بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’ڈیموکریسی دیٹ ورکس‘: چین اپنے نظام کو مغربی جمہوریت کا متبادل کیوں کہتا ہے؟

جمہوریت پر امریکہ کے ورچوئل سمٹ کے جواب میں چین اپنے ’متبادل‘ نظام کے فروغ میں سرگرم

  • بی بی سی مانیٹرنگ
  • تجریہ

چین، جمہوریت، امریکہ

،تصویر کا ذریعہEPA

امریکہ کے ’سمٹ فار ڈیموکریسی‘ کے جواب میں چین کی جانب سے مغربی جہموری نظام پر تنقید کی جا رہی ہے اور اسے اکثر ترقی پذیر ممالک کے لیے غیر موزوں قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکی ورچوئل اجلاس سے قبل چین نے اپنی طرز کے جمہوری نظام کو امریکی جمہوریت سے نہ صرف بہتر کہا بلکہ اپنے اس نظام کی تشہیر کے لیے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔

سرکاری نیوز ایجنسی ژنوا کی رپورٹ کے مطابق چین کی خارجہ پالیسی نے دو دسمبر کو ’ڈائیلاگ آن ڈیموکریسی‘ کا اہتمام کیا جس میں نائب وزیر خارجہ لی یوچنگ نے دعویٰ کیا کہ ’یقیناً اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین میں حقیقی جمہوریت ہے۔‘

اس مباحثے کے بعد حکومتی سرپرستی میں چار دسمبر کو ایسا ہی ایک اور بین الاقوامی فورم رکھا گیا جس پر اسی دن گلوبل ٹائمز نے اپنی خبر میں لکھا کہ یہ پلیٹ فارم ایک بہتریں موقع فراہم کرتا ہے کہ جمہوریت پر بیانیے کی اجارہ داری اور یکطرفہ دعوؤں کو ختم کیا جائے۔

چین کے ریاستی ادارے ’سٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس‘ نے چار دسمبر کو ملک کا جمہوریت پر پہلا وائٹ پیپر جاری کیا جس کا عنوان ’چین: ڈیموکریسی دیٹ ورکس‘ (جمہوریت جو کام کرتی ہے) تھا اور اس کو وزارتِ خارجہ نے پانچ دسمبر کو اور چونگیانگ انسٹیٹیوٹ فار فائنینشل سٹڈیز نے چھ دسمبر کو علیحدہ علیحدہ جاری کیا۔

ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی بے شمار خبروں کے علاوہ چین کی خارجہ پالیسی کے حکام نے ٹوئٹر پر پیغامات جاری کیے جن میں امریکہ میں رائج جمہوریت کے نقائص اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی اور ’جمہوریت کیا ہے‘ اور ’جمہوریت کی تشریح کون کرے گا‘ جیسے ہیش ٹیگ استعمال کیے گئے۔

سخت گیر سوچ کے حامل اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کے مدیر ہو شن جن نے تین دسمبر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ چین جمہوریت کے اعلیٰ مقاصد کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مکمل عوامی جمہوریت کے لیے کی جانے والی کوششیں تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک قابل قدر روایت بن جائیں گی۔

چین، جمہوریت، امریکہ

،تصویر کا ذریعہReuters

جمہوریت کا چینی تصور

چین کا کہنا ہے کہ یہ عوام کی جمہوریت کے جامع عمل پر کاربند ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطاق صدر شی نے پہلی مرتبہ دو نومبر سنہ 2019 میں یہ تصور تجویز کیا تھا۔

جمہوریت پر چینی وائٹ پیپر میں عوام کی جمہوریت کے جامع عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک اصلی اور حقیقی جمہوریت ہے جو مؤثر انداز میں کام کرتی ہے۔

اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ایسا جامع اور قابل عمل جمہوری نظام ہے جو ’عملی جمہوریت‘ کو ’نتیجہ خیز جمہوریت‘ سے ہم آہنگ کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ جمہوری نظام طریقہ کار کو اصولوں کے ساتھ، براہ راست کو بالواسطہ کے ساتھ اور جمہور کی آواز کو ریاست کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔

جمہوریت کے چینی تصور میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کا معیار زندگی بہتر کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ مغربی جمہوریت کے بعض تصورات پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا، جیسے ووٹ ڈالنا، اظہار رائے اور شہری آزادی۔

اس سال اکتوبر میں پیپلز کانفرنس میں صدر شی نے کہا تھا کہ جمہوریت کوئی سجاوٹ کرنے کی شہ نہیں بلکہ اس سے ان مسائل کو حل ہونا چاہیے جو عوام حل کروانا چاہتے ہیں۔

وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ پر 26 نومبر کو وزیر خارجہ وانگ ژی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی کسوٹی یہ ہونی چاہیے کہ کیا یہ لوگوں کی ضروریات پوری کرتی ہے اور انھیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ان میں احساس شمولیت، اطمینان اور مستفید ہونے کا احساس پیدا ہو۔

چین میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کا مزید جواز مہیا کرنے کے لیے کہا گیا کہ عوام کی جمہوریت کا جامع عمل چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کا متقاضی ہے۔

سی سی پی پالیسی ریسرچ آفس میں ڈپٹی ڈائریکٹر تیان پیان کا کہنا تھا کہ ملک میں عوام کی جمہوریت کے جامع عمل کے فروغ اور ترویج میں کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی کو تسلیم کرنا ایک بنیادی نکتہ یا گارنٹی ہے۔

حکمران جماعت کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں 5 دسمبر کو شائع ہونے والے تیان پیان کے تبصرے میں مزید کہا گیا کہ جمہوری نگرانی میں جمہوریت کی سمت کا درست تعین کرنے اور بدعنوانی کو روکنے کو یقینی بنانے میں کمیونسٹ پارٹی کا اہم کردار ہے اور اسی لیے اس کی قیادت کو تسلیم کیا جانا بہت ضروری ہے۔

چین امریکہ کی جمہوریت کی ناکامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی طرز کے جمہوری نظام کا اکثر امریکہ کے جمہوری نظام سے مقابلہ کرتا رہتا ہے تاکہ اپنی طرز جمہوریت کی خوبیوں کو اجاگر کیا جا سکے۔

چین، جمہوریت، امریکہ

،تصویر کا ذریعہEPA

سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں چار دسمبر کو شائع ہونے والا ایک تبصرہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس میں چین کی جمہوریت کو داد دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ نظام امریکہ کے جمہوری نظام کے مقابلے میں زیادہ وسیع البنیاد، حقیقی اور مؤثر ہے۔

یہ دعویٰ عوام کے ووٹ ڈالنے کی شرح اور ووٹروں کی وسیع نمائندگی کی بنیاد پر کیا گیا بجائے اس کے کہ مخصوص مفاد کے حامل گروہوں کی طرف سے پارٹی اور لوگوں کی نگرانی اور ان کی تسلی کے اعتبار سے کیا جائے۔

متبادل راستوں کے شواہد دینا اس مہم کا حصہ ہے

اس بات کا امکان نہیں کہ چین کھلے عام اپنے طرز جمہوریت کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہے گا۔ جیسا کہ وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ جمہوریت کے کئی انداز ہیں اور یہ غیر جمہوری طرز عمل ہے کہ ان مختلف سیاسی نظاموں کو دنیا میں ایک ہی پیمانے پر جانچا جائے۔

اس کے بجائے چین چاہتا ہے کہ وہ یہ دکھا سکے کہ وہ ایک ذمہ دار عالمی طاقت ہے، جو اپنا نظریہ پیش کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کی سیاسی تہذیب اور جمہوری عمل میں اپنا حل پیش کر رہی ہے۔

اس کا مقصد دنیا پر امریکی جمہوریت کے اثر کو کم کرنا اور اپنے جمہوری نظام کے فوائد کی تشہیر کرنا ہے تاکہ دیگر ممالک کے پاس ترقی کے حصول کے لیے ایک متبادل راستہ موجود ہو۔

سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این پر چھ دسمبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا کہ وزیر اطلاعات ژو لی نے ایک پریس کانفرنس، جس میں جمہوریت پر وائٹ پیپر جاری کیا گیا تھا، میں کہا کہ کسی ملک میں جمہوری نظام ہونا چاہیے یا نہیں یہ سوال اس ملک کے لوگوں کی مرضی سے حل ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اطلاعات نے جمہوریت کے ’خود ساختہ ججوں‘ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔

اسی مضمون میں کہا گیا کہ چین میں حکام نے بارہا یہ کہا ہے کہ چین ’جمہوریت پر کسی قسم کی اجارہ داری میں ملوث نہیں ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.