اومیکرون: کورونا وائرس کی نئی قسم کہاں سے آئی، سائنسدانوں کو یہ پتا لگانے سے کیا فائدہ ہو گا؟
- فرنینڈو دوارتے
- بی بی سی ورلڈ سروس
جب جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں کا کووڈ 19 کی نئی قسم اومیکرون سے سامنا ہوا تو دو چیزیں بالکل واضح طور پر الگ نظر آئیں۔
پہلی اور سب سے اہم وائرس کی اس قسم میں نظر آنے والی تبدیلیوں کی تعداد تھی۔ کئی تبدیلیوں کا ایسا مجموعہ تھا جو اب تک ماہرین کے عالمی نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی جینیاتی مانیٹرنگ میں سامنے نہیں آیا تھا۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کوازولو نتال میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر رچرڈ لیسیلز اُس ٹیم کا حصہ تھے جس نے نومبر کے اواخر میں اومیکرون قسم سب سے پہلے دریافت کی تھی۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اومیکرون میں کچھ چیزیں بالکل مختلف تھیں۔’
اُنھیں اور اُن کے ساتھیوں کو لگا کہ کچھ غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
اُنھیں لگتا ہے کہ اومیکرون ذیلی صحارائی افریقہ میں کم مدافعت والے کسی ایک شخص کے اندر ارتقا پذیر ہوا اور پھر 40 سے زائد ممالک میں پھیل گیا۔ ڈاکٹر رچرڈ امکان ظاہر کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا نظامِ مدافعت ایچ آئی وی کو بغیر علاج چھوڑ دینے کی وجہ سے کمزور رہ گیا ہو گا۔
ویسے تو اس قسم کے ظہور کے بارے میں کم از کم دو دیگر وجوہات بھی ہیں مگر سائنسی برادری ‘فردِ واحد‘ میں ارتقا کے مفروضے کی خاصی حمایت کر رہی ہے۔
مگر یہ جاننا کیوں اہم ہے کہ اومیکرون کہاں سے اور کیسے وجود میں آیا؟
اومیکرون کی ابتدا
ہمیں واضح طور پر معلوم نہیں کہ اومیکرون کا ارتقا کہاں اور کن حالات میں ہوا، بس یہ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے 24 نومبر کو اس کی اطلاع عالمی ادارہ صحت کو دی گئی تھی۔
سائنسدانوں اور صحتِ عامہ کے ماہرین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وائرس کی نئی قسم کہاں اور کیسے وجود میں آئی کیونکہ اس سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی بہتر کوششیں کی جا سکتی ہیں مثلاً لاک ڈاؤنز یا سفری پابندیاں (حالانکہ ان اقدامات کو غیر مؤثر کہہ کر تنقید بھی کی جاتی ہے۔)
نئی قسم کا جتنی جلد پتا لگایا جائے اس کی سنگینی جانچنے کے لیے ہمارے پاس اتنا ہی زیادہ وقت ہوتا ہے اور یہ جاننے کے لیے بھی کہ یہ کتنی جلدی پھیلتا ہے، کیا یہ متاثرہ شخص کے اندر زیادہ تیزی سے اپنی نقول تیار کرتا ہے، کیا یہ زیادہ شدید بیماری پیدا کرتا ہے، کیا یہ جسم کے مدافعتی نظام کو چکمہ دے سکتا ہے؟
کیسے وجود میں آنے کا سوال بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اگر اومیکرون نے کمزور مدافعتی نظام والے کسی فردِ واحد کے اندر ارتقا کیا تو پھر ایسے افراد کی نگرانی کرنا کووڈ کے خلاف جنگ میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے شہر سیاٹل میں قائم فریڈ ہچنسن کینسر ریسرچ سینٹر میں وائرولوجسٹ ڈاکٹر لیری کوری کہتے ہیں ‘اب ہمارے پاس (نئی) اقسام اور کمزور مدافعت والے افراد میں کووڈ کے سنگین انفیکشنز کے درمیان تعلق کا اشارہ دیتا زیادہ ڈیٹا موجود ہے۔’
مگر وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ لوگ اب بھی کووڈ کی روک تھام کی حکمتِ عملیوں میں اہم جُزو بن کر سامنے نہیں آئے ہیں۔’
اومیکرون کا ارتقا فردِ واحد میں کیسے ہوا ہو گا؟
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اومیکرون کے ارتقا کے بارے میں ‘عقلمندانہ اندازے’ لگانے کے لیے متعدد اشارے موجود ہیں۔
ڈاکٹر رچرڈ کہتے ہیں کہ اومیکرون موجودہ اقسام سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔
‘جینیاتی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ وائرس کے شجرہ نسب کی ایک بالکل مختلف شاخ پر موجود ہے۔’
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اومیکرون میں ماضی قریب کی تبدیلیوں کا ریکارڈ موجود نہیں بلکہ اس کی قریب ترین شکل سنہ 2020 کے وسط کی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں کمپیوٹیشنل بائیولوجی سسٹمز کے پروفیسر فرانسوا بالو کہتے ہیں کہ اس خلا سے اندازہ ہوتا ہے کہ بے پناہ تبدیلیوں والا اومیکرون وائرس ‘چھپ کر’ ارتقا پذیر ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ نامعلوم جگہ سے آ گیا ہے اور یہ بہت، بہت مختلف ہے۔’
اومیکرون کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس نئی قسم میں 50 تبدیلیاں ہیں جن میں سے 30 تبدیلیاں سپائک پروٹین میں آئی ہیں۔ یہ وائرس کا وہ حصہ ہوتا ہے جس سے وائرس کے جسم کے مدافعتی نظام سے رابطے کا طریقہ واضح ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ڈیلٹا قسم میں سپائک پروٹین کی صرف سات تبدیلیاں تھیں۔
تو وائرس کی یہ نئی قسم ہماری نظروں میں آئے بغیر اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں اتنی زیادہ تبدیل کیسے ہو گئی؟
ویسے تو زیادہ تر لوگوں کے جسم سے کووڈ 19 کچھ ہی عرصے میں ختم ہو جاتا ہے مگر دنیا بھر میں ہونے والے تحقیقی مطالعوں کے مطابق یہ وائرس کمزور مدافعت والے افراد میں کہیں زیادہ عرصے تک باقی رہ سکتا ہے، مثلاً وہ مریض جو ایچ آئی وی یا کینسر سے متاثر ہوں یا پھر جنھیں عطیہ کیا گیا کوئی عضو لگایا گیا ہو۔
اپنے شکار کی جانب سے کم مزاحمت کے باعث اس وائرس کو اپنے اندر کئی تبدیلیاں پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے ورنہ ایسا ہونے کے لیے عام طور پر وسیع تر آبادی میں پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دسمبر 2020 میں کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے برطانیہ میں اس سال اگست میں کووڈ کے باعث ہلاک ہونے والے ایک کینسر کے مریض کے نمونوں کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئے۔ ان نمونوں میں ایک اہم تبدیلی کے ظاہر ہونے کے آثار نظر آ رہے تھے جو ایلفا قسم میں بھی دیکھی گئی تھی۔ ایلفا کو عالمی ادارہ صحت نے وائرس کی پہلی ’باعثِ تشویش قسم‘ قرار دیا تھا اور اس کی پہلی رپورٹ برطانیہ میں ہی گذشتہ سال سامنے آئی تھی۔
ابتدائی تشخیص کے 101 دن کے بعد اس مریض کی موت ہو گئی تھی۔
کیمبرج انسٹیٹیوٹ آف تھیراپیوٹک امیونولوجی اینڈ انفیکشس ڈزیز کے پروفیسر روی گپتا نے اس تحقیق کی سربراہی کی تھی۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کورونا وائرس کا عمومی انفیکشن صرف سات دن کے لیے باقی رہتا ہے اور یہ وائرس کے لیے جسم سے ہم آہنگ ہونے اور ارتقا کرنے کے لیے کافی وقت نہیں ہوتا کیونکہ مدافعتی نظام اس سے لڑ رہا ہوتا ہے۔‘
پروفیسر گپتا کہتے ہیں کہ کمزور پڑ چکے مدافعتی نظام کے باعث ہونے والا شدید انفیکشن وائرس کو پھلنے پھولنے کے لیے زیادہ سازگار ماحول فراہم کر دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وائرس کو پھلنے پھولنے کے لیے مکمل یا کم از کم جُزوی طور پر غیر فعال نظامِ مدافعت چاہیے ہوتا ہے۔‘
گذشتہ جون میں ڈاکٹر رچرڈ اور اُن کے ساتھیوں نے جنوبی افریقہ میں ایسی خاتون سے حاصل کیے گئے کورونا کے نمونوں پر تحقیق کی تھی جس کے ایچ آئی وی کا علاج نہیں کیا گیا تھا۔
نمونوں کے بار بار کیے گئے جینیاتی تجزیے میں اُنھوں نے وائرس کے ارتقا میں ’خاصی بڑی تبدیلیاں‘ دیکھیں۔
محققین نے خبردار کیا کہ یہ عوامی صحت کی ایک نئی ایمرجنسی کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ یکم دسمبر کو سائنسی جریدے نیچر میں شائع ایک مضمون میں ڈاکٹر رچرڈ اور اُن کے ساتھیوں نے اندازہ پیش کیا کہ ذیلی صحارائی افریقہ میں ایچ آئی وی کا علاج نہ کروانے والے 80 لاکھ افراد اس وقت مؤثر وائرس کش علاج نہیں حاصل کر رہے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا کبھی اس بیماری کے لیے ٹیسٹ ہی نہیں کیا گیا۔
اگر ڈاکٹر رچرڈ اور پروفیسر گپتا درست ہیں تو یہ وائرس کی نئی اقسام کے پھلنے پھولنے کے لیے مثالی جگہ ہے۔
دیگر نظریات
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اومیکرون کی شروعات کے بارے میں دو دیگر قابلِ یقین مفروضے موجود ہیں۔
ان میں سے ایک مفروضہ یہ ہے کہ اس وائرس نے پہلے کسی نامعلوم جانور کی آبادی کو متاثر کیا، پھر اس کے اندر تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد واپس انسانوں میں داخل ہوا، بالکل ویسے ہی جیسے مارچ میں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی کورونا وائرس انسانوں تک پہنچا تھا۔
مگر ڈاکٹر لیری کوری کہتے ہیں کہ اب تک اومیکرون کے کیے گئے جینیاتی تجزیے سے اشارہ ملتا ہے کہ اس کا ارتقا انسانوں میں ہی ہوا ہے۔
کوری کہتے ہیں کہ ’ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ (جانوروں سے منتقلی کا مفروضہ) سامنے موجود نتیجے جتنا ممکن نہیں ہے۔‘
پروفیسر بالو کہتے ہیں کہ اُن کی ٹیم کو جانوروں سے منتقلی کے متعلق کوئی ’واضح سراغ‘ نہیں ملے۔
اومیکرون کے بارے میں ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ یہ کسی فرد کے اندر نہیں بلکہ ایک ایسے علاقے کی آبادی میں پنپا جہاں زیادہ جینیاتی مانیٹرنگ نہیں ہے جیسا کہ کئی افریقی ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ جنوبی افریقہ پہنچا۔
برازیلین ماہرِ حیاتیات اور آزاد محقق ڈاکٹر اتیلا ایامرینو کو یقین ہے کہ اومیکرون کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔
ایامرینو کو اس میں ایک اور باعثِ تشویش قسم گیما کے ظہور سے مماثلت نظر آتی ہے جس نے ایمازون خطے کے سب سے گنجان آباد شہر مناس کو 2021 کے اوائل میں بڑے پیمانے پر متاثر کیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’جب گیما کا پتا لگایا گیا تھا اس وقت بھی کمزور مدافعتی نظام والے کسی فردِ واحد میں وائرس کی ارتقا کا مفروضہ پیش کیا گیا تھا مگر بعد میں ثابت ہوا کہ گیما اور ابتدائی کووڈ کے درمیان کی پشتیں پہلے ہی خفیہ طور پر مقامی آبادی میں پھیل رہی تھیں اور اسی دوران اُنھوں نے تبدیلی کی۔‘
ایامرینو کا خیال ہے کہ مزید تحقیق سے اومیکرون کے بارے میں بھی ایسا پایا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔ اومیکرون ایسے برِاعظم سے سامنے آیا جہاں ٹیسٹنگ اور مانیٹرنگ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔‘
اُن کے مطابق ’اومیکرون ہمارے موجودہ اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عرصے سے افریقہ میں گردش کر رہا ہو گا۔‘
پیشنٹ زیرو کون؟
فردِ واحد میں وائرس کی پرورش کے نظریے کے حامی ابھی متبادل نظریات کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے بجائے احتیاط سے کام لے رہے ہیں مگر اُن کو یقین ہے کہ ثبوت اُن کے حق میں ہیں۔
کسی وائرس یا بیکٹیریا سے متاثر ہونے والے پہلے انسان کو پیشنٹ زیرو کہا جاتا ہے۔
کسی مخصوص بیماری سے متاثر ہونے والے سب سے پہلے شخص کا پتا لگانا اہم ہوتا ہے کیونکہ اس سے بیماری کے متعلق کئی اہم سوالات مثلاً کیسے، کب اور کیوں کے جوابات مل جاتے ہیں۔
ان جوابات کے ذریعے موجودہ یا مستقبل کی وبا سے لوگوں کو بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مگر سائنسدان اب تک اومیکرون یا کووڈ کی کسی اور قسم سے متاثرہ پہلے فرد کا پتا نہیں لگا سکے ہیں۔
ڈاکٹر رچرڈ لیسیلز کا خیال ہے کہ اومیکرون کے مریضِ اوّل کو ڈھونڈ پانے کا امکان بے انتہا کم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی شروعات کی امکانی وجوہات میں سے کسی ایک کے حق میں متوازن ثبوتوں کا حامل ہونا ہو گا‘۔ تاہم وہ اس کے پہلے مریض کا تعیّن نہ کر پانے کو بھی مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔
’جو ہم نہیں چاہتے وہ یہ کہ اُن لوگوں کی بدنامی اور اُن سے روا رکھی جانے والی تفریق میں اضافہ ہو جس کا سامنا ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو رہتا ہے۔‘
اس کے بجائے لیسلز کا ماننا ہے کہ ’فردِ واحد‘ کا نظریہ افریقہ میں ویکسینیشن میں اضافے کی وجہ بننا چاہیے۔ اور وہ ایسا سوچنے میں اکیلے نہیں ہیں کہ عوامی صحت کے حکام کے لیے غیر ویکسینیٹڈ افراد کے لیے فوری ترجیح ہونے چاہییں۔
اوکسفرڈ یونیورسٹی اور ایک تعلیمی فلاحی تنظیم کے مشترکہ پراجیکٹ اوور ورلڈ ان ڈیٹا نے نومبر میں اندازہ لگایا تھا کہ سات فیصد سے بھی کم افریقی مکمل طور پر ویکسین لگوا چکے ہیں جبکہ عالمی سطح پر یہ تعداد 40 فیصد تک ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن میں عالمی صحت کے سینیئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر مائیکل ہیڈ کا خیال ہے کہ اگر ہم کووڈ کی نت نئی اقسام کو ابھرنے سے روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں ویکسینز کی غیر متوازی فراہمی پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔
’کووڈ سے متعلق دیگر چیزوں کی طرح کئی عوامل ہوں گے جو نئی اقسام کے ابھرنے میں کردار ادا کرتے ہیں مگر ویکسین کی غیر منصفانہ فراہمی یقینی طور پر اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اومیکرون افریقہ میں اس عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔‘
مائیکل ہیڈ کہتے ہیں کہ ’اومیکرون ہمارے لیے ایک اور یاد دہانی ہے کہ زیادہ ویکسینز فراہم کرنی چاہییں اور ویکسینز کی فراہمی میں موجودہ عدم مساوات کووڈ 19 کو پھلنے پھولنے کا موقع دے رہی ہے۔‘
’اگر آپ کو ویکسین نہیں لگی ہوئی تو آپ کے سخت بیمار پڑنے اور طویل عرصے تک بیمار رہنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘
’اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وائرس کو اپنے اندر تبدیلی کے لیے مزید مواقع مل جاتے ہیں جس سے نئی باعثِ تشویش قسم ابھرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ہمیں ایک اور یونانی حرف سیکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘
Comments are closed.