متحدہ عرب امارات کے سنیماؤں میں بالغ افراد کی فلموں سے سینسرشپ کا خاتمہ، ’نامناسب‘ سینز کی کانٹ چھانٹ نہیں ہوگی
متحدہ عرب امارات نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب سے بالغ افراد کے لیے بنائی جانے والی فلموں کو سینسر نہیں کیا جائے گا اور سینما میں بین الاقوامی فلموں کی سکریننگ +21 کی ایج ریٹنگ یعنی 21 برس سے زیادہ افراد کی ریٹنگ کے ساتھ بھی ہوسکے گی۔
ملک میں ثقافت کی وزارت اور یوتھ میڈیا ریگولیٹری آفس کا کہنا ہے کہ 19 دسمبر سے سنیماؤں میں فلموں کی نمائش کے لیے +21 کی ایج ریٹنگ متعارف ہوگی، یعنی 21 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد ایسی مخصوص فلمیں دیکھ سکیں گے۔
اس بیان میں کہا گیا کہ فلموں کے بین الاقوامی ورژن اب سینما میں دکھائے جائیں گے جبکہ لوگوں کے داخلے پر عمر کی حد کے معیار کو سختی سے نافذ کیا جائے گا۔
متحدہ عرب امارات کے اخبار دی نیشنل کے مطابق اس فیصلے کا مطلب ہے کہ اب سے بالغ افراد کے لیے بنائی گئی فلموں کی ایڈیٹنگ (کاٹ چھانٹ) اور ’نامناسب‘ سینز کی سینسرشپ نہیں کی جائے گی۔ بلکہ فلموں کے ساتھ منسوب ایج ریٹنگ کی پیروی کی جائے گی اور ان فلموں کو اصل حالت میں دکھایا جائے گا۔
بیان میں سینماؤں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’سختی سے ایج ریٹنگ کی پیروی کریں اور 21 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد سے شناخت کا ثبوت مانگیں۔‘
دی نیشنل کا کہنا ہے کہ اکثر بین الاقوامی فلموں کو متحدہ عرب امارات میں ریلیز کیا جاتا ہے مگر بالغ افراد سے متعلق مخصوص سینز کو فلموں سے نکال دینا عام ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ اب تک سب سے بڑی ایج ریٹنگ 18 سال تھی جس کے تحت کچھ ہی فلمیں ریلیز کی گئیں۔
سنہ 2018 میں حکومت نے وسیع پیمانے پر تفریحی مواد کے لیے ایج ریٹنگ کو لازم قرار دیا تھا۔ اس میں کتابیں اور ویڈیو گیمز بھی شامل تھیں۔
اگرچہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کو روایتی طور پر قدامت پسند سمجھا جاتا ہے مگر یہ خلیج میں سب سے آزاد خیال ممالک میں سے ہے اور یہاں عموماً دیگر مذاہب اور روایات کا احترام کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں یہاں متعارف کرائے گئے نئے قواعد کے تحت مرد اور خواتین بغیر شادی کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں جبکہ شراب نوشی اور شراب خریدنے پر عائد سختیاں ہٹائی گئی ہیں۔
عرب دنیا میں متحدہ عرب مارات کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ مگر انٹرنیٹ پر سیاسی اختلاف یا مذہب سے متعلق مواد کی نگرانی کی جاتی ہے۔ جبکہ ذرائع ابلاغ کے مواد کی بھی نگرانی کی جاتی ہے اور اس پر سیاسی کنٹرول رکھا جاتا ہے۔
’غیر ملکی سرمایہ کاری کو دوبارہ راغب کرنے کی کوشش‘
اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی اخبار دی ٹائمز میں چھپی تحریر میں ایبی چیزمین کہتی ہیں کہ جب 2014 میں فلم ’دی وولف آف وال سٹریٹ‘ پہلی بار متحدہ عرب امارات میں دکھائی گئی تو اس میں سے قریب 45 منٹ کے سینز کاٹ دیے گئے تھے۔
ان کے مطابق ’پہلے متحدہ عرب امارات میں 18 پلس کی درجہ بندی تھی، لیکن بہت کم بین الاقوامی فلمیں اس زمرے میں آتی ہیں جن میں بالغ یا جارحانہ مناظر سینسرشپ بورڈ کو جمع کرائے جاتے ہیں اور ان پر فوری پابندی عائد کردی جاتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’متعدد خلیجی ممالک نے فلم ویسٹ سائیڈ سٹوری پر پابندی لگائی جو اس ماہ برطانیہ میں ریلیز ہوئی تھی۔ بظاہر اس لیے کہ اس میں ایک ٹرانسجینڈر کردار بھی شامل تھا۔ خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک نے ڈزنی سے سینز کاٹنے کا مطالبہ کیا تھا مگر انھوں نے انکار کردیا۔‘
ایبی چیزمین کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ آیا پہلے بین یا سینسر کی گئی فلموں کو دوبارہ ریلیز کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ پچھلے ایک سال کے دوران ’متحدہ عرب امارات میں طویل عرصے سے رائج سخت اسلامی قوانین میں بنیادی تبدیلی کی گئی ہے: لوگوں کو اب شراب خریدنے کے لیے لائسنس کی ضرورت نہیں ہے، غیر شادی شدہ جوڑوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت ہے، خودکشی کی کوشش اب جُرم نہیں ہے، اور اکیلی خواتین کو ملک سے بھاگنے کی ضرورت نہیں۔‘
ان کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات خلیجی خطے کی دوسری بڑی معیشت ہے، اور اسے گذشتہ سال شدید کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ کورونا وائرس نے سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا اور تیل کی قیمتیں اپنی کم ترین سطح پر ریکارڈ کیں۔ ’تیل کے بعد کے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری اور ہنر مند کارکنوں کو راغب کرنا بہت ضروری ہے۔‘
ایبی چیزمین کے مطابق ان اصلاحات کا تعلق سعودی عرب سے بھی ہوسکتا ہے جہاں معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ’متحدہ عرب امارات غیر ملکی سرمایہ کاری کو دوبارہ راغب کرنے کا خواہشمند ہے جو ریاض کا رُخ کر رہے ہیں۔‘
Comments are closed.