مسئلہ فلسطین کے نام پر اوپیک ممالک کے وزرا کے اغوا کی کارروائی جس کے پس پردہ مقصد کچھ اور ہی تھا
- مارگریٹا روڈریگیز
- بی بی سی نیوز، مُندو
ویانا میں شروع ہونے والی اغوا کی اس واردات کا اختتام الجیریا میں ہوا
وہ اپنے کاندھوں پر بڑے سپورٹس بیگ لادے ہوئے تھے۔ پانچ مرد اور ایک خاتون، جنھوں نے موٹے کوٹ اور جیکٹس پہنی ہوئی تھیں۔
آسٹریا میں یہ ایک سرد صبح تھی۔ اس روز یہاں پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ایک ڈگری سینٹی گریڈ سے کچھ اوپر تھا۔
یہ لوگ ایک تقریباً خالی ٹرام میں سوار ہوئے اور اپنے حلیے کی وجہ سے بھلے ہی انھوں نے کچھ مسافروں کی توجہ حاصل کی مگر پھر بھی یہ ایک عام سفر تھا۔
سفر کے اختتام پر یہ لوگ باہر نکلے اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ہیڈکوارٹر کی جانب چل پڑے جہاں اوپیک ممالک کے رہنماؤں کا ایک اجلاس جاری تھا۔
عمارت کے داخلی دروازے پر تعینات ایک نوجوان پولیس اہلکار نے انھیں داخل ہوتے ہوئے دیکھا، ویسے ہی جیسے اُس نے گذشتہ روز آنے والے مختلف ممالک کے وزرا، وفود، مترجمین اور صحافیوں کو آتے ہوئے دیکھا تھا۔
یہ 21 دسمبر 1975 کی صبح تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا جسے اب اوپیک ’اپنی تاریخ کا سیاہ ترین باب‘ کہتا ہے۔
آسٹریائی مؤرخ تھامس ریگلر نے بی بی سی مُنڈو سروس کو بتایا کہ کچھ ہی منٹوں میں اس آٹھ منزلہ عمارت میں داخل ہونے والے گروہ نے قیامت برپا کر دی۔
تھامس ریگلر نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
اس گروہ کا کمانڈر لاطینی چہرے مہرے والا ایک 26 سالہ نوجوان تھا جس نے ایک فوجی کیپ پہن رکھی تھی۔ اُس کا نام لچ رامیریز سانچیز تھا اور انھیں عرف عام میں ’کارلوس دی جیکل‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
لچ رامیریز سانچیز جو خود کو کارلوس دی جیکل بھی کہلواتے تھے
فائرنگ کی ابتدا
اوپیک کے ہیڈکوارٹرز میں الجیریا، ایکواڈور، گیبون، انڈونیشیا، ایران، عراق، کویت، لیبیا، نائجیریا، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وینیزویلا کے وزرائے توانائی اور وفود موجود تھے۔
بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے والے اس اجلاس کی کوریج کے لیے 30 کے قریب صحافی بھی موجود تھے اور اُن میں کچھ لابی میں تھے جب نوواردوں نے اُن سے کانفرنس روم کے بارے میں پوچھا۔
صحافی کلائیڈ ایچ فارنز ورتھ نے ایک دن بعد نیو یارک ٹائمز میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ’وہ اوپیک وفود میں سے ایک لگ رہے تھے اس لیے کسی نے اُن پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ رپورٹرز نے ان چھ افراد کو دوسری منزل پر جانے والی ایک سیڑھی کی راہ دکھائی جہاں دو گھنٹے پہلے کئی وزرا جمع تھے۔ ایک منٹ کے بعد اس منزل سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔‘
ریگلر کہتے ہیں کہ ’کارلوس اور اُن کے ساتھی استقبالیے میں گھس گئے، چھت پر گولیاں چلائیں اور لوگوں کو کانفرنس روم میں دھکیل کر لے گئے جہاں وزرا کا اجلاس جاری تھا۔‘
حملہ آور کون تھے؟
دوسری منزل پر درحقیقت اغوا کاری کی کارروائی جاری تھی۔ چھ لوگوں کے اس گروہ نے کارلوس دی جیکل کی سربراہی میں سب مشین گنز، ہینڈ گرینیڈز، ڈیٹونیٹرز اور اپنے بیگز اور کوٹس میں چھپائی گئی دیگر اسلحے کی مدد سے لگ بھگ 60 کے قریب افراد کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
یہ گروہ خود کو ’آرم آف دی عرب ریولوشن‘ کہتا تھا اور اس نے اپنے اقدامات کے جواز میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ’فلسطینی سرزمین پر صیہونی وجود کی قانونی حیثیت‘ تسلیم کرنے والی تھی اور اسی لیے یہ کارروائی کی گئی۔
ریگلر کے مطابق یہ چھ حملہ آور ودیع حداد کی زیرِ قیادت تھے جنھیں اب ’جدید دہشتگردی کا گاڈ فادر‘ مانا جاتا ہے۔
حداد نے اس آپریشن کے لیے ویسٹ جرمنی ریولوشنری سیلز کے ارکان ہانس یوآکیم کلائن اور گیبریئل کروشر ٹائڈیمین کو سکواڈ میں بھرتی کیا۔
اس کے بعد اُنھوں نے اپنے حلقے سے دو افراد جوزف اور یوسف کو بھرتی کیا۔ اُنھوں نے لچ رامیریز (کارلوس دی جیکل) کو اس گروہ کا سربراہ مقرر کیا اور لبنانی گوریلا جنگجو انیس نقاش کو رامیریز کا نائب مقرر کیا۔
ریگلر کہتے ہیں کہ اوپیک پر حملے کے ذریعے حداد ’مسئلہ فلسطین‘ کی جانب عالمی توجہ مبذول کروانا اور ’مسلح جدوجہد‘ کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کارروائی کا ’ایک پوشیدہ ایجنڈا بھی تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہانس یوآکیم کلائن کو اس کارروائی پر بعد میں نو سال قید کی سزا سنائی گئی
فلسطینی جدوجہد سے بالاتر مقصد
تھامس ریگلر کے مطابق ایک بڑی حد تک اوپیک میں لوگوں کو یرغمال بنائے جانے کا یہ واقعہ اس تنظیم کے اندر طاقت کی جنگ کا شاخسانہ تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کارروایی کی حقیقی پشت پناہی لیبیا کے حکمراں معمر قذافی کر رہے تھے جو اوپیک کی پرائسنگ پالیسی پر اثرانداز ہونا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اُنھوں نے ودیع حداد کے گروپ کو اپنے مرکزی حریفوں سعودی عرب اور ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ الجیریا اور عراق سے بھی مزید مدد ملی ہو گی۔‘
کئی برسوں بعد لچ رامیریز نے کہا کہ اس آپریشن کا حکم لیبیا کے حکمراں نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ امریکہ پر بھی دباؤ ڈالنے کے لیے دیا تھا جو سعودی عرب کے ساتھ تیل کی قیمتیں کم رکھنے کے ’گندے کھیل‘ کا حصہ بن گیا تھا۔
اُنھوں نے خبر رساں ادارے ای ایف ای کو بتایا تھا: ’یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔۔۔ یہ ناکامی تھا۔ مگر سٹریٹجک اعتبار سے یہ غیر معمولی کامیابی تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
کارلوس نے عمارت میں موجود وزرا کو تین گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا، ’دوست‘، ’غیر جانبدار‘ اور ’دشمن۔‘
بعد میں آسٹریائی حکام نے انکشاف کیا کہ حملہ آوروں نے جن وفود کو سب سے پہلے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی وہ ایرانی اور سعودی تھے۔
ریگلر کہتے ہیں کہ جب سعودی وزیرِ تیل احمد ذکی یمانی نے کانفرنس روم کے باہر پہلی بار شور و غلغلہ سنا تو اُنھیں لگا کہ ’حملہ آور یورپی ہوں گے جو خام تیل کی قیمت میں اضافے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہوں گے۔‘
بعدازاں انھوں نے کہا کہ ’مجھے لگا کہ وہ ہم سے بدلہ لینے آ رہے ہیں۔‘
مارچ 1975 میں الجیریا میں ہونے والے اوپیک اجلاس میں سعودی عرب کی طرف سے شاہ فہد اور احمد ذکی یمانی (دائیں) موجود ہیں۔ احمد ذکی یمانی کو کچھ ماہ بعد اوپیک کے ہی اجلاس سے اغوا کر لیا گیا
عالمی پس منظر
اس حملے سے بین الاقوامی میڈیا میں بھونچال برپا ہو گیا۔
وینیزویلا کی سرکاری تیل کمپنی پیٹرولیئوس ڈی وینیزویلا کے سابق ڈائریکٹر ہوزے تورو ہارڈی نے بی بی سی مُنڈو کو بتایا کہ ’یہ حملہ خاصی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ عالمی معیشت تیل کی قیمتوں میں تیز تر اضافے کے باعث بحران کی شکار تھی۔‘
اور سنہ 1973 اور سنہ 1974 کے درمیان عرب ممالک کی جانب سے تیل کی فراہمی روکنے نے بھی دنیا بھر میں توانائی کا بحران پیدا کر دیا تھا۔
اس اقدام میں تیل کی پیداوار بھی کم کر دی گئی تھی اور اس کا مقصد سنہ 1973 کے اواخر میں چوتھی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنا تھا، تاہم یہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی کئی ماہ تک جاری رہا۔
احمد ذکی یمانی نہ صرف تیل کی اس پابندی کے نفاذ میں کلیدی کردار کے حامل تھے، بلکہ اس پابندی کے اٹھائے جانے میں بھی اُن کا اہم کردار تھا۔
اس کے علاوہ تھامس ریگلر کہتے ہیں کہ ’تمام اوپیک ممالک اپنی اپنی صنعتوں کو قومیانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس تنظیم میں شامل ممالک نے بے پناہ قوت حاصل کر لی تھی مگر درونِ خانہ ایران (اہلِ تشیع) اور تیل پیدا کرنے والی دیگر بادشاہتوں (اہلِ سنت) کے درمیان شدید تقسیم تھی۔‘
اُن کے مطابق ’وینیزویلا نقطہِ توازن تھا‘ اور وہاں یرغمال بنائے جانے کی خبر پر شدید غصہ سامنے آیا کیونکہ یرغمالیوں میں وزیرِ کانکُنی اور ایندھن ویلنٹین ہرنینڈز بھی تھے۔
اموات
مصنف جان فولین اپنی کتاب ’جیکل: دی کمپلیٹ سٹوری آف دی لیجنڈری ٹیرراسٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ کلائن کو ٹیلیفون سوئچ بورڈ کو قبضے میں لینے کا حکم دیا گیا اور یہ نگرانی کرنے کا بھی کہ کسی کے پاس بندوقیں نہ ہوں۔
نوجوان ریسیپشنسٹ ایڈیتھ ہیلر اپنی ڈیسک کے پیچھے چھپ کر پولیس کو کال کرنے میں کامیاب ہو گئیں: ’یہ اوپیک ہے۔ وہ ہر طرف فائرنگ کر رہے ہیں۔‘
کلائن نے اُنھیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا اور بھاگ کر اُن تک پہنچے اور اُن پر پستول تان لی۔
جان فولین لکھتے ہیں کہ ’حملہ آور نے اپنی پستول اُن کے سر سے تھوڑی سے ہٹا کر فون کا ایئرپیس گولی سے اڑا دیا تو ہیلر کو لگا کہ اُن کا سر پھٹ گیا ہے۔‘
ایرانی وزیر جمشید آموزیگر (بائیں) بھی مغویوں میں شامل تھے۔ اس فوٹو میں وہ شاہِ ایران محمد رضا پہلوی کے ساتھ مارچ 1975 میں ہونے والے اوپیک اجلاس میں شریک ہیں
اوپیک میں اس دن دو پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تھے: اینٹون ٹخلر اور جوزف جینڈا۔ تھامس ریگلر کے مطابق دونوں نے ہی کوئی مزاحمت نہیں کی، نہ وہ وردیوں میں تھے اور نہ ہی اُن کے پاس ریڈیو تھے۔
’جوزف نے مدد کے لیے فون کیا، پھر اپنی پستول میز کی ایک دراز میں چھپا دی اور پھر مغویوں کے ساتھ گھل مل گئے۔‘
ٹخلر بھاگ کر لفٹ تک پہنچے مگر وہ بچ نہیں پائے۔ اُنھیں اُن کی ریٹائرمنٹ سے صرف کچھ ہفتے قبل ہی ہلاک کر دیا گیا۔
یہ تین ہلاکتوں میں سے پہلی ہلاکت تھی۔ دیگر دو ہلاک شدگان میں ایک لیبیائی ماہرِ معیشت اور ایک عراقی سکیورٹی گارڈ شامل تھے۔
فارنز ورتھ نے لکھا کہ جب آسٹریائی پولیس کی گاڑیاں عمارت کے قریب جمع ہونے لگیں تو حملہ آوروں نے کھڑکی سے اُن پر فائرنگ کی۔
پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور سنائپرز تعینات کر دیے۔
مطالبے
حملہ آوروں نے پوری جگہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ پھر ریگلر کے مطابق 11 بج کر 50 منٹ پر پولیس کے ایک ایمرجنسی یونٹ سے آٹھ پولیس اہلکار عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
مگر اُن کی ’خصوصی تربیت‘ نہیں ہوئی تھی اور اُن کے سربراہ گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔ وہ اس پورے واقعے میں زخمی ہونے والے کئی افراد میں سے ایک تھے۔
کلائن نے ایک اور حملہ آور یوسف کے ساتھ مل کر لابی کا کنٹرول سنبھالا ہوا تھا تاکہ حکام کے ایکشن کی مزاحمت کی جا سکے مگر وہ بھی پیٹ میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔
اس کے بعد کارلوس دی جیکل کے پاس کلائن کے لیے ہنگامی طبی امداد کی درخواست کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
باقی بچ چکے پانچ اغواکاروں نے ویانا میں عراقی ناظم الاُمور ریاض العزاوی کو آسٹریائی حکومت کے ساتھ اپنے مذاکرات کے لیے ثالث کے طور پر استعمال کیا۔
سنہ 1974 کے تیل کے بحران نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا
جان فولین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر رامیریز نے عراقی سفیر سے کہا: ’اُنھیں بتاؤ کہ میں وینیزویلا سے ہوں اور میرا نام کارلوس ہے۔ اُنھیں بتاؤ کہ میں مشہور کارلوس ہوں۔ وہ مجھے جانتے ہیں۔‘
یہی وہ عرب اہلکار تھے جن کی جانب سے حملہ آوروں کے مطالبات دنیا تک پہلی مرتبہ پہنچے۔
گروپ کے ایک بیان میں کہا گیا ’ہمارے قبضے میں اوپیک کانفرنس میں شرکت کرنے والے وفود ہیں۔‘
’حکومت کو کل صبح سات بجے ہمیں ویانا ایئرپورٹ لے جانے کے لیے ایک بس تیار کرنی ہو گی جس کی کھڑکیوں پر پردے ہوں گے۔ ایئرپورٹ پر تین لوگوں کے عملے کے ساتھ تیل سے بھرا ڈی سی 9 جہاز ہمیں اور ہمارے یرغمالیوں کو ہماری منزل تک پہنچانے کے لیے ہمارا منتظر ہونا چاہیے۔‘
’ہر تاخیر، ہر اشتعال انگیزی اور کارروائی کی ہر کوشش چاہے کسی بھی صورت میں ہو، صرف ان یرغمالیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالے گی۔‘
اُنھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ فرانسیسی زبان میں تحریر کیا گیا ایک طویل پیغام ہر دو گھنٹے بعد آسٹریائی ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنز سے نشر ہونا چاہیے۔
اس پیغام میں ’امریکی سامراج‘ اور ’صیہونی جارحیت‘ کی مذمت کی گئی تھی جبکہ ’عرب لوگوں اور تیسری دنیا کے عوام‘ کے تیل کی انتظام کاری میں کردار پر بات کی گئی تھی۔
بعد میں کلائیڈ فارنز ورتھ کے مطابق ریاض العزاوی نے رامیریز کی سرد مہری کو برف سے تشبیہہ دی تھی۔
’تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے‘
سنہ 2003 میں احمد ذکی یمانی نے رامیریز کے ساتھ اپنا تجربہ بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا تھا۔
’اس نے مجھے بتایا کہ اُس نے مجھے آخر میں مارنے کا فیصلہ کیا تھا اور میرے پاس زندگی کے صرف دو دن باقی تھے۔‘
گیبریئل کروشر ٹائڈیمین، جنھیں بعد میں بری کر دیا گیا
مگر دوپہر کو اُنھوں نے اپنا بیان آسٹریائی حکومت کو بھیجا اور کہا ’اگر ہمارے بیانات چار بجے ریڈیو پر نشر نہیں ہوئے تو ہم یمانی کو مار دیں گے اور اس کی ڈیڈ باڈی باہر سڑک پر پھینک دیں گے۔‘
چار بجے یہ بیانات نشر نہیں ہوئے تو یمانی سے کہا گیا کہ ’اب تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے۔‘
’میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا میں اپنی وصیت لکھ سکتا ہوں، اور میں نے لکھنی شروع کر دی۔ بیس منٹ بعد وہ میرے پاس آیا اور مجھے چھوا۔ میں نے اسے دیکھا اور اس نے میری گھڑی کو۔ میں نے کہا کہ ’میرے پاس 10 منٹ ہیں۔‘
’مگر پھر اس نے مجھے کہا، ’نہیں تمہارے پاس اس سے زیادہ وقت ہے کیونکہ اُنھوں نے ہمارے بیانات نشر کر دیے ہیں۔‘
حکام کے ساتھ مذاکرات
ریگلر کہتے ہیں کہ 21 دسمبر کی صبح کو آسٹریا کے چانسلر برونو کرائسکی اپنی کرسمس کی چھٹیاں منانے کے لیے جا چکے تھے۔
اُنھیں جب اس ہنگامی صورتحال کے بارے میں علم ہوا تو اُنھیں ’کئی گھنٹے کا سفر کر کے واپس پہنچنا پڑا۔‘
جان فولین کہتے ہیں کہ چانسلر کرائسکی کو کئی یرغمالیوں کے خطوط ملے جن میں تحریر تھا کہ اغواکاروں کے مطالبات مان لیے جائیں اور یہ کہ وہ اغواکاروں کے ساتھ ہی آسٹریا چھوڑنا چاہتے ہیں۔
ریگلر کے مطابق چانسلر اوپیک ممالک کے سفیروں کے ساتھ رابطے میں تھے اور اُنھوں نے مذاکرات کے نازک ترین مراحل پر ’اُن کی رضامندی‘ بھی طلب کی۔
گیبریئل کروشر ٹائیڈیمین (دائیں) اس کارروائی میں شریک واحد خاتون تھیں
الجیریائی وزیرِ خارجہ عبدالعزیز بوتفلیقہ نے آسٹریائی حکومت کو پیشکش کی تھی کہ اگر اغوا کار الجیریا جانا چاہیں تو اُن کا ملک اُنھیں وصول کرنے کے لیے تیار ہے۔
فولین کہتے ہیں کہ ’صبح سے بھوکی اپنی ٹیم اور یرغمالیوں کو کھلانے کے لیے کارلوس نے ایک سو سینڈوچز اور پھل منگوائے۔‘
حکام نے یہ بھیج تو دیے مگر سینڈوچز میں خنزیر کا گوشت تھا جو مسلمان مذہبی وجوہات کی بنا پر نہیں کھایا کرتے۔
چنانچہ کارلوس نے یہ کھانا ٹھکرا دیا اور اس کے بجائے چکن اور فرائز بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
نتیجہ کیا نکلا؟
ریگلر کہتے ہیں کہ 22 دسمبر 1975 کو صبح پونے نو بجے دہشتگردوں اور 33 باقی یرغمالیوں بشمول 11 وزرائے تیل پر مشتمل یہ قافلہ ایئرپورٹ پہنچا۔
کارلوس اور اُن کے گروپ نے فیصلہ کیا کہ اُن کا طیارہ الجیریا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کارلوس 22 دسمبر کو ایئرپورٹ پر
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کارلوس اور الجیریائی وزیرِ خارجہ عبدالعزیز بوتفلیقہ کے درمیان ایئرپورٹ پر مذاکرات ہو رہے ہیں
کلائن کو ایک ایمبولینس میں یہاں تک لایا گیا اور پوری پرواز کے دوران ایک ڈاکٹر اُن کے ساتھ موجود رہے۔
ریگلر کہتے ہیں کہ جب یرغمالی اور اغواکار جہاز میں سوار ہو گئے تو کارلوس اس وقت کے آسٹریائی وزیرِ داخلہ اوٹو روش کے قریب آئے اور اُنھیں الوداع کہا۔
آسٹریا کے چانسلر کرائسکی نے کہا کہ یہ فیصلے ’اس خوف سے لیے گئے کہ یرغمالیوں کی زندگیاں نہ چلی جائیں۔‘
مزید پڑھیے
اُنھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہم جانتے تھے کہ ہم بہت خطرناک اور بہت پرعزم لوگوں کا سامنا کر رہے تھے۔‘
جب یہ طیارہ شمالی افریقی ملک الجیریا پہنچ گیا تو کارلوس دی جیکل نے طیارہ لیبیا لے جانے کے لیے کہا۔
ریگلر کہتے ہیں کہ ’مگر ظاہر ہے کہ معمر قذافی اس وقت تک اپنی حمایت واپس لے چکے تھے۔ سو یہ جہاز الجیریا واپس آ گیا جہاں 23 دسمبر 1975 کو عبدالعزیز بوتفلیقہ سے براہِ راست مذاکرات کے بعد یرغمالیوں کو چھوڑ دیا گیا۔‘
مغوی اور اغواکار آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں طیارے میں سوار ہو رہے ہیں
اغواکار بھاگ نکلے اور کئی ذرائع سے عندیہ ملتا ہے کہ اُنھیں یرغمالیوں کو چھوڑنے کے لیے بھاری رقم ادا کی گئی۔
سنہ 2001 میں کلائن کو اس کارروائی میں ملوث ہونے پر جرمنی میں نو سال قید کی سزا سنائی گئی جس کا اُنھوں نے اعتراف کیا تاہم اُنھوں نے قتل اور اقدامِ قتل کے الزامات کا انکار کیا۔
ٹرائل کے دوران اُنھوں نے اس کارروائی کا تعلق معمر قذافی سے بھی جوڑا اور اُس سال بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اُنھوں نے کہا کہ ’کانفرنس کی سکیورٹی کی تفصیلات بھی لیبیا والوں نے ہی فراہم کی تھیں۔‘
صحافی اور مصنف کولن سمتھ اپنی کتاب کارلوس: پورٹریٹ آف اے ٹیررسٹ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1990 میں کولون کی ایک عدالت نے گیبریئل کروشر ٹائڈیمین کو استغاثہ کے گواہان کی جانب سے گواہی سے انکار پر قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا۔‘
لچ رامیریز سانچیز عرف کارلوس دی جیکل سنہ 1994 سے عمر قید کاٹ رہے ہیں تاہم اوپیک وزرا کے اغوا کے جرم میں نہیں
ریگلر بتاتے ہیں کہ ’کارلوس کا گروپ 1980 کی دہائی میں بھی دھمکیاں دیتا رہا جس کے باعث گواہان عدالت میں پیش ہونے سے ڈرتے رہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’گیبریئل اس لیے بری ہوئیں کیونکہ اُن کے خلاف موجود شواہد ٹھوس نہیں تھے، مگر وہ یقینی طور پر اس (گروہ) کی رکن تھیں جیسا کہ کلائن اور کارلوس نے خود تصدیق کی ہے۔‘
سنہ 1994 میں رامیریز کو سوڈان میں گرفتار کر کے فرانس لے جایا گیا جہاں وہ اب بھی قید ہیں۔
اُنھیں ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں متعدد حملوں کے جرم میں تین مرتبہ عمر قید کی سزا سُنائی گئی ہے۔
اوپیک میں ہونے والی یہ کارروائی اُن حملوں میں شامل نہیں ہے۔
Comments are closed.