ڈونلڈ ٹرمپ کی سابق اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو گالی: ’بی بی نے اچھا نہیں کیا‘
ایک وقت تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ اور بن یامین نتن یاہو میں بہت گاڑھی چھنتی تھی۔ لیکن پھر ٹرمپ سابق صدر ہو گئے اور اب انھیں اس بات کا اتنا غصہ ہے کہ انھوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کی جانب سے موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو مبارک باد دینے پر انھیں گالی ہی دے ڈالی۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک اسرائیلی صحافی باراک ریوڈ کی مشرق وسطی پر لکھی جانے والی کتاب پر انٹرویو دے رہے تھے جب انھوں نے نتن یاہو کی جانب سے جو بائیڈن کو نیا امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد مبارک باد پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے گالی دی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ‘جو بائیڈن کو سب سے پہلے مبارک باد دینے والا ‘بی بی’ تھا جس کا میں نے کسی بھی اور شخص سے زیادہ خیال رکھا۔ وہ چپ بھی رہ سکتا تھا۔اس نے بہت بڑی غلطی کی۔’
واضح رہے کہ بارہ سال تک اسرائیلی وزیر اعظم رہنے والے بن یامین نتن یاہو کو ‘بی بی’ بھی پکارا جاتا ہے جن کی حکومت کا خاتمہ رواں سال جون کے مہینے میں ہوا۔
‘میں نے تب سے بی بی سے بات نہیں کی’
اسرائیلی صحافی باراک ریوڈ اپنی کتاب ‘ٹرمپ پیس: دی ابراہام اکارڈز اینڈ ری شیپنگ آف مڈل ایسٹ’ کے لیے ٹرمپ کا انٹرویو کرنے گئے تو شاید انھیں یہ اندازہ نہیں ہو گا کہ کیا ہونے والا ہے۔
انٹرویو کے دوران سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اچانک توپوں کا رخ سابق اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب کر دیا۔ ‘نتن یاہو نے جو بائیڈن کو مبارک باد دینے میں بہت جلدی کی۔باقی سب سے بھی زیادہ جلدی۔ تب سے میں نے اس سے بات نہیں کی‘، اور پھر اس کے بعد انھوں نے بن یامین نتن یاہو کے لیے نازیبا کلمات ادا کیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ‘بی بی کے لیے میں نے بہت کچھ کیا۔ مجھے وہ پسند ہے۔ اب بھی۔ لیکن مجھے وفاداری زیادہ عزیز ہے۔’
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ‘جو بائیڈن کو مبارک باد دینے والا سب سے پہلا شخص بی بی تھا جس کے لیے میں نے کسی بھی اور شخص سے زیادہ کیا۔ وہ چپ بھی رہ سکتا تھا۔ اس نے بہت بڑی غلطی کی۔’
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس غصے کے اظہار کے پیچھے اصل وجہ ان کی جانب سے امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کو اب تک تسلیم نہ کرنا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ امریکی انتخابات میں فراڈ ہوا تھا۔
نتن یاہو کا رد عمل: ‘ٹرمپ کی خدمات کا معترف ہوں’
صدر ٹرپ کے دعوے کے برخلاف نتن یاہو پہلے غیر ملکی سربراہ نہیں تھے جنہوں نے جو بائیڈن کو مبارک باد دی۔
نتن یاہو کی جانب سے جب جو بائیڈن کو ٹوئٹر پر مبارک باد دی بھی گئی تو اس میں ان کے لیے نو منتخب صدر کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا جب کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد انھوں نے ٹرمپ کے حق میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے بھی ایک ٹویٹ کی تھی۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیے جانے والے بیانات پر رد عمل دیتے ہوئے نیوز ویب سائٹ ایکژئوز کو بتایا کہ وہ ٹرمپ کی اسرائیل کے لیے خدمات کے معترف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘میں اسرائیل اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات کو بھی سراہتا ہوں اور اسی لیے میرے لیے یہ اہم تھا کہ میں نئے صدر کو مابرک باد دیتا۔’
یہ بھی پڑھیے
ٹرمپ اور نیتن یاہو: مشرق وسطی میں امریکی پالیسی کا جھکاو
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کا جھکؤ اسرائیل کی جانب شدت سے ہو چکا تھا۔
ان تعلقات کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بن یامین نیتن یاہو کے درمیان باہمی دوستی بھی بتائی جاتی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو اپنے ملک کا ‘سب سے عظیم دوست’ قرار دیا۔
جواب میں ٹرمپ کے امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا اور اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کر دیا۔
اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکہ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرایئل کے تسلط کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقوں میں اسرایئل کی غیر قانونی جبری بستیوں کو بھی مان لیا تھا جو کہ اقوام متحدہ کے موقف کے برعکس تھا۔
نتن یاہو نے ‘ٹرمپ ہائٹس’ کے نام سے ایک نئی آبادی بھی قائم کی۔ ان اقدامات سے فلسطین میں مایوسی اور مشرق وسطی کی سیاست میں واضح تبدیلی آئی تھی۔
‘میں نے اسرائیل کو تباہی سے بچا لیا تھا’
حالیہ انٹرویو کے دوران ٹرمپ نے یہ دعوی بھی کیا کہ انھوں نے اسرائیل کو تباہی سے بچا لیا تھا۔
اسرائیلی صحافی کو انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ‘میں آپ کو بتاؤں اگر میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیل تباہ ہو جانا تھا۔ آپ سچ جاننا چاہتے ہیں؟ میرا خیال ہے اب تک اسرائیل تباہ ہو چکا ہوتا۔’
Comments are closed.