امریکہ چین اور روس: کیا چینی سفیر کے امریکہ کے لیے دیے گئے بیان نے روس کے پرانے زخموں پر نمک چھڑکا ہے؟
- رجنیش کمار
- نامہ نگار، بی بی سی
روس کے رہنما اب بھی سوویت یونین کے خاتمے کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ گذشتہ ماہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے تین دہائیوں بعد بھی یہ سانحہ روسی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔
پوتن کا کہنا تھا کہ ‘ہم جسے سوویت یونین کہتے ہیں وہ تاریخی روس تھا۔‘ پوتن کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب سوویت یونین کا حصہ یوکرین اب روس کی جانب سے حملے کے خطرے سے دوچار ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کا اختتام ہوا اور کوئی بھی ایسا ملک نہ بچا جو امریکی اجارہ داری کا مقابلہ کر سکے۔
اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ دنیا اب ایک ہی ملک میں رائج نظام کے تحت چلے گی۔ تاہم اب ایک نئی سرد جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔ اس مرتبہ امریکہ کا مقابلہ روس نہیں چین کر رہا ہے۔
چین نے اب تک اس ممکنہ یا ‘جاری‘ سرد جنگ کے بارے میں جو بھی کہا ہے یہ صرف امریکہ کے لیے ایک چیلنج نہیں سمجھا جا رہا بلکہ اسے روس کے پرانے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا بھی کہا جا رہا ہے۔
امریکہ میں چین کے سفیر چن گانگ نے گذشتہ پیر کو ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ اگر نئی سرد جنگ جاری ہے تو چین سوویت یونین نہیں ہے جو ہار جائے گا۔ چن گانگ نے امریکہ کو تنبیہ بھی کی کہ وہ تائیوان کے معاملے میں احتیاط سے کام لے کیونکہ یہ تنازع دونوں ممالک کو آمنے سامنے لا سکتا ہے۔
چن گانگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات ہونا بہت مشکل ہیں کیونکہ چین کے جوہری ہتھیار امریکہ کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ چن گانگ کا بیان 24 جنوری کو چینی سفارت خانے کی جانب سے بھی شائع کیا گیا تھا۔ انھیں گذشتہ سال جولائی میں امریکہ میں چین کا سفیر بنایا گیا تھا۔
ان کے بیان کی تفصیل کچھ یوں ہے: ‘ایسا کیوں لگتا ہے کہ نئی سرد جنگ واپس آ رہی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں کچھ لوگ سرد جنگ کی ذہنیت کا شکار ہیں اور چین کے ساتھ سوویت یونین جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ لیکن چین سوویت یونین نہیں ہے اور امریکہ وہ نہیں جو 30 سال پہلے تھا۔ لہٰذا دونوں ممالک کا پرامن انداز اپنانا ہی وسیع تر مفاد میں ہے۔’
چن گانگ کا مزید کہنا تھا کہ ‘چین نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجوہات کا بغور جائزہ لیا ہے اور اس سے سبق سیکھا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ‘چین کی کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی طرح ضدی نہیں ہے۔ امریکہ اب چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ چین میکسیکو اور کینیڈا کے بعد امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔’
انھوں نے کہا کہ رواں سال دونوں ممالک کی باہمی تجارت 700 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
کیا چینی سفیر کا یہ بیان امریکہ کے لیے خطرہ ہے یا وہ روس کو بتا رہا ہے کہ اگر اس کی قیادت نے ‘غلطیاں’ نہ کی ہوتیں تو سوویت یونین کا خاتمہ نہ ہوتا؟ کیا چین بھی روس کو آئینہ دکھا رہا ہے کہ اس کی کمزوریاں کہاں تھیں؟
سوویت یونین کی کمزوری
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر برائے روسی اور وسطی ایشیائی سٹڈیز کے پروفیسر سنجے پانڈے کہتے ہیں کہ ‘یہ بالکل درست ہے کہ چین نہ صرف امریکہ کو دھمکیاں دے رہا ہے بلکہ وہ روس کو یہ بھی بتا رہا ہے کہ آپ کی قیادت کمزور ہے، کیونکہ سابقہ رہنماؤں کی نگرانی میں سوویت یونین ٹوٹا۔’
پروفیسر پانڈے کہتے ہیں کہ ’ماؤزے تنگ کے بعد چین میں معاشی انقلاب لانے کا سہرا ڈینگ شیاؤ پنگ کو جاتا ہے۔ سوویت یونین کے پاس ڈینگ شیاؤپنگ جیسا لیڈر نہیں تھا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘ڈینگ کی اقتصادی اصلاحات کے بعد ہی چین نے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک طور پر جگہ بنائی۔ دوسری جانب سوویت یونین ایسا نہیں کر سکا۔ ادھر چین کی پالیسی واضح تھی۔ یہاں طاقت کا محور ریاست ہے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ تاہم معاشی اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے حوالے سے مقابلہ بھی ہو گا اور شفافیت بھی۔
‘سوویت یونین اس دوران معاشی سطح پر تو خود کو مضبوط نہیں کر سکا، اس کی سیاسی سطح پر بھی گرفت ڈھیلی ہو گئی۔’
جب ڈینگ شیاؤ پنگ نے سنہ 1978 میں معاشی اصلاحات شروع کیں تو عالمی معیشت میں چین کا حصہ صرف ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تھا جو 2017 میں بڑھ کر 18.2 فیصد ہو گیا۔
چین اب نہ صرف ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے بلکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یعنی جب 15ویں اور 16ویں صدی میں عالمی معیشت میں اس کا حصہ 30 فیصد کے قریب تھا۔
عام طور پر چین کو طاقتور بنانے میں جن تین رہنماؤں کا کردار نمایاں سمجھا جاتا ہے، ان میں ماؤ زی تنگ، ڈینگ شیاؤ پنگ اور موجودہ رہنما شی جن پنگ شامل ہیں۔
ڈینگ شیاؤ پنگ کے معاشی انقلاب کے 43 سال بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک بار پھر چین شی جن پنگ جیسے مضبوط لیڈر کی قیادت میں آگے بڑھ رہا ہے۔
کیا چین نے روس کے زخموں پر نمک چھڑکا؟
سنجے پانڈے کا کہنا ہے کہ چین بیشک سوویت یونین کا نام لے کر امریکہ کو دھمکی دے رہا ہے لیکن اس کے سفیر کا بیان پوتن کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
پروفیسر پانڈے کا کہنا ہے کہ ‘پوتن سوویت یونین کے ٹوٹنے کو ایک المیہ قرار دیتے ہیں اور چین ان کی مثال استعمال کرتے ہوئے جب ایسے بیانات دے گا کہ ہم سوویت یونین نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ روس کے لوگ بے چینی محسوس کریں گے۔’
پروفیسر پانڈے کہتے ہیں کہ ‘سوویت یونین کی ضد جس کے بارے میں چینی سفیر بات کر رہے ہیں وہ درست ہے۔ اگر سوویت یونین کے رہنماؤں نے اپنی معاشی اور ٹیکنالوجیکل سطح پر خود کو تبدیل کر لیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ‘ہانگ کانگ کی یونیورسٹیوں سے تیانمن سکوائر کے قتل عام کی یادگاروں کو ہٹا کر، چین نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تائیوان کے تنازع سے سختی سے نمٹے گا اور اس کے مرکزی سیاسی نظام کو متزلزل نہیں کیا جا سکتا۔’
سنجے پانڈے کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کی باہمی تجارت کا 700 ارب ڈالر تک پہنچنا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود ایک دوسرے پر کتنا انحصار ہے۔
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تجارتی روابط نہیں تھے لیکن امریکہ کا چین پر انحصار کئی حوالوں سے بہت زیادہ ہے۔ امریکہ چاہ کر بھی چین کے ساتھ دو طرفہ تجارت نہیں روک سکتا۔
اس سال 29 مارچ کو یروشلم پوسٹ کے سابق ایڈیٹر اور معروف پلٹزر ایوارڈ یافتہ کالم نگار بریٹ سٹیفنز نے نیویارک ٹائمز میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ‘ہم دوسری سرد جنگ کیسے جیت سکتے ہیں؟’
اس تحریر کے آغاز میں سٹیفنز نے لکھا کہ ‘پہلی سرد جنگ میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کے پاس سوویت یونین اور اس کے سیٹلائٹس کے خلاف خفیہ ہتھیار تھے۔ یہ ہتھیار نہ تو سی آئی اے نے بنائے اور نہ ہی یہ ڈارپا یا کسی لیب سے آیا۔ یہ ہتھیار کمیونزم تھا۔’
یہ بھی پڑھیے
کمیونزم ایک خفیہ ہتھیار؟
سٹیفنز نے لکھا: ‘مغرب کو روسی کمیونزم کی وجہ سے فائدہ ہوا کیونکہ یہ نظام فری مارکیٹ کے سامنے ٹک نہیں سکتا تھا۔ سوویت پالیسیاں ناکام ہو رہی تھیں۔ سوویت یونین میں کارکنوں کے حوالے سے مشہور تھا کہ ‘وہ ہمیں پیسے دینے کا دکھاوا کرتے ہیں اور ہم کام کرتے ہیں۔’ اس پالیسی نے ہزاروں جوہری ہتھیاروں سے مسلح سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر دیا۔’
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ‘اب ہم دوسری سرد جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس مرتبہ چین ہمارے سامنے ہے۔ دونوں ممالک واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ نہ صرف اُن کے مفادات بلکہ اُن کی اقدار بھی ٹکرا رہی ہیں۔ امریکہ کہہ رہا ہے کہ چین قواعد پر مبنی عالمی نظام کو چیلنج کر رہا ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اپنی جمہوریت دنیا پر مسلط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔’
چین پہلے ہی اس کمیونزم کو تباہ کر چکا ہے جسے سیٹفنز سرد جنگ میں سوویت یونین کا خفیہ ہتھیار کہہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین فری مارکیٹ سسٹم میں بھی امریکہ کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور امریکہ کو خوف ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گا۔
دونوں اطراف کا کہنا ہے کہ وہ سرد جنگ نہیں چاہتے لیکن امریکہ کے صدر جو بائئڈن نے حال ہی میں کہا ہے کہ بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں کوئی وفود نہیں جائیں گے۔
امریکہ نے اس فیصلے کی وجہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو قرار دیا ہے جبکہ آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان نے بھی بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کے امریکی فیصلے کی تائید کی ہے۔
مسابقت
چین نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان سکیورٹی معاہدے سرد جنگ کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔
چن گانگ کا کہنا ہے کہ امریکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا تعین کرنے کے لیے مسابقت کا استعمال کر رہا ہے اور امریکہ کو مسابقت کا استعمال چین کو روکنے کے لیے نہیں کرنا چاہیے۔
چینی سفیر نے کہا کہ ‘امریکہ چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر کے عالمی سپلائی چین میں تعطل پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔’
چینی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ مسابقت کا مطلب ایک فریق کی فتح اور دوسری کی شکست نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مسابقت منصفانہ اور مثبت ہونی چاہیے۔ چن گانگ نے امریکہ کو تائیوان کے معاملے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اس حوالے سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ یہ دونوں ممالک کو تصادم کی راہ پر گامزن کر دے گا۔
اس کے علاوہ اُنھوں نے چین اور روس کے درمیان دوستی کا دفاع بھی کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں ممالک غیر منصفانہ سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
چینی سفیر نے کہا کہ امریکہ چین اور روس مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُن کے مطابق چین اور روس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بالکل اسی طرح جیسے امریکہ اور کینیڈا پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بھی ہیں۔
چینی سفیر نے کہا کہ امریکہ روس اور چین کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے سہہ فریقی مذاکرات چاہتا ہے مگر چین ان مذاکرات میں بمشکل ہی شرکت کرے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر ‘چین ان مذاکرات میں شریک ہوا تو اس کا مطلب ہو گا کہ چین پہلے اپنے جوہری ہتھیاروں کو امریکہ کی سطح پر لے کر آئے یا پھر امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی کرے۔’
سرد جنگ کیا تھی؟
سنہ 1961 میں سوویت یونین کو محسوس ہوا کہ امریکہ کیوبا پر حملہ کر دے گا اور فڈیل کاسترو کی حکومت ختم کر دی جائے گی۔ چنانچہ سوویت رہنما نکیتا خروشیف نے سنہ 1962 میں کیوبا میں جوہری میزائل تنصیب کروا دیے۔ ان میزائلوں کی تنصیب کے بعد امریکہ روس کے نشانے پر آ گیا۔
ایسا لگنے لگا تھا کہ جنگ ہو جائے گی۔ اس واقعے کو کیوبن میزائل بحران کہا جاتا ہے۔ بالآخر دونوں ممالک کا ایک معاہدہ ہوا اور ایک تباہ کُن جنگ رک گئی۔ کیوبن میزائل بحران کو سرد جنگ کا سب سے خطرناک موڑ قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد یہ سرد جنگ سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مختلف ٹکراؤ، تنازعات اور دشمنیوں کی صورت میں جاری رہی۔
سرد جنگ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد شروع ہوئی تھی۔ پوری دنیا دو کیمپوں میں بٹ چکی تھی۔ ایک کیمپ کی سربراہی سوویت یونین اور دوسری کی امریکہ کر رہا تھا۔
مگر سنہ 1991 تک سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
اب چین امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے اور اسے دوسری سرد جنگ کی ابتدا کہا جا رہا ہے۔روس کے رہنما اب بھی سوویت یونین کے خاتمے کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
گذشتہ ماہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے تین دہائیوں بعد یہ سانحہ آج بھی روسی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔
Comments are closed.