کشمیر کونسل ای یو نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے معروف کارکن خرم پرویز کی رہائی کے لیے بین الاقوامی مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ اعلان کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے یورپین پریس کلب برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر یورپین پارلیمنٹ کے رکن لارس پیٹرک برج بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے گرفتار خرم پرویز پر بھارتی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کا الزام ایک گھٹیا ترین اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔
انسانی حقوق کا کام کرنے والی ساری دنیا کی معروف تنظیمیں جانتی ہیں کہ خرم پرویز دہشت گرد نہیں ہے بلکہ انہوں نے بھارتی حکومت کے کشمیری آبادی کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
انہوں نے معروف تنظیم جے کے سی سی ایس کے پلیٹ فارم سے ’اسٹرکچر آف وائلینس‘ کے نام سے جو بھاری بھرکم دستاویزی ثبوت مرتب کیے ہیں، اس نے بھارتی جمہوریت کے پردے میں چھپی سفاکیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔
انہی دستاویزات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھارت کے خلاف اپنی رپورٹس جاری کیں تھیں۔
اس وقت بھی ان کی گرفتاری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنی فورسز کے حالیہ دنوں میں کیے گئے ماورائے عدالت قتل کے کیس دنیا کے سامنے آنے سے ڈرتی ہے اور خرم پرویز ایسے ہی واقعات پر کام کر رہے تھے۔
چیئرمین کشمیر کونسل نے مزید کہا ہے کہ پہلے خرم پرویز کو دہشت گردی کے غلط الزام میں گرفتار کیا گیا اور اب انہیں بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں منتقل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جیل میں خرم پرویز کی جان لی جا سکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ خرم پرویز اور دیگر سیاسی اسیران کی رہائی کے لیے باقاعدہ ایک مہم چلائی جائے۔
انہوں نے مزید آگاہ کیا کہ کشمیر کونسل نے اس حوالے سے تمام یورپین اداروں سمیت 70 سے زائد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو خطوط لکھے ہیں، ان میں وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جو خرم کے کام سے واقف اور انہیں اچھی طرح جانتی ہیں، تاکہ ان کی رہائی کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے۔
پیٹرک برج ایم ای پی نے اس موقع پر کہا کہ آج کی دنیا میں کشمیر کا تنازعہ ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، یورپین پارلیمنٹ اور دنیا اس سے واقف ہے، ہمارے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے اچھے مراسم ہیں۔
اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اس تنازعے کا پر امن حل نکلے اور اس میں کسی انسان کو کوئی بھی نقصان نہ پہنچے، آخر میں ایک مشترکہ فوٹو گراف کے ذریعے خرم پرویز کی رہائی کے لیےے باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
Comments are closed.