charlotte hookup bars hookup Colmar hookup by tinder funny will send nudes in 20 minutes no hookups curvy hookup hookup Uniondale

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

وہ نوجوان جنھیں ملازمت کا جھانسہ دے کر لیبیا سمگل کیا جاتا ہے

بنگلہ دیشی نوجوان جنھیں ملازمت کا جھانسہ دے کر لیبیا سمگل کیا جاتا ہے

نوجوان

،تصویر کا ذریعہKate Stanworth

ہماری سیریز افریقی صحافیوں کے خطوط کے سلسلے میں اسماعیل ایناشے نے ہمیں وہ کہانی سنائی ہے جس میں وہ ایک ایسے شخص سے ملے جسے لیبیا میں کام کا دھوکہ دے کر سمگل کیا گیا اور وہ وہاں سے فرار ہوا۔

Short presentational grey line

اٹلی کے شہر پالرمو میں ایک نوجوان بنگلہ دیشی پناہ گزین کرسی پر بیٹھ کر اپنے موبائل فون سے کھیلتے ہوئے لیبیا میں اپنے ساتھ پیش آنے والے دردناک تجربے کو بیان کر رہا ہے۔ اس نوجوان کی حفاظت کے پیش نظر اس تحریر میں ان کا اصل نام ظاہر نہیں کیا جا رہا۔

دسمبر سنہ 2019 میں 19 سال کے علی نے اپنے والدین کی نیک تمناؤں کے ساتھ کام کی تلاش میں ایک پرخطر سفر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک ٹریول ایجنٹ یا ’دلال‘ سے ملنے کے بعد علی کو اس خطروں سے بھرپور سفر کو شروع کرنے کا حوصلہ ملا لیکن درحقیقت وہ انسانی سمگلر تھا جو سوشل میڈیا پر بنگلہ دیشی جوانوں کو دولت کے خواب دکھا کر پھنساتا تھا۔

سسلی میں موجود ایک اور بنگلہ دیشی نے بتایا کہ کیسے وہ ’دلالوں‘ کی بدولت سنہ 2016 میں صرف 15 برس کی عمر میں اپنے ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔

’میرا خاندان چاہتا تھا کہ میں وہاں سے نکل جاؤں لیکن ایک نابالغ ہونے کی وجہ سے میں ایسا نہیں کر سکا۔ پھر انھوں (خاندان) نے میرا جعلی پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے دلال کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔‘

اس نوجوان کے مطابق دستاویز میں ان کی عمر 21 سال بتائی گئی۔

دوسری جانب وہ دلال جس نے علی سے دوستی کی، وہ انھیں مسلسل لیبیا جانے کے لیے رضامند کرتا رہا اور یہاں تک کہ اپنے گھر میں کھانے پر بھی مدعو کیا۔

بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کچھ خاندان لیبیا پہنچنے کے لیے اپنا مال مویشی فروخت کر دیتے ہیں

علی بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے میں ایک کاسمیٹکس کی دکان پر کام کر کے اپنا گھر چلاتے تھے۔

یہ دلال، علی جیسے نوجوانوں، جو غربت سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن روزگار کی خاطر اپنا ملک چھوڑنے والوں میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لیبیا وحشیانہ خانہ جنگی کا شکار ایک ملک ہے اور یہ کہ وہاں سمگل ہونے والے بدحالی، استحصال اور غلامی کی زندگی گزارتے ہیں۔

علی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ انھیں لیبیا کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔

دلال نے علی کے والدین سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ ان کا بیٹا لیبیا کی فیکٹریوں میں کام کر کے ماہانہ 500 ڈالر کما سکتا ہے۔

علی کے والدین نے دلال کو بتایا کہ ان کے پاس اس سفر کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں جس پر دلال نے انھیں اپنا ایک جانور بیچنے کے لیے قائل کیا۔

تاوان کے لیے حراست میں رکھا

علی ڈھاکہ سے انڈیا کے شہر کولکتہ بذریعہ بس پہنچے اور پھر ممبئی، دبئی اور قاہرہ سے مختلف پروازوں کے ذریعے انھیں لیبیا پہنچنے میں ایک ہفتہ لگا۔

علی بتاتے ہیں کہ جب وہ بن غازی ہوائی اڈے پر اترے تو انھیں ایک ’افراتفری‘ والا شہر ملا جس میں کوئی سکیورٹی یا پولیس نہیں تھی۔

بن غازی

،تصویر کا ذریعہAFP

دلال کے لیبیا میں موجود مقامی ساتھی علی کو فوری طور پر ایک جیل میں لے گئے جہاں ان سے ان کی ساری رقم چھین کر تاوان کے لیے حراست میں رکھا گیا۔

علی کے والدین کو اپنے بیٹے کو چھڑوانے کے لیے اپنی دو گائیں بیچ کر پیسے جمع کرنے پڑے۔

علی کی جیل ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں کوئی گدے نہیں تھے اور ان کے علاوہ یہاں 15 بنگلہ دیشی اور بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو تاوان کی رقم نہیں ادا کر سکے تھے۔

علی کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ایک شخص کو میرے سامنے مارا اور اس کا خون بہنے لگا لیکن انھوں نے نہ اس کی مدد کی اور نہ ہی ہسپتال لے کر گئے۔‘

لیبیا میں حالیہ برسوں میں سمگل ہو کر آنے والے بنگلہ دیشی باشندوں کے لیے سکیورٹی صورتحال بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔

مئی 2020 کو 30 تارکین وطن، جن میں سے 26 کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا، کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے قریب علاقے مزدہ کے ایک گودام میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ایک بچ جانے والے شخص نے بتایا کہ ان سب افراد کے خاندان تاوان کی رقم ادا کرنے میں ناکام رہے تھے۔

بغیر تنخواہ کے کام کرنا

بالآخر جب علی کو رہا کر دیا گیا تو انھوں نے بن غازی کے ایک پلانٹ میں تین ماہ تک سمگلروں کے لیے کام کیا، جس کے بعد وہ ایک ٹائل فیکٹری میں کام کرنے کے لیے طرابلس چلے گئے۔

لیبیا میں موجود 20 ہزار بنگلہ دیشی شہریوں کی طرح علی کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا گیا، انھیں تنخواہ نہیں دی گئی اور وہ ناقابل برداشت حالات میں زندگی گزارتے رہے۔

تارکین وطن

،تصویر کا ذریعہAFP

علی کہتے ہیں کہ ’اگر ہم کام کرنا روک دیتے تو ہمیں مارا جاتا۔ ایک بار ہم میں سے ایک شخص سے ایک ٹائل ٹوٹ گئی، ایک آدمی آیا اور اس نے اس شخص کو ٹھوکریں ماریں۔‘

علی کو اس ٹائل فیکٹری کے مالک کے ساتھ رکھا گیا۔

’مالک ہمیں کام پر لے جاتا اور اس کے بعد ہمیں گھر لے جاتا۔ ہماری نگرانی پر دو محافظ مامور تھے۔ ہمیں کام کرنے کی تنخواہ نہیں دی جاتی تھی۔ کھانا بھی کافی نہیں ہوتا تھا اور ہم سب بھاگ جانا چاہتے تھے۔‘

’ہم میں سے ایک نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ دوسری منزل سے گر گیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔‘

فرار ہونے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد لیبیا کے ہی ایک شہری نے علی کو ایک مسجد میں پناہ دلانے میں مدد کی۔ علی نے محسوس کیا کہ بحیرہ روم پار کر کے اٹلی جانے کا واحد راستہ سمگلروں سے دوبارہ رابطہ کرنا ہے۔

سمندر میں شارک

علی کے والدین نے دوبارہ پیسوں کا بندوبست کیا۔ علی کے اندازے کے مطابق بنگلہ دیش سے اٹلی پہنچنے میں ان کے خاندان کے چار ہزار ڈالر لگے، جس سے ان کا خاندان قرض میں ڈوب گیا۔

تارکین وطن کی کشتی

،تصویر کا ذریعہKate Stanworth

گذشتہ برس جولائی میں اٹلی جانے کے لیے بحیرہ روم پار کرنے کا سفر علی اور ان کے ساتھ کشتی میں موجود 79 پناہ گزینوں کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوا۔

’دو دن تک ہمیں اپنے اردگرد صرف سمندر نظر آیا۔ پھر ایک فاصلے پر ہمیں دو شارک مچھلیاں نظر آئیں۔ اس وقت کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ ہمیں کھانے آ رہی ہیں۔ میں نے اس لمحے سوچا کہ اب بس ہم مر جائیں گے۔‘

لیکن انھیں بچا لیا گیا اور سسلی منتقل کرنے سے پہلے جزیرے لیمپیڈوسا لے جایا گیا۔

علی اب سسلی کے دارالحکومت پالرمو کے مضافات میں ایک بڑے مہاجر کیمپ میں نائیجیریا، گیمبیا اور سینیگال سے آنے والے دیگر نوجوان تارکین وطن کے ساتھ رہتے ہیں۔

علی نے بتایا کہ لیبیا میں بنگلہ دیشیوں اور دیگر قومیتوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ سمگلروں کی جیلیں نسلی بنیادوں پر منظم تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

سوشی کے خواب

علی کے پاس اٹلی میں کام کی اجازت کے عارضی دستاویزات موجود ہیں تاہم انسانی تحفظ کی ان کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے، جس کے خلاف وہ اپیل کر رہے ہیں۔

وہ پالرمو کی نئے ثقافت کو اپنا رہے ہیں اور افریقی تارکین وطن کے ساتھ اب ایک سوشی ریستوران میں کام کرتے ہیں۔

سسلی

،تصویر کا ذریعہKate Stanworth

،تصویر کا کیپشن

ہزاروں بنگلہ دیشی تارکین وطن سسلی میں رہتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی دکانوں پر کام کرتے ہیں

ان کی تنخواہ بہت کم ہے۔ وہ ہفتے میں چھ دن کام کرتے ہیں اور ایک ماہ میں 870 ڈالر کما لیتے ہیں لیکن وہ اس میں سے 570 ڈالر بنگلہ دیش اپنے گھر والوں کو بھیج دیتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں پالرمو میں سوشی کی جانب رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن شہر میں رہنے والے چند جاپانی لوگوں کے ساتھ اب چینی ریستورانوں نے بھی اس مارکٹ میں قدم رکھا ہے۔

علی، جنھوں نے یہاں پہنچنے سے پہلے کبھی سوشی کے بارے میں نہیں سنا تھا، اب آہستہ آہستہ کچی مچھلی کے ذائقے سے لطف اندوز ہونے لگے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں سوشی بنانا سیکھوں گا اور اطالوی زبان بھی سیکھوں گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.