free hookup sites usa my senior hookup reviews black gay hookup hookup Vincentown New Jersey

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

دولت اسلامیہ میں ’میرا فائدہ اٹھایا گیا، مجھے دھوکہ دیا گیا‘

ترینہ شکیل: گھریلو زندگی سے ناخوش برطانوی خاتون کو دولتِ اسلامیہ میں شمولیت پر ’شدید پچھتاوا‘

  • پونم تنیجا
  • بی بی سی ایشین نیٹ ورک

Tareena Shakil

ایک برطانوی خواتین جنھوں نے شام جا کر دہشت گرد تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی، کہتی ہیں کہ انھیں اپنے کیے پر شدید پچھتاوا ہے۔

برمنگھم سے تعلق رکھنے والی ترینہ شکیل کو 2016 میں اس وقت جیل بھیجا گیا تھا جب وہ دولت اسلامیہ کے ساتھ رہنے کے تین ماہ کے بعد برطانیہ واپس آئی تھیں۔

اب 32 سالہ ترینہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے اعمال پر ‘شرمندہ‘ ہیں اور ‘ہر روز اس کے نتائج کے ساتھ جی رہی ہیں۔‘

حال ہی میں جیل سے رہا ہونے والی ترینہ نے شدت پسند خیالات کے انسداد کے حوالے سے ایک تربیتی پروگرام مکمل کیا ہے اور انھیں امید ہے کہ ان کی کہانی دوسروں کے لیے ایک انتباہ کا کام کرے گی۔

ترینہ شکیل شعبہِ صحت سے وابستہ تھیں۔ سنہ 2014 میں وہ اپنے ایک سالہ بیٹے کے ساتھ خفیہ طور پر شام گئیں اور غیر ملکی جنگجوؤں سے شادی کی منتظر دیگر خواتین کے ساتھ ایک گھر میں رہنے لگیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہماری گفتگو اکثر سنی جاتی تھی اور عام طور پر آپ سے ایک خاص طرح کے برتاؤ کی توقع کی جاتی تھی۔‘

‘ہم کوئی گڑبڑ نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں دو لڑکیاں تھیں جن کا رویہ قدرے مختلف تھا۔ میں اس کی ایک مثال بھی نہیں دے سکتی، وہ صرف بے ربط تھیں۔ ایک دن گاڑی آئی، کچھ مرد گاڑی سے اترے اور لڑکیوں کو لے گئے اور ہم نے انھیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔‘

Tareena Shakil pictured with her baby son

اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران ترینہ کو سوشل میڈیا پر پوسٹس کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پایا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے اپنے بچے کے ساتھ شام بھاگنے کے اپنے فیصلے کے حوالے سے ہر چیز پر افسوس ہے۔ میں ہر روز اس کے نتائج بھگتی ہوں۔‘

تین ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد ترینہ شکیل ترکی کے راستے سے فرار ہو گئیں اور برطانیہ واپس آ گئیں جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ پھر مقدمہ چلایا گیا اور انھیں چھ سال تک جیل میں ڈالا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ شدت پسند خیالات ترک کرنا ‘ایک طویل سفر‘ تھا اور انھیں اب امید ہے کہ ان کا کیس انتہا پسندی کے خطرات کے بارے میں ایک انتباہ کے طور پر دیکھا جائے گا۔

‘مجھے یاد ہے کہ میں واقعی اداس تھی اور میرا واقعی فائدہ اٹھایا گیا اور مجھے دھوکہ دیا گیا۔‘

Tareena Shakil

،تصویر کا ذریعہWest Midlands Police

ترینہ شکیل کو 2016 میں سزا سنائی گئی۔ اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ گھریلو زندگی سے ناخوش ہونے کی وجہ سے اکتوبر 2014 میں شام چلی گئی تھیں تاہم جب وہ خانہ جنگی میں گھرے ملک پہنچیں تو وہاں بھی وہ خوش نہیں تھیں۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس لوٹ جائیں کیونکہ ان سے غلطی ہوگئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ شہر رقعہ سے انھوں نے ایک بس لی اور پھر ایک ٹیکسی ڈرائیور کو رشوت دی کہ وہ انھیں ترکی کی سرحد تک لے جائے۔ جنوری 2015 میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ایسے مقام تک پہنچ گئی تھیں جو کہ ترکی کی سرحد سے ایک کلومیٹر دور تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی میں عبوری پناہ کے بعد وہ برطانیہ لوٹ آئیں جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 60 برطانوی خواتین شام گئی تھیں اور انھوں نے دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی۔ حکومت یہ تعداد کیی مرتبہ بتا چکی ہے تاہم اسے کافی عرصے سے تبدیل نہیں کیا گیا چنانچہ ہو سکتا ہے کہ یہ تعداد اب بڑھ چکی ہو۔

ترینہ شکیل اس سفر پر جانے والی لڑکیوں کی عکاس ہیں اور ان کے مقدمے نے اس پر سے پردہ اٹھایا ہے کہ یہ ‘جہادی دلہنیں‘ شام کیوں اور کیسے جاتی ہیں۔

وہ ایک مشکل رشتے میں تھیں اور جس طرح کسی کو ریڈیکلائز کیا جاتا ہے، اس تکنیک کا ان پر اثر ہونے کا امکان بہت تھا۔ پھر شاید متواتر بم حملے تھے یا ان سے شادی کے امیدواروں کی قطاریں، انھیں ‘دنیا کی خطرناک ترین جگہ‘ پسند نہیں آئی۔

ان کے مقدمے کے جج کا کہنا تھا کہ شاید ان کی سزا لوگوں کو ایسے کرنے سے روکے مگر شاید ان کی شام میں رہنے کی کہانی اس حوالے سے زیادہ موثر ثابت ہو۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.