ڈی این اے کی مدد سے مرتب کیا جانے والا پتھر کے دور کا دنیا کا قدیم ترین شجرہ نسب
- پال رنکون
- سائنس ایڈیٹر، بی بی سی نیوز
برطانیہ میں سائنسدانوں نے دنیا کے قدیم ترین شجرِ نصب کو ایک 5700 سال پرانے مقبرے کے نیچے سے ملنے والی انسانی ہڈیوں کی مدد سے مرتب کر لیا ہے۔
ان ہڈیوں سے لیے گئے ڈی این اے کے تجزیے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مزار میں دفن افراد کا تعلق ایک ہی خاندان کی بالترتیب پانچ نسلوں سے تھا۔
اس مقبرے سے جن افراد کی ہڈیوں کا تجزیہ کیا گیا ان میں سے اکثر چار خواتین کی اولاد میں سے تھے، اور ان چاروں خواتین کا شوہر ایک ہی شخص تھا۔
اس جگہ پر اس دور کے صرف ان افراد کو دفنانے کی اجازت تھی جن کی نسل ایک مخصوص شخص سے آگے بڑھی تھی۔
تاہم یہاں مختلف جگہوں پر ایسے افراد بھی دفن تھے جو پہلی نسل کی خواتین کی اولاد میں سے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی نسل کی خواتین کی کمیونٹی کی نظر میں قدر اور اہمیت رہی ہے۔
پتھر کے زمانے کا یہ مقبرہ گلوسیسٹرشائر میں ہیزلٹن نارتھ میں واقع ہے اور اس کے دو ایل کی شکل کے چیمبر ہیں۔ ایک کا منھ شمال، جبکہ دوسرے کا جنوب کی جانب ہے۔
اس تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر ڈیوڈ ریخ کا تعلق امریکہ میں بوسٹن کے ہارورڈ میڈیکل سکول سے ہے۔ وہ اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘دو خواتین اور ان کے تمام بچوں کی قبریں جنوبی چیمبر میں موجود ہیں اور اس سے آگے پانچویں نسل تک ان کے بچوں کی بھی۔’
‘جبکہ دوسری دو خواتین اور ان کے بچوں کی قبریں شمالی چیمبر میں ہیں، تاہم اس میں سے کچھ کی قبریں جنوبی چیمبر میں بھی ہیں جو اس بات کی نشاندی کرتا ہے کہ شاید شمالی چیمبر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا اور وہاں مزید افراد کو دفنانا ممکن نہیں تھا۔’
برطانیہ کی نیوکاسل یونیورسٹی کے ڈاکٹر کرس فاؤلر جو اس تحقیق کے مصنف ہونے کے علاوہ آرکیالوجی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں بتاتے ہیں کہ ‘اس بات کی وسیع تر اہمیت بھی ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھر کے دور کے دیگر مقبروں یا قبرستانوں کے ڈھانچے اور قبروں کی ترتیب کیسی تھی جس سے ہم ان مزاروں میں دفن افراد کے درمیان رشتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔’
یہ مقبرہ اس زمانے کا ہے جب جدید زمانے کے ترکی (اس وقت کا اناطولیہ) اور ایجیئن سے افراد برطانیہ منتقل ہوئے تھے اور اس سے کچھ ہی برس قبل برطانیہ میں کھیتی باڑی شروع ہوئی تھی۔ اس تحقیق کے ذریعے محققین کو پتھر کے دور کے افراد کے خاندانی ڈھانچے کے بارے میں جاننے میں بھی مدد ملے گی اور ان کی ثقافت کے بارے میں بھی معلوم ہو گا۔
پروفیسر ریخ کہتے ہیں کہ ‘امید ہے کہ یہ ایسی متعدد تحقیقی مقالوں کی ایک کڑی ہو گی۔ اس سے ان افراد کی زندگیوں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی جو اس جگہ ایک طویل عرصہ قبل قیام پذیر تھے۔’
اس حوالے سے بھی اشارے ملتے ہیں کہ ‘سوتیلے بیٹوں’ کو خاندانوں کی جانب سے گود لیا گیا تھا اور محققین کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا گیا کہ ایسے مرد جن کی ماں تو اس مزار میں دفن ہیں لیکن ان کے حقیقی والد نہیں ہیں اور ان کی والدہ کے کسی اور مرد سے بھی بچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
’لاپتہ خواتین‘
اگرچہ اس خاندان کی دو خواتین جو پچپن میں وفات پا گئی تھیں ان کی قبریں بھی اسی مزار میں موجود تھیں تاہم مزار میں خاندان کی دیگر خواتین اور بیٹیوں کی عدم موجودگی یہ بتاتی ہے کہ یا تو انھیں ان کے شوہروں کے ساتھ ہی علیحدہ دفن کیا گیا تھا، یا پھر مکمل طور پر کہیں اور۔
پروفیسر ریخ کہتے ہیں کہ ‘یہاں خواتین کی غیر موجودگی نمایاں ہے، اس لیے سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہیں کیوںکہ خواتین اور مردوں کی پیدائش کی شرح ایک جیسی ہے۔ یہ ایک معمہ ہے اور ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی ساتھ والے مزار میں ہیں کیونکہ پوری کمیونٹی میں ان کا پتا نہیں ملتا۔’
‘کیا لوگوں کی لاشوں کو وفات کے بعد جلایا جاتا تھا؟ اس حوالے سے کچھ روایات موجود ہیں۔ کیا لوگوں کو مختلف خطوں میں مختلف انداز میں دفنایا جاتا تھا یا پھر اس کا دارومدار معاشرے میں ان کے رتبے پر تھا؟’
اس مزار سے ہمیں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی روایت کے بارے میں تو اندازہ ہوتا ہے، یعنی مرد مختلف خواتین سے شادیاں کرتے تھے لیکن اس سے ایک اور روایات کا بھی انکشاف ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خواتین بھی مختلف مردوں کے ساتھ بچے پیدا کرتی تھیں۔
ایسی خواتین جن کے ہاں اولاد صرف ایک ہی مرد سے ہوتی تھی، تو ان سے ان کا کوئی رشتہ استوار نہیں ہوتا تھا۔ تاہم ایسے کیسز جہاں خواتین متعدد مردوں کے ساتھ بچے پیدا کرتی تھیں، ان میں اکثر اوقات ان کے قریبی رشتے ہوا کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف دی باسک کنٹری سپین کے انیگو اولاڈے جو اس تحقیق کی جینیاتی پہلوؤں کی نگرانی کر رہے تھے اور اس کے شریک لکھاری بھی ہیں کہتے ہیں کہ ‘اس مزار میں ڈی این اے بہترین انداز میں محفوظ تھا اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم نے قدیم ڈی این اے کی جانچ یقینی بنائی اور اس طرح ہم نے سب سے قدیم شجرِ نصب مرتب کیا اور اس کا تجزیہ بھی کیا تاکہ قدیم گروہوں کے معاشرتی ڈھانچوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔’
یہ تحقیق نیچر نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
Comments are closed.