قازقستان کی عوام سڑکوں پر مظاہرے کیوں کر رہی ہے اور ان کے مطالبات کیا ہیں؟
- اولگا ایوشنا اور کیترینا کنکلاوا
- بی بی سی رشیئن سروس
قازقستان میں مظاہروں کے دوران ہولیس اہلکار مظاہرین ہر سٹن گرنیڈ فائر کر رہا ہے
قازقستان میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف ہونے والے مظاہرے پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے ہیں۔ اور جس تیزی سے یہ احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوئے ہیں اس نے بہت سے مقامی اور خطے کے افراد کو حیریت میں ڈال دیا ہے۔
ان مظاہروں سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ صرف توانائی کے ذرائع یا تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج نہیں ہے۔
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان مظاہروں کے محرکات کیا ہیں اور یہ کیوں اہم ہیں؟
قازقستان میں ہوا کیا؟
ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تیل کے زخائر سے مالا مال ملک نے مائع پیٹرولیم گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس سے صارفین کو مہنگا ایندھن خریدنا پڑ رہا ہے۔ قازقستان میں بہت سے افراد اپنی گاڑیوں میں ایندھن کے لیے مائع پیٹرولیم گیس کا استعمال کرتے ہیں۔
ان مظاہروں کا آغاز گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سے صرف ایک علاقے سے ہوا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان مظاہروں میں شدت آتی گئی اور رواں ہفتے منگل تک ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں مظاہرین کے بڑے بڑے ہجوم پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کرتے دکھائی دینے لگے۔
یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد ہو گئے جب پولیس نے قازقستان کے مرکزی شہری اور سابق دارالحکومت الماتی میں مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس اور سٹن گرنیڈز کا استعمال کیا۔
ان پرتشدد جھڑپوں میں سینکڑوں مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
بدھ تک قازقستان کے بیشتر حصوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر اپنے مظاہرے اور احتجاج جاری رکھے۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دینے کی اطلاعات ہیں۔
قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے حکومت پر بدامنی کی اجازت دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے برطرف کر دیا ہے اور تیل کی قیمتوں کو کم قیمت پر لانے کا وعدہ کیا ہے تاکہ ‘ملک میں امن و امان اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔’
مظاہرین نے اس کے جواب میں الماتی کے میئر دفتر پر دھاوا بولتے ہوئے اسے آگ لگا دی ہے۔
یہ مظاہرے غیر معمولی کیوں ہیں؟
تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال قازقستان وسطی ایشیا کا ایک اہم اور بااثر ملک ہے اور یہ خطے کے 60 فیصد جی ڈی پی کا ذمہ دار بھی ہے۔ اسے اکثر آمرانہ ریاست کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا نواں بڑا ملک ہے لیکن اس کی آبادی 18.8 ملین افراد کے ساتھ نسبتاً کم ہے۔
قازقستان سنہ 1991 میں سویت یونین کے خاتمے کے دوران آزاد ہوا تھا۔ بہت برسوں تک وہاں 1984 میں سویت دور میں ملک کے پہلے وزیر اعظم بننے والے نور سلطان ناذربیاف کی حکومت رہی۔
بعدازاں وہ بلا مقابلہ ملک کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کے دور اقتدار میں ان کی شخصیت کی چھاپ رہی اور ملک بھر میں ان کے مجسمے لگائے گئے اور ملک کے نئے دارالحکومت کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا۔
بلآخر سنہ 2019 میں حکومت مخالف احتجاج کے پیش نظر نورسلطان اقتدار سے ہٹ گئے۔ انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ قازقستان کے صدر جومارت توکایف ان کی منتخب کردہ جانشین ہے جو ایک متنازع انتخاب کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالیں ہوئے ہیں۔ اس انتخاب پر بین الاقوامی مبصرین کو بھی تحفظات تھے اور انھوں نے اس پر تنقید بھی کی تھی۔
اقتدار میں نہ رہنے کے باوجود بھی نور سلطان اب بھی ملکی سیاست میں بہت بااثر ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ مظاہروں کا بنیادی مقصد ان کے خلاف ہے۔
ان کی مستعفی ہونے کی تقریباً تین برس بعد بھی قازقستان میں بہت کم تبدیلی آئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد اصلاحات نہ ہونے، معیار زندگی کم ہونے اور محدود شہری آزادی حاصل ہونے پر سخت خائف ہے۔
رائل انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افییرز جسے چاٹم ہاؤس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی کیٹ مالینسن نے بی بی سی رشیئن کو بتایا کہ ‘ ناذربیاف کا ایک طرح سے قازقستان کی عوام کے ساتھ ایک سماجی معاہدہ ہے۔’
‘عوام حکومت کے ساتھ وفادار تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ لیکن سنہ 2015 سے یہ سب بگڑنے لگا اور وبا کے دوران گذشتہ دو برسوں میں اس میں مزید خرابی آئی اور قازقستان میں مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی۔’
ملک کے زیادہ تر انتخاب ہمیشہ قازقستان کی حکمران جماعت نے ہی جیتے ہیں اور انھیں عوام کے تقریباً 100 فیصد ووٹ پڑتے ہیں۔ ملک میں سیاسی حزب اختلاف کا کوئی خاطر خواہ وجود نہیں ہے۔
مائع گیس جو عموماً ایک سستا ایندھن ہے اور قازقستان کی عوامی اور نجی ٹرانسپورٹ میں زیادہ تر وہ ہی استعمال ہوتا ہے کی قیمت بڑھنا تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
حکومت کو برطرف کیے جانے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیے جانے کے باوجود مظاہرین سڑکوں سے جانے کو تیار نہیں دکھائی دیتے ہیں۔
سنہ 2019 میں صدر ناذربیاف کے استعفے سے سبق سیکھتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت میں تبدیلی ہمیشہ مطلوبہ نتائج نہیں لاتی۔
اب سڑکوں اور ملک کے بڑے شہروں کے ان گنت چوراہوں پر وہ یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ‘حکام نے گذشتہ 30 برسوں میں ہمارے لیے کیا کیا ہے؟
قازقستان کے جنوب مغرب میں منگسٹاؤ صوبے کا قصبہ زانوزین موجودہ بدامنی کے اہم مراکز میں سے ایک بن گیا۔
یہ شہر پہلے بھی بڑے مظاہروں کے دوران ایک اہم مرکز رہا ہے۔ سنہ 2011 میں بھی تیل ورکرز کی جانب سے تنخواہوں اور کام کرنے کے حالات پر احتجاج کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن میں کم از کم 14 تیل ورکرز مارے گئے تھے جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اب ایک مرتبہ دوبارہ یہ شہر ایک مظاہروں کا گڑھ بن گیا ہے اور یہاں مظاہرین نے اپنے پانچ بڑے مطالبات پیش کیے ہیں۔
- حکومت میں حقیقی تبدیلی
- مقامی گورنرز کا براہ راست انتخاب کے ذریعے چناؤ۔ (ابھی ملک کے صدر خطوں کے سربراہوں کی تقرری کرتے ہیں۔)
- سنہ 1993 کے آئین کی بحالی جو صدر کے اختیارات اور مدت اقتدار کو کا تعین اور محدود کرتا ہے۔
- سماجی کارکنوں اور مظاہرین کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
- موجود حکومت کے رشتہ داروں کے علاوہ عوامی نمائندوں کو اہم سرکاری عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
ان مظاہروں کے کوئی باقاعدہ اور واضح رہنما نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہائیوں قبل ہی ملک میں تمام طرح کی اختلاف رائے کو ابتدائی مراحل میں ہی ختم کر دیا گیا تھا اور قازقستان میں انتخابی جمہوریت مؤثر طریقے سے موجود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سینٹ پیٹرزبرگ یورپی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر سیاسیات گریگوری گولوسوف نے بی بی سی روس کو بتایا کہ سڑکوں پر آنے سے لوگوں کو اپنی بات سنانے کا ایک طریقہ مل گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘آمرانہ ریاست میں سڑکوں پر احتجاج عوام کی جانب سے غیر مقبول معاشی اقدامات کے خلاف ایک معمول کا ردعمل ہے۔’
آگے کیا ہو سکتا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟
قازقستان میں تیزی سے بگڑتی اور پرتشدد ہوتی صورتحال میں مظاہرین نے سڑکوں سے ہٹنے پر انکار کر دیا ہے لیکن پولیس ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹ رہی۔
اب تک حکام اس بحران کو کسی بھاری کارروائی یا مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کے بغیر ہی حل کرنے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر توکایف بیک وقت اپنی اتھارٹی کو بھی منوا رہے ہیں اور عوام کے ساتھ نرم اور آزادانہ رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
گلوسو کہتے ہیں کہ ‘یہ پیش گوئی کرنا کہ یہ حربہ کامیاب ہو گا کافی مشکل ہے۔’
ایک اور سیاسیات کے ماہر الیگزینڈر بائینو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف نقطہ نظر پیش کیا۔
ان کی رائے میں ‘قازقستان روایتی طور پر مغرب کا اتحادی نہیں ہے جس کے نتیجے میں مغربی رہنما ان واقعات کی تشریح ایک ظالم حکومت کے خلاف ایک جموری بغاوت’ کے طور پر کریں گے۔ ‘
مغربی حکمرانوں کے لیے یہ مشکل ہو گا کہ ان حالات میں وہ مظاہرین کی حمایت نہ کریں اور قازق حکام کے لیے بھی اس پر ردعمل دینا مشکل ہو گا۔ یہ مظاہرے بادی النظر میں قازقستان کو روس کے قریب لے جائیں گے۔’
کیمرج یونیورسٹی میں ایک محقق ڈیانا کودائیبرگینوا کا کہنا ہے کہ اس اشارے ہیں کہ قازق حکام اس مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘اس بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ صدر چند مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تاکہ لوگوں کو یہ دکھایا جا سکے کہ ان کی آوازوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔’
اس کے ساتھ ساتھ گیس، تیل اور معدنیات برآمد کرنے والے ملک قازقستان کو اپنی توجہ سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی طرف بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام اس کو بچانے میں بہت اہم ہے۔’
اس کے ساتھ ہی، ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ سابق صدر نذر بائیف کے سائے میں رہنے سے تھک چکے ہیں اور حقیقی تبدیلی کے لیے لڑنے کو تیار ہیں۔
بے شک قازقستان میں بدامنی خطے پر اثر ڈالے گی۔ روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ جلد ہی مذاکرات کے ذریعے قازقستان میں حالات معمول پر آ جائیں گے۔ تاہم اس بیان پر یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ ‘قازقستان کا اندرونی معاملہ ہے۔‘
تاہم بعص روس کے سرکاری میڈیا نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ مظاہرے ‘مغرب قوتوں‘ کے اکسانے پر ہوئے ہیں۔
Comments are closed.