی سے متعلق پانچ اہم سوالات

کیپیٹل ہل ہر حملے کا ایک سال: ٹرمپ اور تاریخی ہنگامہ آرائی سے متعلق پانچ اہم سوالات

  • انتھونی زرکر
  • نامہ نگار شمالی امریکہ

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

صدر ٹرمپ اب بھی سیاست میں پوری طرح سرگرم ہیں

صدر جو بائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ توثیق کے عمل کو روکنے کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل یا امریکی ایوان پارلیمان پر حملے کو ایک سال ہو گیا ہے۔

اس دن جو واقعات پیش آئے اور جو صورت حال ان واقعات پر منتج ہوئی اس کی تفصیلات اب تک سامنے آ رہی ہیں اور یہ تفصیلات ان واقعات کی تحقیقات کرنے کے لیے بنائی گئی ایوان نمائندگان کی کمیٹی کی توجہ کا محور بنی ہوئی ہیں۔

ایوان نمائندگان میں کیپیٹل ہل پر حملے کی تحقیقات کے لیے ایک آزادنہ انکوائری کرانے کی تجویز کو رد کرنے کے بعد گذشتہ سال یکم جولائی کو منقسم ووٹ کے ذریعے ایک نو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس کمیٹی میں حزب اقتدار ڈیموکریٹ پارٹی کے سات اور حزب اختلاف ریپبلکن جماعت کے دو ارکان شامل تھے۔ اس کمیٹی نے اب تک ڈھائی سو سے زیادہ لوگوں کے بیانات قلمبند کیے ہیں اور 45 سے زیادہ لوگوں کو سمن جاری کر کے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

کمیٹی کے ارکان کے مطابق زیادہ تر لوگوں نے اس سلسلے میں مکمل تعاون کرنے سے اتفاق کیا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے چند قریبی رفقاء تعاون کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

وہ اس سلسلے میں حکومتی اہلکاروں کو حاصل استثنیٰ کا سہارا لے رہے ہیں۔ حکومتی اہلکاروں یا سرکاری افسران کو حاصل استثنیٰ دراصل ایک قانونی اصول ہے جو صدر اور اس کے مشیروں کے درمیان کھل کر ہونے والی بات چیت کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

سابق صدر ٹرمپ کے دو معتمد خاص سٹیو بینن اور ایوان صدر کے چیف آف سٹاف مارک میڈو پر کانگریس کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سٹیو بینن پر فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ اگلے سال چلایا جائے گا۔

تحقیقاتی کام اور قانونی کشمکش کے دوران کئی جھول نظر آتے ہیں اور کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن کا احاطہ یہ کمیٹی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جنوری کی چھ تاریخ کے جلوسوں میں وائٹ ہاؤس یا ایوان صدر کس حد تک ملوث تھا؟

کانگریس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ بینی تھامسن نے حال ہی میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب کمیٹی تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا واشنگٹن ڈی سی میں جو جلوس اس دن نکالے گئے وہ کیپٹل ہل پر ہونے والے حملوں کی وجہ بنے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان ریلیوں کو منظم کس نے کیا، ان کی منصوبہ بندی اور پیسہ کس نے فراہم کیا اور کس نے یہ پیسہ وصول کیا اور یہ کہ ان ریلیوں کے منتظمیں کی وائٹ ہاؤس کے حکام اور کانگریس سے کیا بات چیت چلتی رہی۔’

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک شخص علی الیگزینڈر نے جو ان ریلیوں کے منتظمیں میں بھی شامل تھا کمیٹی کے سامنے اپنا بیان پیش کر دیا ہے جس میں اُس نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ ریلیوں سے قبل وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے ریپبلکن ارکان سے رابطے میں تھا۔ ان رابطوں کی اصل نوعیت کا ابھی تعین کیا جانا باقی ہے۔

الیگزینڈر نے کانگریس کی کھلی سماعت کے دوران اپنے بیان میں ‘وومن فار امریکہ فرسٹ’ نامی تنظیم کی لیڈر کو ان جلسوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جس نے وائٹ ہاؤس کے قریب احتجاج کی کال دی جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ کیپیٹل ہل کی طرف مارچ کریں۔

الیگزینڈر نے کہا کہ تشدد کو روکنے میں وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے اور جس وقت کیپیٹل ہل پر حملہ ہوا اس وقت وہ وائٹ ہاؤس سے کچھ فاصلے پر ایک ہوٹل میں ‘شیمپین’ نوش کر رہے تھے۔

ولارڈ کانٹیننٹل ہوٹل میں جو سرگرم کارکن اس وقت موجود تھے ان کے نام کانگریس کی کمیٹی کے لیے اہم اور دلچسپی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے معتمد خاص سٹیو بینن، نیویارک کے سابق میئر روڈی گولیانی، نیویارک کے سابق پولیس کمشنر برنارڈ کرک، ٹرمپ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن، سازشی بیانیے بنانے والے ایلکس جونز اور ٹرمپ کے ایک خاص آدمی راجر سٹون کے نام ان افراد کی فہرست میں شامل تھے جو ہوٹل میں ہونے والے اس اجتماع میں موجود تھے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے توہین کانگریس کی قرارداد میں یہ عندیہ دیا ہے کہ اسے یقین ہے کہ چھ جنوری کو ہونے والی ریلیوں کے بارے میں بینن کا ٹرمپ سے کم از کم ایک مرتبہ براہ راست رابطہ ہوا تھا۔ اور جونز نے کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے اسے یہ ہدایت ہے کہ جلوس کو سیدھے کیپیٹل ہل یا پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف لے جایا جائے۔

دائیں بازو کے ریڈیو میزبان ایلکس جونز نے ہنگامہ آرائی سے قبل اس ہجوم سے خطاب بھی کیا تھا۔

کیا حکومت میں سے یا ٹرمپ کے حلقے احباب میں کسی کو یہ اندازہ تھا کہ اُس دن تشدد ہو سکتا ہے

کئی ہفتوں کی قانونی کشمکش، ٹوئٹس اور بیانات کے بعد ٹرمپ کی نظریں چھ جنوری کے اس اہم دن پر لگی ہوئی تھیں کہ آیا اس دن کیا وہ کامیابی سے انتخابی نتائج کو پلٹ سکیں گے۔

2019 میں نومبر کی 19 تاریخ کو ٹرمپ نے ٹوئٹر پیغام میں کہا ‘چھ جنوری کو ڈی سی میں بڑا احتجاج۔ وہاں آئیں۔۔۔۔’

اسی تسلسل میں ٹرمپ نے گیارہ دن بعد ایک اور ٹویٹ کی جس میں انھوں نے کہا "JANUARY SIXTH, SEE YOU IN DC!” یعنی چھ جنوری کو آپ سے دارالحکومت میں ملاقات ہو گی۔

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا کہ اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ دائیں بازو کے انتہا پسند یا شدت پسند گروہ چھ جنوری کو واشنگٹن جانے کی تیاریاں کر رہے تھے اور انھیں صدر کی طرف سے دیئے جانے والے بیانات سے حوصلہ ملا تھا۔

وفاقی قانون نافذ کرنے والے اور امریکی فوج اس بارے میں کوئی تیاری کرنے سے اس لیے ہچکچاہٹ کا شکار تھے کہ کہیں صدر کو معلوم نہ ہو جائے۔

جوائنٹ چیف آف سٹاف کے سربراہ مارک ملی کی یہ تجویز کے دارالحکومت کو بند کر دیا جائے مزید اشتعال دلانے کے ڈر سے رد کر دی گئی۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مارک ملی کو یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ اگر فوج کو واشنگٹن روانہ کیا جائے تو کہیں صدر اس کو روکنے کے احکامات جاری نہ کر دیں۔

پانچ جنوری کو بینن نے ولارڈ ہوٹل میں ریکارڈ کیے جانے والے ایک ‘پوڈ کاسٹ’ میں کہا کہ ایک انقلاب آ رہا ہے اور ’کل ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے‘۔

اسی دن شام کو ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ٹوئٹر پیغام میں کہا ‘واشنگٹن میں لوگوں کا سیلاب آ گیا ہے جو منہ زور بائیں بازو کے ڈیموکریٹس کو انتخابی نتائح چراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ہماری قوم کے ساتھ بہت ہو چکا اب وہ مزید برداشت نہیں کر سکتے۔’

ایک تحقیقاتی صحافت کرنے والی ویب سائٹ ‘پروپبلکا’ کے مطابق ریلی کے بہت سے منتظمیں کو اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف مارچ کہیں پر تشدد رخ نہ اختیار کر لے اور کیپیٹل ہل کی طرف جانے والے مظاہرین کے بارے میں تو وہ خصوصی طور پر خوف زدہ تھے۔

سٹاکٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ریڈیو ہوسٹ ایلکس جونز نے ہنگامہ آرائی سے قبل مظاہرین سے خطاب کیا تھا

وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کے منتظمین میں شامل ایک شخص ڈسکن سٹاکٹن جنہیں سمن جاری کر کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا، انھوں نے پروپبلکا کو بتایا کہ اجازت نامے کے بغیر، آخری لمحات پر مارچ کو دوسری طرف لے جانا وہ بھی مناسب حفاظتی انتظامات یا سکیورٹی حصار اور پولیس کی نگرانی کے بغیر، خطرے سے خالی نہیں تھا۔

سٹاکٹن چاہتے تھے کہ ان خدشات کو وائٹ ہاؤس تک پہنچا دیا جائے جس کے بارے میں انھیں یقین دلایا گیا کہ ایسا کر دیا گیا ہے۔ لیکن سابق صدر ٹرمپ نے اپنی وائٹ ہاوس کی تقریر میں خاص طور پر ریلی کے شرکاء سے کہا کہ وہ کیپیٹل ہل کا رخ کریں۔ انھوں نے لوگوں سے پرامن اور حب الوطن رہنے کو کہا لیکن اسی تقریر میں ایک جگہ انھوں نے لوگوں سے کہا "fight like hell” یعنی پوری جان لگا کے لڑیں۔

جب ایوان پارلیمان پر حملہ ہوا تو صدر کا ردعمل کیا تھا؟

رچرڈ نکسن کے دور سے اب تک صدارتی سکینڈلز کی دو سوالات کے تناظر میں تشریح کی گئی ہے۔ صدر کو کس حد تک علم تھا اور یہ انھیں کب معلوم ہوا؟ یہ دونوں سوالات ایوان پارلیمان کی تحقیقات میں بھی اتنے ہی اہم ہیں لیکن ایک تیسرا سوال بھی ہے اور یہ کہ صدر کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے کیا کیا؟

کمیٹی کی تحقیقات کا زیادہ وقت چھ جنوری کو حملے سے قبل، حملے کے دوران اور حملے کے بعد صدر کی مصروفیات کی تفصیلات جمع کرنے میں لگا ہے۔ اسی وجہ سے کمیٹی نے ایک طویل قانونی جنگ لڑی کہ وہ اس دن صدر کی مصروفیات کی تفصیلات تک رسائی حاصل کر سکیں جن میں دستاویزی ثبوت، ملاقاتوں کے نوٹس اور تقاریر کے مسودے شامل ہیں جو نیشنل آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔

اُس دن جب کیپیٹل ہل پر حملہ کیا گیا تو اسے پوری طاقت سے روکنے کے لیے صدر پر کتنا دباؤ تھا اس بارے میں پہلے ہی کچھ تفصیلات عام ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

رپبلکن کانگریس وومن جیمی ہریرا بیوٹلر پہلے ہی یہ بیان دے چکی ہیں کہ کس طرح حزب اختلاف رپبلکن پارٹی کے رہنما کیون میکارتھی نے صدر کو فون کر کے اس بات پر زور دیا کہ حملہ آووروں کو روکا جائے۔

جب صدر نے اس سے مذاق میں اڑانے کی کوشش کی تو یہ بات چیت تلخ ہو گئی اور چیخنے چلانے میں بدل گئی۔

ٹرمپ کی اپنی جماعت کے ریاست ایلاباما سے سینیٹر ٹومی ٹوبروائل نے بھی صدر سے بات کی اور بتایا کہ صورت حال ٹھیک نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نائب صدر مائیک پینس کو کیپیٹل ہل سے باہر لے جایا جا رہا ہے۔ اس پر ٹرمپ نے جواب دیا ‘میں جانتا ہوں کہ مشکل صورت حال ہے۔’

واشنگٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف مارک میڈو نے کمیٹی کو وہ تحریری پیغامات اور ای میلز فراہم کیں جو قدامت پسند ٹی وی شخصیات اور ٹرمپ کے اپنے رشتہ داروں نے انھیں بھیجے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ صدر کو چاہیے کہ وہ عوام سے خطاب کریں اور تشدد کو روکنے کے لیے کچھ کریں۔

ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے پیغام بھیجا ‘ان کو اب ]صورتحال سنبھالنے میں [ قیادت کرنی چاہیے۔ یہ اب ہاتھ سے نکل گیا ہے۔’ اس کے جواب میں میڈوز نے کہا کہ ‘میں اس پر پورا زور لگا رہا ہوں۔’

صدر کے اقدامات اس تحقیقات میں ایک بہت بڑا جھول ہیں۔ اگر میڈوز نے پورا زور لگایا تو صدر کا در عمل کیا تھا۔

اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ صدر نے پوری سہ پہر وائٹ ہاؤس کے ڈائنگ روم میں ٹی وی دیکھتے ہوئے گزاری۔ کمیٹی نے وائٹ ہاؤس کے ان اہلکاروں کو طلب کیا ہے جو اس دن صدر کے ارگرد تھے اور فی الوقت کمیٹی وہ سرکاری ریکارڈ حاصل کرنے کی قانونی جنگ میں لگی ہوئی ہے جو اس بہت بڑے جھول کو دور کر سکتا ہے۔

فوج اور سیکیورٹی کو حرکت میں لانے میں تاخیر کیوں ہوئی؟

جنوری کی چھ تاریخ کی صبح امریکہ کی پارک پولیس واشنگٹن کی یادگار اور لنکن کی یادگار پر ٹرمپ کے حامی مظاہرین کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ پولیس اہلکاروں کو صرف نگرانی کرنے اور مظاہرین سے دور رہنے کے احکامات تھے۔

‘سٹاپ دی سٹیل’ یعنی چوری کو روکنے کے نام سے نکالے جانے والے جلوس اور ٹرمپ کے خطاب کے بعد جس میں مظاہرین کو کیپیٹل ہل جانے کا کہا گیا تھا، تشدد بھڑک اٹھا۔ ٹرمپ کے حامیوں نے ایوان پارلیمان کے باہر پولیس پر ہلہ بول دیا اور زبردستی عمارت میں داخل ہو کر سینیٹ کے ہال پر قبضہ کر لیا اور کانگریس کے ارکان کے دفاتر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔

بلوائیوں کے ایوان پارلیمان کی عمارت میں داخل ہونے سے تھوڑی دیر قبل ڈی سی نیشنل گارڈ کے کمانڈر میجر جنرل ولیم واکر نے سیکریٹری دفاع کرسٹوفر ملر سے اس بحران کو روکنے کے لیے اپنے اہلکار تعینات کرنے کی اجازت طلب کی۔ یہ اجازت واکر کو دو گھنٹے تک نہیں ملی اور نیشنل گارڈ کے اہلکار کیپیٹل ہل پر اجازت ملنے کے ایک گھنٹے بعد پہنچ سکے۔

یہ کمیٹی کیپیٹل ہل اور وزارتِ دفاع کے درمیان رابطوں کی بھی تفصیلات حاصل کر رہی ہے اس کے علاوہ وہ وائٹ ہاؤس اور وزارت دفاع کے حکام کے درمیان بات چیت کا متن حاصل کر رہے ہیں۔

کیپیٹل ہل پر حملہ ایک سکیورٹی کی حیران کن ناکامی تھی اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔

صدر اور وائٹ ہاؤس غیر معمولی اقدامات کے ذریعے انتخابی نتائج کو کالعدم کروانے میں کس قدر آمادہ تھے۔

سابق صدر کے چیف آف سٹاف میڈوز کی طرف سے جو حیران کن انکشافات ان نو ہزار صفحات پر مشتمل دستاویز میں سامنے آئے ہیں جو انھوں نے کانگریس کی کمیٹی کے سپرد کیے ہیں اور ان میں ان 36 ای میلز پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بھی شامل ہے جو وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے رپبلکن ارکان میں تقسیم کی گئی تھی۔

کانگریس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ دستاویز کس نے تحریر کی اس بارے میں علم نہیں ہے اور ابھی معلوم کیا جانا باقی ہے لیکن ان میں انتخابی فراڈ کے وہ دعوے ہیں جنہیں پہلے ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔ لیکن ان میں جو سفارشات کی گئی ہیں وہ بہت دلچسپ ہیں۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ صدر کو ہنگامی صورت حال نافذ کر دینی چاہیے اور مشینی طور پر ووٹ کی پرچیوں کی گنتی کو کالعدم قرار دے کر وفاقی نیشنل گرڈز کی نگرانی میں اہم ریاستوں میں دوبارہ گنتی کا حکم دینا چاہیے۔

اس نوعیت کے انتہائی اقدامات کی امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کمیٹی ان خبروں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ صدر وزارت انصاف کو انتخابات کو فراڈ قرار دینے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے اور اعلی حکام کو یہ کہہ رہے تھے کہ ’صرف آپ انتخاب کو فراڈ قرار دے دیں اور باقی مجھ پر اور (رپبلکن) اراکین کانگریس پر چھوڑ دیں‘۔ یہ معلومات ایک اہلکار کی طرف سے لیے جانے والے نوٹس سے حاصل ہوئی ہیں۔

واشنگٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنوری کی تین تاریخ کو صدر اطلاعات کے مطابق قائم مقام اٹارنی جنرل جیفری روزن کو ہٹا کر ان کی جگہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جیفر کلارک کو لگانے کے بارے میں غور کر رہے تھے جہنوں نے پہلے ہی جورجیہ کی ریاست میں انتخابی حکام کو ایک خط لکھا تھا کہ صدر بائیڈن کی جیت کو فراڈ قرار دے کر صدر ٹرمپ کی جائز فاتح قرار دیا جائے۔

صدر یہ کرنے سے اس لیے باز رہے کہ وزارتِ انصاف کے تمام عملے نے ایک ساتھ مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی تھی۔

کلارک نے اب تک کمیٹی سے تعاون نہیں کیا اور ان پر بھی توہین کانگریس میں مقدمہ چلائے جانے کی سفارش کی جا سکتی ہے۔

واشنگٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹرمپ کے دباؤ کا آخری نشانہ نائب صدر مائیک پینس تھے جن کا اہم عملہ کانگریس کی تحقیقات سے تعاون کر رہا ہے۔

کمیٹی اس ملاقات کی تفصیل حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ٹرمپ اور مائیک پینس نے جنوری کی چار تاریخ کو چیپ مین یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر جان ایسٹ مین کے ساتھ کی تھی جن کا خیال تھا کہ مائیک پینس ریاستی نتائج کو مسترد کر کے صدر ٹرمپ کو صدر قرار دے سکتے ہیں اور کم از کم صدر بائیڈن کی توثیق کو اس وقت تک التوا میں ڈال سکتے ہیں کہ جب تک رپبلکن کی اکثریت والے قانون ساز ادارے صدر کی حمایت میں آگے نہیں آتے۔

خبروں کے مطابق انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کا دباؤ 6 جنوری کی شام تک جاری تھا، ایسٹ مین کی طرف سے مائیک پینس کی قانونی مشیر کو یہ مشورہ دیا جا رہا تھا کہ وہ ابھی بھی بائیڈن کی جیت کی توثیق کرنے سے انکار کر سکتے ہیں، جبکہ اس وقت کیپیٹل ہل میں آنسو گیس بھری ہوئی تھی اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے سارے دن کی ہنگامہ آرائی کے بعد بکھرے پڑے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.