hookup Cresskill New Jersey hookup Telford Pennsylvania office hookup bbw hookups app daty hookup american hookup lisa wade pdf

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جب امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کی

جب امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کی

  • وقار مصطفیٰ
  • صحافی و محقق، لاہور

افغانستان میں سوویت یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے، 1978 کے موسم بہار تک افغانستان نسبتاً مستحکم اور غیر وابستہ ملک تھا۔

امریکہ کے خارجہ تعلقات 1977-1980 کے عنوان سے افغانستان سے متعلق ڈی کلاسیفائی کی جانے والی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ’کابل میں ہونے والے واقعات شاذ و نادر ہی اوول آفس اور نیشنل سکیورٹی کونسل میں توجہ پاتے تھے۔‘

’سفارت خانہ اور محکمہ خارجہ کو آنے اور جانے والی کیبلز نسبتاً کم تھیں اور ان میں زیادہ تشویش کی بات نہیں تھی۔‘

امریکی قوانین کے تحت ایک خاص عرصہ کے بعد اہم پالیسی امور سے متعلق یہ خفیہ دستاویزات، حاشیہ میں لکھے الفاظ سمیت، امریکی محکمہ خارجہ کو اپنے دفترِ تاریخ (آفس آف ہسٹری) کے ذریعہ افشا کرنا ہوتی ہیں۔

اپریل 1978 میں کمیونزم کی جانب جھکاؤ رکھنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (پی ڈی پی اے) نے سوویت یونین کی آشیرباد سے ایک انقلاب میں صدر داؤد خان سمیت ان کے تمام خاندان کو ہلاک کر دیا۔ اس عمل کو افغان کیلنڈر کے مہینے ثور کی نسبت سے ’ثور انقلاب‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

داؤد خان 40 برس تک افغانستان کے بادشاہ رہنے والے ظاہر شاہ کا 1973 میں تختہ الٹ کر صدر بنے تھے۔

امریکی دستاویزات کے مطابق کمیونسٹوں کی زیر قیادت صدر خان کی معزولی کے سرد جنگ پر واضح اثرات مرتب ہوئے۔ 27 اپریل 1978 کو کابل سے امریکی سفارت خانہ کے ٹیلی گرام 3239 میں بتایا گیا کہ صدر داؤد ’مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔‘ اگلے ڈیڑھ سال کے دوران امریکی پالیسی سازوں کے لیے افغانستان بحران کی اہمیت بتدریج بڑھتی گئی۔

1978 کے بقیہ عرصے میں ’نئی افغان حکومت اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں بہتری کے ساتھ، پاکستانی حکومت کی تشویش بڑھ گئی۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد، جو طویل عرصے سے کشیدگی کا باعث ہے، کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی تنازع اسلام آباد کو ایک فوجی سپر پاور کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف کھینچ سکتا تھا۔‘

یکم مئی 1978 کو پاکستان میں سفیر آرتھر ہمل نے اطلاع دی کہ کابل میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے حکومت پاکستان سوویت حامی افغان حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والے عمومی عدم تحفظ اور عدم استحکام کے امکان پر ’شدید فکر مند‘ ہے۔

جولائی 1978 کے اسلام آباد کے دورے کے دوران، انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سیاسی امور ڈیوڈ نیوزوم نے پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سردار شاہنواز سے وزارت خارجہ میں ملاقات کی۔

پاکستان کے خزانہ، منصوبہ بندی اور رابطہ کاری کے وزیر غلام اسحاق خان نے نیوزوم سے کہا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ’امریکی ترجیحات کی کتاب میں پاکستان کی اب کوئی جگہ نہیں۔‘

نیوزوم نے پاکستانی وزیر خارجہ آغا شاہی سے بھی ملاقات کی۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اور خطے میں نئی حقیقتوں کے پیش نظر، پاکستان کے لیے اب صرف ایک ہی آپشن کھلا دکھائی دے رہا ہے کہ وہ سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن سے دستبردار ہو جائے۔

اگست میں، پاکستانی صدر محمد ضیا الحق نے پاکستانی سرزمین پر سوویت حمایت یافتہ افغان تجاوزات کے سد باب کے لیے واشنگٹن سے ضمانت مانگی۔

سال کے آخر تک، پاکستان کے افغانستان میں سوویت اثر و رسوخ کے بڑھنے کے خدشات ثابت ہو چکے تھے: کابل اور ماسکو نے دسمبر میں ایک ’دوستی کے معاہدے‘ پر دستخط کیے جس میں اقتصادی، فوجی اور سیاسی تعاون کا وعدہ کیا گیا۔

افغانستان میں سوویت یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دریں اثنا، امریکہ افغان تعلقات سفیر ایڈولف ڈبس کے اغوا اور موت کے بعد تیزی سے بگڑ ے۔

انھیں فروری 1979 میں کابل میں افغان انتہا پسندوں نے اغوا کیا اور وہ آخر کار افغان اور سوویت حکام کی قیادت میں بچاؤ کی کوشش کے دوران مارے گئے۔ یہ تعلقات پھر کبھی بحال نہ ہوئے۔

امریکی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ ’اس واقعے کے فوراً بعد امریکی حکام نے کابل میں کمیونسٹ حکومت کے مخالف افغان باغیوں کی مدد کرنے کے آپشنز پر غور کیا۔ اس موڑ پر، مہلک امداد کو بہت خطرناک سمجھا گیا۔

’افغان دیہی علاقوں میں حکومت کے خلاف بغاوت پہلے ہی جاری تھی۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کے ساتھ باغیوں کی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ برداشت کر رہا تھا، اور مرکزی حکومت کے عدم استحکام کے ساتھ اس بات کے امکانات بڑھ گئے کہ ماسکو فوجی مداخلت کا سہارا لے گا۔‘

’جولائی میں، واشنگٹن نے افغان باغیوں کو پاکستان کے ذریعے مواصلاتی آلات، غیر مہلک جنگی سامان، اور نقد رقم فراہم کرنے کے لیے ایک خفیہ پروگرام کا عہد کیا۔ یہ ایک ایسے آپریشن کی معمولی شروعات تھی جسے بالآخر امریکی تاریخ میں اس وقت تک کا سب سے طویل اور سب سے بڑا آپریشن بننا تھا۔‘

1979 کے آخر تک شورش کابل میں مرکزی حکومت کے لیے خطرہ بن چکی تھی، اور حال ہی میں بنے افغان رہنما حفیظ اللہ امین نے کریملن کا اعتماد کھو دیا تھا۔ بریزنیف نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں کہا گیا تھا کہ ایک بار جب کوئی ملک کمیونسٹ ہو جائے، تو ماسکو اسے ’انقلابی‘ کیمپ میں رکھے گا، سوویت قیادت نے افغانستان پر مکمل سیاسی اور فوجی قبضے کا فیصلہ کیا۔

24 دسمبر کو سوویت افواج نے ملک پر حملہ کیا اور امین کو کابل میں صدارتی محل میں قتل کر دیا۔ دو دن بعد صدر کارٹر نے افغان مجاہدین باغیوں کو مہلک امداد بھیجنے کے لیے ایک نئی خفیہ کارروائی کی منظوری دی، بریزنیف کو سخت الفاظ میں لکھے گئے خط میں حملے کی سرزنش کی، اور سوویت پالیسی کے خلاف احتجاج کے طور پر امریکی اتحادیوں کی مشاورت سے سفارتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔‘

جیسا کہ متعدد دستاویزات ظاہر کرتی ہیں، امریکی حکام اصل واقعہ سے کم از کم ایک سال پہلے سوویت حملہ کے امکان سے بخوبی واقف تھے۔

تب امریکی امداد بند تھی کیوں کہ پاکستان ایٹمی پابندیوں کی زد میں تھا۔ 24 دسمبر 1979 کا آنا تھا کہ سب کچھ ایکا ایکی بدل گیا۔

افغانستان میں سوویت یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے صدرجمی کارٹرکی انتظامیہ کو کیسے شتابی سے پاکستان کے لیے فوجی اورمعاشی امداد کا پروگرام ترتیب دینا پڑا۔

ان دستاویزات کے مدیران کا کہنا ہے کہ ’اس کے لیے خطہ میں ایک متوازن عمل کی ضرورت تھی جس سے امریکی خارجہ پالیسی کے یہ باہم منسلک مقاصد پورے ہو سکیں: افغانستان میں شورش پاکستان میں پھیلنے کی صورت میں پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانا، لڑائی کے نتیجے میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی آبادی کو سنبھالنے کے لیے پاکستان کی اقتصادی صلاحیت کو تقویت دینا، سمنگٹن ترمیم کے تحت پاکستان کے لیے فوجی امداد پر پابندی کا حل تلاش کرنا، اور فوجی مدد اس طرح فراہم کرنا جس سے انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافہ نہ ہو۔‘

یادداشتوں کا ایک سلسلہ چلا۔ اس کا اختتام صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امورزبیگنیو بریزینسکی کی طرف سے صدر کارٹر کو، آٹھ جنوری 1980 کو ایک یادداشت پر ہوا۔ اس میں امدادی پیکج کو حتمی شکل دی گئی۔‘

میمورنڈم میں بریزینسکی نے کارٹر کے لیے لکھا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ آغا شاہی کے آنے والے دورہ سے متعلق، ’ہمیں مختلف مسائل پر آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ ہم یک آواز ہو کر بات کریں۔‘

انھوں نے کارٹر کے فیصلہ کے لیے تین نکات درج کیے۔ پہلے کارٹر سے پاکستان کو سمنگٹن ترمیم سے مستثنیٰ کرنے کے لیے قانونی اقدامات کی منظوری مانگی گئی۔ کارٹر نے منظوری دے دی، اور دائیں حاشیہ میں لکھا: ’میں پھر بھی ایٹمی عدم پھیلاؤ کی یقین دہانی کے کچھ ذکر کو ترجیح دوں گا، اس سے زیادہ نہیں جو ہم پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔‘

دوسرا نکتہ، کئی ذیلی نکات کے ساتھ، پاکستان کو فوجی اور اقتصادی امدادی پیکج کے حوالہ سے آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ کی منسلکہ یادداشت کا خلاصہ ہے۔

کارٹر کو 10 کروڑ ڈالر فارن ملٹری سیلز کریڈٹ پر فیصلہ کرنا تھا۔ اس کے بارے میں بریزینسکی نے لکھا: ’تمام ایجنسیاں متفق ہیں کہ اس کی ضرورت ہے۔‘ کارٹر نے ذیلی نکتہ کی منظوری دی۔ اس کے بعد اکنامک سپورٹ فنڈز میں 10 کروڑ ڈالر تھے۔

بریزینسکی نے نوٹ کیا: ’تمام ایجنسیاں اس رقم پر متفق ہیں‘، اور سوال صرف یہ تھا کہ کیا امداد مشروط ہونی چاہیے۔ بریزینسکی نے محکمہ خارجہ کے ساتھ اتفاق کیا کہ امدادی پیکج اتنا موثر نہیں ہو گا اگر اسے جاری پاکستانی مالیاتی اصلاحات کے اقدامات سے منسلک کیا جائے اور یہ کہ امریکہ کو پاکستان کے لیے بین الاقوامی امدادی کنسورشیم میں دوبارہ شامل ہونے کا عہد کرنا چاہیے لیکن اقتصادی پیکج کے ساتھ ’اضافی شرائط منسلک‘ نہیں کرنا چاہیئں۔

ذیلی نکتہ کے آخر میں، کارٹر نے ہاتھ سے لکھا: ’یہ واقعی اہم ہے۔‘ کارٹر نے ذیلی نکتہ کی نہ تو منظوری دی نہ اسے نامنظورکیا۔ لیکن دائیں حاشیہ میں لکھا: ’10 کروڑ ڈالر ٹھیک ہیں، میں اختیار کو ترجیح دیتا ہوں کہ اگر ضروری ہو تو اصلاحات کے تقاضے کو ختم کر سکوں۔ پاکستان پر کفایت شعاری کی پابندی ہونی چاہیے۔‘

اگلا ذیلی نکتہ امدادی پیکج کی تخصیص سے متعلق تھا۔ برزینسکی نے لکھا کہ محکمہ خارجہ کا ’مضبوط استدلال‘ ہے کہ امریکہ کو 40 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج پیش کرنا چاہیے، جس میں دو سال کے دوران سالانہ 100 ملین ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد شامل ہو۔

بریزینسکی نے لکھا کہ آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ نے ڈھیلے ڈالے انداز میں اس کی وکالت کی تاکہ ’اثرات کی جانچ ہو اور اپنے عزم کی پائیدار نوعیت کو ٹھوس طریقے سے ظاہر کیا جائے‘۔ برزینسکی نے محکمہ خارجہ سے اتفاق کیا، اور ہاتھ سے لکھا: ’کیوں کہ یہ ایک طویل مدتی سیاسی وابستگی کی نشان دہی کرتا ہے۔‘ کارٹر نے اوایم بی کی بات مانی لیکن دائیں حاشیہ میں لکھا: ’میں بدل سکتا ہوں۔ دیکھتے ہیں آغا شاہی کیا کہتے ہیں۔‘

افغانستان میں سوویت یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کارٹر نے درج ذیل ذیلی اشیا کی بھی منظوری دی:

  • پی ایل 480 امدادمیں 10-20 ملین ڈالر کا اضافہ
  • فوجی تربیت کے لیے چھ لاکھ ڈالر
  • افغان مہاجرین کے لیے 60 لاکھ ڈالر کی اضافی امداد
  • انسانی امداد اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ذریعے بھیجی جانی چاہیے۔

برزینسکی نے لکھا: ’یہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ ہونا چاہیے‘ جس پر کارٹر نے جواب دیا: ’دو طرفہ، کم از کم آپشن کے طور پر۔‘

تیسرا آئٹم اس بات کا تعین کرتا ہے جسے بریزینسکی نے ’اہم مسئلہ‘ کہا: امریکہ کو پاکستان کو کس قسم کا فوجی ہارڈ ویئر فروخت کرنا چاہیے۔ بریزینسکی نے کہا 100 ملین ڈالر ’زیادہ دیر نہیں چلیں گے‘ اور یہ کہ ایک ’اہم سوال‘ یہ ہے کہ آیا کارٹرپاکستان کو ایف سولہ جیسے جدید طیارے فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

بریزینسکی نے اس کے حق یا خلاف سفارش نہیں کی، لیکن مشورہ دیا کہ اگر کارٹر پاکستان کو یہ طیارے فروخت کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ’ہمیں جلد ہی پاکستان کو بتا دینا چاہیے تاکہ انڈیا اس کے خلاف مہم نہ چلا سکے اور پاکستان اسے ہمارے رشتے کا لٹمس ٹیسٹ نہ بنائے۔‘

کارٹرنے ایف سولہ طیارے پاکستان کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اپنے فیصلے کی وضاحت محکمہ دفاع کی جانب سے ایک بغیر تاریخ کے میمورنڈم پر ہاتھ سے لکھے گئے نوٹ میں کی، جس میں ملٹری ہارڈویئر کی پاکستان کو ممکنہ منتقلی کے لیے فہرست منسلک تھی۔ فہرست اور میمورنڈم دونوں ٹیب سی پر بریزینسکی کے آٹھ جنوری کے میمورنڈم کے ساتھ منسلک تھے۔

محکمہ دفاع نے کہا: ’پاکستان کے لیے فوجی سپلائی کے فیصلے کرتے وقت ہمیں انڈیا کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا اصولی طور پر امریکہ پاکستان سپلائی تعلقات کی بحالی کے بارے میں فکر مند ہو گا، اور اس لحاظ سے ہم جو بھی سپلائی کریں گے وہ انڈیا کے لیے پریشان کن ہو گا۔

’تاہم، ایف ایم ایس فنڈنگ کے لیے تجویز کردہ اشیا میں سے کوئی بھی اپنے آپ میں انڈیا کے لیے کوئی خاص خطرہ نہیں بنے گا۔ بائیں حاشیے میں، کارٹر نے لکھا: ’میں اتفاق کرتا ہوں،‘

اور صفحہ کے نچلے حصے میں لکھا: ’ہمیں فوری طور پر منظور کر لینا چاہیے: ایسے ہتھیار جو جلد از جلد افغانستان اور پاکستان دونوں کے دفاع کے لیے عمومی طورپر استعمال کیے جا سکتے ہوں، تاہم، انڈیا پر حملہ کے لیے نہیں۔‘

جنوری 1980 میں، کارٹر انتظامیہ نے باکسر محمد علی کا انتخاب کیا کہ وہ افغانستان پر سوویت حملے کے بعد شروع کیے گئے ماسکو اولمپکس کے بین الاقوامی بائیکاٹ کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے کئی افریقی ممالک کا دورہ کریں۔

آٹھ جنوری کی شام کو، کارٹر نے کانگریس کے اراکین کو ایران اور اپنی انتظامیہ کے افغانستان پر سوویت یونین کے حملہ کے بعد کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا، جن میں پاکستان کو مضبوط کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔

آغا شاہی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آغا شاہی

سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں درج ذیل عہد شامل تھا: ’ہم نے پاکستان کی آزادی اور سالمیت کے تحفظ میں مدد کے لیے اپنے 1959 کے معاہدے کی دوبارہ تصدیق کی ہے۔ امریکہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت میں پاکستان کی مدد کے لیے اپنے قوانین کے مطابق کارروائی کرے گا۔‘

اسی بات کا اعادہ کارٹر نے ضیا کے نام خط میں بھی کیا۔

’فروری 1980 کے آخری ہفتے میں، کابل اور دیگر افغان شہروں میں عام ہڑتال اور بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے دسمبر 1979 کے اواخر میں مداخلت کے بعد ملک پر سوویت یونین کے کنٹرول کے لیے سب سے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا۔ کابل میں امن برقرار رکھنے کے لیے سوویت فوج نے 22 فروری کو فوج، ٹینک، بکتر بند جہاز، اور ہیلی کاپٹروں کو شہر کے وسط میں منتقل کیا، تاکہ احتجاج کرنے والے ہجوم کو توڑنے کی کوشش کی جائے جو ’اللہ اکبر‘ اور ’مرگ برسوویت‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔‘ (یہاں کچھ متن ظاہر نہیں کیا گیا)

یہ بھی پڑھیے

اس دن کے آخر پر، ریڈیو کابل نے اعلان کیا کہ افغان حکومت نے مارشل لا کا اعلان کر دیا ہے، اور کابل میں ہونے والی ’تخریب کاری‘ کا الزام ’غیر ملکی ایجنٹوں اور کرائے کے فوجیوں اور برطانوی، امریکی، پاکستانی اور چینی نوکروں‘ پر لگایا ہے۔

سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں تیار کردہ ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس احتجاج نے ’صدر کارمل کی حکومت کی قانونی حیثیت کو مزید مجروح کیا ہے، دیہی علاقوں میں باغیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے یو ایس ایس آر کے ٹائم ٹیبل کو دھچکا پہنچایا ہے، اور ماسکو کی اس کی مداخلت کے منفی بین الاقوامی نتائج سے نمٹنے کی کوششوں کو کافی حد تک پیچیدہ بنایا ہے۔ (یہاں کچھ متن ظاہر نہیں کیا گیا۔)‘

چار دن بعد، 23 فروری کو، سی آئی اے رپورٹ میں بتایا گیا کہ دکانداروں کی ہڑتال اب بھی اپنی اصل طاقت کے 80-90 فیصد پر تھی اور یہ کہ افغان حکومت نے کابل میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں، خاص طور پر اقلیتی ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ قبائلی احتجاج میں سب سے آگے تھے۔ اسی وقت، سوویت فوج نے ’شہر کی طرف جانے والی بیشتر سڑکوں کے ساتھ چوکیاں قائم کر دی تھیں۔ (‘یہاں کچھ متن ظاہر نہیں کیا گیا۔‘)

صدر کے27 فروری کے بریف میں ایک مضمون، (متن غیر اعلانیہ)، میں دو بڑے سوویت اخبارات کے بارے میں ایک پرانی کہاوت کا حوالہ دیا گیا (متن غیر اعلانیہ): ’سچ (پراودا) میں کوئی خبر نہیں اور خبر (ازوستیا) میں کوئی سچ نہیں۔‘

سوویت خبر رساں اداروں نے الزام لگایا کہ غیر ملکیوں کی طرف سے افغان دکانداروں سے ہڑتال زبردستی کروائی گئی تھی اور یہ کہ بغاوت ’اپنا عروج دیکھ چکی۔‘

اسی بریف کے ایک ضمیمہ میں لکھا گیا کہ کابل کی بغاوت سے ممکنہ طور پر ماسکو میں افغانستان میں اگلے اقدامات کے بارے میں بات چیت میں تیزی آئی۔

ضمیمہ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ سوویت یونین مستقبل کی بغاوتوں کو روکنے کے لیے ممکنہ طور پر افغان قیادت میں ایک اور تبدیلی کے ساتھ مزید فوج بھیجنے کا انتخاب کرے گا۔

امریکی صدر جمی کارٹر اور ان کی اہلیہ خیبر پاس پر موجود

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’صدر اور ان کی خارجہ پالیسی ٹیم نے سفارتی دباؤ، اقتصادی پابندیوں اور پاکستان کی مدد سے افغان مزاحمتی جنگجوؤں، مجاہدین پر خفیہ امداد کی سہ رخی حکمت عملی اپنائی۔ کارٹر پالیسی نے اس عمل کی بنیاد رکھی جسے ریگن انتظامیہ کے دوران امریکی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن بننا تھا، جس کا اختتام حملے کے تقریباً ایک دہائی بعد افغانستان سے آخری سوویت افواج کے انخلا پر ہوا۔‘

مورخ ڈیوڈ زیلر کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان آپریشن اور اس کے نتیجہ میں افغان شورش کو تقویت ملی۔ سوویت یونین نے بدلے میں احتجاج کیا کہ جب امریکہ اس ملک کے اندرونی معاملات میں ’مداخلت‘ بند کر دے گا تو وہ افغانستان سے نکل جائے گا۔

ماسکو سے ٹیلی گرام 2964 میں، 22 فروری 1980 کو امریکی سفارت خانے نے سوویت جنرل سکریٹری لیونیڈ بریزنیف کی تقریر کی اطلاع دی۔

سفارتخانے نے تقریر میں اس بات کا اشارہ پایا کہ سوویت یونین ممکنہ طور پر افغانستان سے ’نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔‘ سفارت خانہ نے بریزنیف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’امریکہ زور شور سے سوویت فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن درحقیقت وہ خود اس امکان کوختم کرنے کے لیے سب کچھ کر رہا ہے: وہ افغانستان کے معاملات میں اپنی مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے اور بڑھا رہا ہے۔

’میں بہت واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں جیسے ہی افغانستان کی حکومت اور عوام کے خلاف بیرونی مداخلت کی تمام شکلیں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی ہم اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ امریکہ، افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر اس کی ضمانت دے۔ اور پھر سوویت فوجی امداد کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔‘

تاہم دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ نے اس پیش کش پریقین نہیں کیا اور یوں افغانستان میں امریکی پالیسی کارٹر کے بعد ریگن انتظامیہ اور بش انتظامیہ کے پہلے مہینے (فروری 1989 کے وسط) میں بھی جاری رہی جب سوویت افواج کا افغانستان سے انخلا ہوا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.