گیمنگ کی لت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے والا کلینک: ’ویڈیو گیم کھیلنا کم کیا تو بیوی سے میرے تعلقات میں بہتری آ گئی‘
بیڈروم میں بند ہو کر دن رات ویڈیو گیم کھیلنے والے بچوں کے والدین فکر مند رہتے ہیں
سٹِیو اور لوئیز کے 16 برس کے بیٹے ایلکس نے انھیں عجیب مشکل میں ڈال دیا ہے۔
ایلکس کے رات دیر گئے تک کاونٹر سٹرائک جیسے گیم کھیلنے کے جنون کی وجہ سے اس کے والدین ذہنی اذیت کا شکار رہے ہیں۔ حال ہی میں اس کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی بھی تشخیص ہوئی ہے۔
اس سال کے آغاز سے ہی ویڈیو گیم کے عادی بچوں کے علاج کے لیے مخصوص کلینک میں اس کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔
نیشنل سینٹر فار گیمنگ ڈِس آرڈرز برطانیہ میں علاج کے لیے اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔
ایلکس کے والدین اسے علاج کے لیے خود ہی یہاں لائے تھے مگر اس نے علاج میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
لوئیز کا خیال ہے کہ شاید علاج سے تو اسے فائدہ نہ ہوا ہو مگر گھر والوں کو ایک غیر متوقع فائدہ ضرور پہچنا ہے: ’ہمیں فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں ایسے ہی دوسرے بچوں کے والدین سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا یہ سپورٹ گروپ دو ہفتے میں ایک بار بذریعہ زوم ملتا ہے۔‘
ان کے شوہر سٹِیو کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں تمام باتوں سے بڑھ کر یہ جاننا ہے کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ پورے ملک اور ساری دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو ایسی ہی مشکل سے دو چار ہیں۔‘
دو برس پہلے کھلنے والے اس کلینک کے اندر بی بی سی کو خصوصی رسائی ملی۔
زیادہ تر ٹین ایج (13 سے 19 سال) مریضوں میں گیمنگ کی لت اتنی شدید ہے کہ طیش میں آ کر وہ اکثر اپنے والدین سے لڑ پڑتے ہیں۔ یہاں زیر علاج بعض بچوں نے گیم کونسول یا کمپیوٹر نہ ملنے کی صورت میں خود کشی کرنے کی دھمکی دی۔ ان کے سوشل یا سماجی رابطے زیادہ تر آن لائن اور گیمنگ سرگرمیوں تک محدود ہیں۔
گیمنگ ڈِس آرڈر ایک متنازع حالت ہے جس کے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تین خواص بیان کیے ہیں:
- گیمنگ کے وقت کنٹرول میں نہ رہنا
- دوسرے مشاغل پر گیمنگ کو فوقیت دینا
- منفی نتائج کے باوجود گیمنگ میں مصروف رہنا
بعض ماہرین نفسیات اور گیمنگ انڈسٹری اس ڈِس آرڈر کی اس تشریح پر سوال اٹھاتے ہیں۔
یہ کلینک لندن کے نیشنل سینٹر فار بیہیویورل ایڈِکشن میں قائم ہے اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ربیکا لوک ووڈ کے مطابق جوئے جیسی لت میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے مشہور ہے مگر گیمنگ کی لت ان کے لیے بھی نئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ گیمنگ ڈِس آرڈر بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی علامات واقعی شدید ہو سکتی ہیں، جس پر ہمیں حیرت ہے۔‘
’اکثر لوگ اپنے جذبات قابو نہیں رکھ پاتے۔ انھیں غصہ آتا ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے اور غمگین ہو جاتے ہیں۔ نیند اُڑ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے گیمرز کے ساتھ رابطے کے لیے انھیں راتوں کو جاگنا پڑتا ہے۔‘
بیکی ہیرس اس کلینک کی منیجر اور فیملی تھراپسٹ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک 300 مریضوں کا علاج کیا جس میں سے 200 مریض صرف 2021 میں ریفر کیے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیمنگ ڈِس آرڈر کے 89 فیصد مریض مرد تھے لیکن عمروں میں تعجب خیز فرق پایا گیا۔
’ہم 13 سال کی عمر میں علاج شروع کرتے ہیں۔ بعض 12 سال کے بچے بھی بھیجے گئے تھے۔ کچھ ایسے والدین نے بھی ہم سے رابطہ کیا جن کے بچوں کی عمریں 8 سال تھیں مگر ہم ان بچوں کا معائنہ نہیں کر سکے۔ جن لوگوں کو ہمارے پاس ریفر کیا جاتا ہے ان کی عمریں 60 سال تک بھی ہوتی ہیں۔‘
کلینک میں 13 سال سے زیادہ عمر کے مریض ہیں، البتہ اس سے کم عمر بچوں کو بھی یہاں ریفر کیا جاتا ہے
ڈاکٹر لوک ووڈ کے خیال میں وڈیو تھراپی کے کچھ فائدے بھی ہیں کہ ’اس طرح ہم ان لوگوں سے بھی رابطے کا موقع ملتا ہے جو شاید کلینک آنے سے کتراتے ہوں۔‘
وڈیو گیمز لاکھوں لوگوں کے لیے وقت گزارنے، تفریح اور رابطے کا ذریعہ ہیں تو کب یہ مشغلہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے؟
یہ بھی پڑھیے
صرف ایک مشغلہ؟
برطانیہ کے سرکاری محکمے آف کوم کے مطابق کورونا کی عالمی وبا کے دوران ملک کے 62 فیصد بالغ افراد ویڈیو گیمز کھیلنے میں مصروف رہے اور آکسفرڈ یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ویڈیو گیم کھیل دراصل لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
پروفیسر اینڈریو پرزیبائلسکی کے خیال میں ویڈیو گیمز بذات خود بری نہیں ہوتی۔
’جہاں تک کہ میں بتا سکتا ہو ایسے سائنسی شواہد زیادہ نہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ وڈیو گیم نفسیاتی ضرر پہنچاتے ہیں۔ میرے خیال میں تو انھیں بھی دوسرے مشاغل کی طرح سے دیکھنا چاہیے۔‘
نیشنل سینٹر فار گیمنگ ڈس آرڈر کی بیکی ہیرِس کہتی ہیں کہ ان کا ادارہ ویڈیو گیمز کا مخالف نہیں۔
’ہم مانتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے گیمنگ فائدہ مند ہے۔ ہم تو اس کم تعداد میں لوگوں کی بات کرتے ہیں جن کے لیے یہ مسئلہ بن گئی اور ان کی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔‘
ورلڈ آف وار کرافٹ کو بہت سے لوگ جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں
ایک مریض مائک نے بتایا کہ انھیں عمر کے تیسرے عشرے میں وڈیو گیمز کھیلنے کی لت پڑی۔ وہ دن میں 14 گھنٹے ورلڈ آف وارکرافٹ کھیلتے تھے۔ اس کی وجہ سے گھر والوں سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور ان کی تعلیم کا بھی حرج ہوا۔ انھوں نے آٹھ ہفتے تک علاج کروایا جس سے انھیں زندگی اور گیمز کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کا موقع ملا۔
’میں نے ویڈیو گیم کھیلنا کم کر دیا۔ اس سے بیوی سے میرے تعلقات میں بہتری آ گئی۔ والدین کے ساتھ میرے تعلقات بہتر ہو گئے۔ میں نے اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی مگر مجھے اس آخری دھکے کی ضرورت تھی جس سے میری زندگی صحیح راستے پر آ گئی۔‘
مائک اب بھی کھیلتے ہیں مگر زیادہ نہیں: ’ایسا نہیں کہ میں ویڈیو گیمز کو برا سمجھتا ہوں۔ بس یہ ہے کہ میں اعتدال میں رہ کر کھیلتا ہوں۔‘
مائک اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی باتوں سے سٹِیو اور لوئیز کی ہمت بندھتی ہے کہ ایک دن ان کا بیٹا بھی اپنے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو سکے گا۔
لوئیز کہتی ہیں کہ ’میں پُر امید ہوں کیونکہ میں فیس بک پر ایسے بہت سے لوگوں کو فالو کرتی ہوں جو ہمارے بیٹے کی طرح ہیں مگر اب وہ بالغ ہو چکے ہیں اور میں انھیں اس لیے فالو کرتی ہوں کہ ان سے مجھے نئی معلومات ملتی ہیں اور میرے اندر یہ احساس بھی جاگتا ہے کہ ایک روز وہ اپنا راستہ ڈھونڈ لے گا۔‘
اس مضمون میں مریضوں کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔
Comments are closed.