قوت سماعت سے محروم افراد کے اہلخانہ کو درپیش مشکلات: ’ڈاکٹر آئے اور مجھے اپنے سماعت سے محروم والد کو بتانا پڑا کہ وہ مر رہے ہیں‘
- ڈاکٹر حمیرا اقبال اور ڈیوِڈ رِیڈ
- بی بی سی ورلڈ سروس
سات برس کی فرانچیسکا اپنے والد کے ساتھ
2019 میں جب فرانچیسکا بسی کے سماعت سے محروم والد ہسپتال میں داخل ہوئے تو فرانچیسکا نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے والد کے لیے اشاروں کی زبان میں انٹرپریٹ یعنی ترجمانی کرنے کا فیصلہ کیا مگر کیا رشتہ داروں کے لیے مناسب ہے کہ وہ سماعت سے محروم اپنے پیاروں کے لیے ہر موقعے پر ترجمانی کے فرائض انجام دیں؟
فرانچیسکا اپنے بوڑھے باپ کے پاس تھیں جب ڈاکٹر ایک ہولناک خبر لایا۔
سماعت سے محروم ان کے والد ایک ماہ سے ہسپتال میں تھے اور فرانچیسکا نے کئی بار نرسوں سے کہا تھا کہ وہ ان کے لیے کسی انٹرپریٹر (ترجمان) کا بندوبست کر دیں مگر اس سارے عرصے کے دوران انھیں برٹش سائن لینگویج (بی ایس ایل) کی طرف سے صرف دو گھنٹوں کی ترجمانی کی مدد مل سکی۔
فرانچیسکا کہتی ہیں کہ ’جب میرے والد تندرست تھے تو وہ ہونٹوں کی حرکت سے بات سمجھ لیتے تھے مگر اب وہ دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے۔‘
برطانیہ میں ایسے ہزاروں افراد ہیں جو سماعت سے محروم اپنے والدین کے لیے انٹرپریٹ کرتے ہیں۔ اس مشکل گھڑی میں 42 سال کی فرانچیسکا بھی اپنے والد کی مدد کو آئیں اور انھوں نے اشاروں کے ذریعے اپنے والد کو یہ خبر سنائی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دیر بالکل نہیں لگائی۔ مجھ سے کہا گیا۔ میں نے انٹرپریٹ کر دیا۔ مجھے انھیں بتانا پڑا کہ وہ مر رہے ہیں۔‘
فرانچیسکا 1980 کی دہائی میں ایسے والدین کے ہاں پیدا ہوئیں جو سماعت سے محروم تھے۔ اس زمانے میں نہ موبائل تھے اور نہ ٹیکسٹ میسج۔ انھوں نے سات ماہ کی عمر ہی میں اشاروں کی زبان میں بات کرنا شروع کر دی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’برٹش سائن لینگویج میری پہلی بولی ہے۔ یہ میرے وجود کا حصہ ہے، مجھے بہت پیاری ہے۔‘
فرانچیسکا پر بہت چھوٹی عمر ہی سے بڑی ذمہ داریاں آن پڑی تھیں، ان کے والدین کے پاس ان باتوں کے لیے جنھیں ہم معمول سمجھتے ہیں، اپنی بیٹی پر انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ چار برس کی عمر میں انھوں نے اپنے والدین کے لیے ٹیلی فون کرنا اور آٹھ سال کی عمر میں بینک کا کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ان کی ہمیشہ سے کوشش رہتی تھی کہ وہ مجھ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں مگر میرے لیے یہ آسان تھا۔ میں خود کو بڑا محسوس کرتی تھی، میں دوسروں سے مختلف اور اہم تھی۔‘
مگر اب جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ والدین کی مسلسل مدد کرنا کتنا دشوار تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ہر وقت مدد کرنے کے لیے تیار رہنا ہوتا تھا۔ مجھے کسی وقت ایسا نہیں لگا کہ مجھے ترجمانی سے فرصت مل گئی ہو۔‘
’جب آپ بچے ہوتے ہیں تو آپ انکار نہیں کر پاتے، آپ کو اپنی حد کا پتا ہی نہیں ہوتا۔‘
سماعت سے محروم والدین کا بچہ ہونا کوئی کھیل نہیں۔ کمیڈین رے بریڈشا نے تو اپنے بچپن کے قصے سنانے کو پیشہ بنا لیا ہے۔
وہ از راہِ مذاق بتاتے ہیں کہ ’جب میں اشاروں کی زبان میں کوئی گالی دے دیتا تھا تو میرے والدین مجھے کچن میں لے جا کر صابن سے میرے ہاتھ دھلواتے تھے‘ مگر ان کا کہنا ہے کہ والدین کے لیے ان کے قریب المرگ ہونے کی تشخیص کی ترجمانی ان کی اپنی اولاد سے کروانا ٹھیک نہیں۔
فرانچیسکا اپنے والد کے ساتھ
ہیریوٹ-واٹ یونیورسٹی میں سائن لینگویج اور کمیونیکشن کی سپیشلسٹ پروفیسر جمینا نیپئر کا کہنا ہے کہ سماعت سے محروم والدین کے بچوں میں زبان کی صلاحیت بہت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سوجھ بوجھ اور جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ بچپن ہی سے بالغ افراد کے اشاروں اور پیچیدہ باتوں کو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
فرانچیسکا اور رے کی طرح پروفیسر نیپئر کے والدین بھی سماعت سے محروم تھے۔
برطانیہ میں تقریباً 11 ملین افراد یا تو سماعت سے محروم ہیں یا اونچا سنتے ہیں اور ملک کے اندر برٹش سائن لینگویج استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 51 ہزار ہے۔
اکتیس سال کی پرل کلِنٹن کو بھی ایک مرتبہ موت کے قریب ہونے کی تشخیص کے بارے میں بتانا پڑا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 12 سال تھی جب ان سے کہا گیا کہ وہ یہ خبر اپنی دادی کو سنائیں۔
اب پرل اس بات کے لیے مہم چلا رہی ہیں کہ رشتہ داروں کو میڈیکل اپائنٹمنٹ کے لیے نہ بلایا جائے کیونکہ نہ صرف طب کی پیچیدہ معلومات کی اپنے رشتہ داروں کے لیے ترجمانی کرنا مشکل کام ہے بلکہ بری خبر سنانے کے خود ان پر برے اثرات بھی پڑتے ہیں۔
2010 کے اِکوالیٹی ایکٹ (قانون مساوات) کے تحت سماعت سے محروم افراد کے لیے ہسپتالوں کے اندر ترجمانی کی سہولیات مہیا ہونی چاہیے مگر عملی طور پر ایسے ترجمانوں کی قلت ہے۔ ہسپتال کے عملے پر دباؤ ہوتا ہے اور وہ اکثر یہ نہیں سمجھتا کہ رشتہ داروں سے ترجمانی کروانا مسئلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
فرانچیسکا کہتی ہیں کہ ’یہ ان کی غلطی بالکل نہیں۔ وہ بہت زیادہ مصروف اور دباؤ میں ہوتے ہیں۔‘
1952 میں جب فرانچیسکا کی سماعت سے محروم والدہ کو ایک بورڈنگ سکول میں داخل کروایا گیا تھا لیکن آج کی دنیا اس سے کافی مختلف ہے۔ اس وقت ان کی عمر چار برس تھی۔
فرانچیسکا کہتی ہیں کہ اس وقت سماعت سے محروم افراد کو ’معاشرے میں عام لوگوں کی طرح‘ فعال بنانا مقصد تھا مگر اپنی والدہ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا سوچ کر انھیں غصہ آ جاتا ہے۔
فرانچیسکا کہتی ’میری والدہ کو جکڑ کر رکھا جاتا تھا، ان کے بازوں پلنگ کے ساتھ باندھ دیے جاتے تھے اور ہاتھوں میں دستانے پہنا دیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ انھیں فضائی حملے سے بچاؤ کے ایک شیلٹر میں بند کر دیا گیا تھا۔‘
’ذرا تصور کیجیے ایک چھوٹی بچی کا جسے اپنے دوستوں سے اشاروں میں بات کرنے پر سزا دی جاتی ہے، جو سن نہیں سکتی اور گھر والوں سے بھی دور ہے۔‘
فرانچیسکا کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ ذہین ہیں مگر انھوں نے 16 برس کی عمر میں بغیر کوئی سند لیے تعلیم ختم کر دی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ بورڈنگ سکول میں روا رکھے جانے والے سلوک کے نفسیاتی اثرات ان کی والدہ بڑے ہو کر بھی محسوس کرتی تھیں۔
فرانچیسکا کا کہنا ہے کہ ’سماعت سے محروم افراد کی ایک پوری نسل کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
فرانچیسکا بسی نے اپنی والدہ کے آپریشن کے دوران انھیں سرجن کے سوالات اور ہدایت سے آگاہ کیا
سماعت سے محروم افراد کو آج بھی بہت سی محرومیوں کا سامنا ہے۔ سماعت سے محروم ماں اور ایکٹیوِسٹ روبینہ اورنگزیب طارق کو ایک ٹرین کمپنی نے مسافروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی غرض سے مشیر مقرر کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ ٹکٹ آفس کے شیشوں پر روشنی کے انعکاس کی وجہ سے ہونٹوں کی حرکت کو سمجھنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس مسئلہ کو روشنی بدل کر یا بغیر انعکاس کے شیشے لگا کر حل کیا جا سکتا تھا مگر کچھ نہیں کیا گیا۔
روبینہ کے لیے یہ بات اشتعال انگیز ہی نہیں بلکہ گھٹیا ہے کیونکہ ٹرین کے ٹکٹ خریدنے کے لیے ان کی 12 سال کی بیٹی کو ساتھ جانا پڑتا تھا۔
مگر بہت سی مثبت تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ سماعت سے محرومی کے بارے میں آگہی بڑھنے سے بہت فرق پڑا ہے۔ سماعت سے محروم والدین کے بچوں کی بہتر تعلیم تک رسائی ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایسے والدین کا انحصار اولاد پر کم کر دیا ہے۔
اب ایسے ادارے وجود میں آ چکے ہیں جہاں یہ لوگ اپنے تجربات ایک دوسرے کو بتاتے ہیں، اپنے ورثے پر فخر کرتے ہیں اور میڈیا میں سماعت سے محروم افراد کی کم نمائندگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
21 برس کی ایلا ڈیپلیج کا تعلق بچوں کی اس نسل سے ہے جو سماعت سے محروم اپنے والدین کے لیے ترجمانی کرنے کا دباؤ اتنا محسوس نہیں کرتی جتنا شاید دوسروں نے کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت دباؤ اور ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرتی تھی اور یہ بات میرے لیے اچھی نہیں تھی۔ پھر میں نے کچھ عرصے پہلے ناں کہنے کا فیصلہ کر لیا۔‘
ایلا کے والدین ان کے اس فیصلے کے حامی ہیں مگر وہ اس بات کی قائل ہیں کہ ترجمانی کے کام نے ان کی لسانی لیاقت بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
فرانچیسکا کی اپنے والدین کے لیے عمر بھر ترجمانی کرنے کی ذمہ داری نے ان کی شخصیت پر بھی مثبت اثر چھوڑا ہے۔ وہ ایک ٹی وی نیٹ ورک کے لیے سب ٹائٹلنگ (گفتگو کو سکرین پر تحریر میں لاتی) کرتی ہیں۔
ایک ہی وقت میں بیٹی اور ترجمان ہونا اور یہ جاننا کہ ان کے والد مرنے والے ہیں اور اسی لمحے یہ خبر اپنے والد کو اشاروں سے سمجھانا ان کے لیے مشکل تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی زندگی میں بہت سے مشکل کام کیے ہیں مگر یہ سب سے مشکل تھا۔‘
تصاویر بشکریہ فرانچیسکا بسی
Comments are closed.