بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

خلیج میں سفارتی سرگرمیاں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری کا اشارہ ہیں؟

سعودی عرب اور ایران: کیا خلیجی ریاستوں میں سفارتی سرگرمیاں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری کا اشارہ ہیں؟

  • ثقلین امام
  • بی بی سی اردو، لندن

شیخ طحنون بن زايد النہیان اسی ہفتے کے آغاز میں تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب اور ملک کے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کر کے لوٹے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہIranian Presidency/Anadolu Agency via Getty Images

،تصویر کا کیپشن

شیخ طحنون بن زايد النہیان اسی ہفتے کے آغاز میں تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب اور ملک کے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کر کے لوٹے ہیں۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خلیجی ممالک کے دورے میں اقتصادی، ماحولیاتی اور ثقافتی تعاون کے معاہدوں سمیت ایران، یمن اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف ایک سیاسی موقف تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی میں ایران کے میزائیل پروگرام پر بھی پابندیاں عائد ہوسکیں۔

عمان، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور قطر کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) بحرین اور کویت کا بھی دورہ کریں گے۔ متحدہ امارات میں جہاں ان کی ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید (ایم بی زیڈ) سے ملاقات ہوئی وہیں یو اے ای کے قومی سلامتی امور کے مشیر اور ولی عہد کے بھائی، شیخ طحنون بن زايد النہیان سے بھی ملاقات ہوئی۔

شیخ طحنون بن زايد النہیان اسی ہفتے کے آغاز میں تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب اور ملک کے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کر کے لوٹے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر کا یہ دورہ اس وقت کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ امارات طویل عرصے سے ایران کو اپنی سلامتی کے لیے اہم علاقائی خطرے کے طور پر دیکھتی رہی ہے۔

شحیخ طحنون نے، جو ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید کے بھائی ہیں، کہا کہ دونوں ممالک کو اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے نہ کہ فوجی طاقت سے حل کرنے چاہیں۔ سعودی ولی عہد نے اب تک جن خلیجی عرب ممالک کا دورہ کیا ہے وہاں کے مشترکہ اعلامیوں میں ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی کی صورت میں ایران کے میزائیل پروگرام کو بھی شامل کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

عمان میں سرمایہ کاری کا معاہدہ

حال ہی میں سعودی عرب اور عمان کے دارالحکومت مسقط سے جاری ہونے والے اعلامیے میں ایران سے تعاون کی اہمیت کے ساتھ ایران کے جوہری اور میزائل معاملات کے ساتھ سنجیدگی سے اور مؤثر طریقے سے نمٹنے پر زور دیا گیا ہے۔

تاہم اعلامیے میں اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ معاملات اس طرح نمٹے جائیں جو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی اور استحکام کے حصول میں معاون ثابت ہو، اچھی ہمسائیگی اور اقوام متحدہ کی بین الاقوامی قرار دادوں کے احترام کے اصولوں کی توثیق کرتے ہوں اور خطے کو عدم استحکام کی تمام سرگرمیوں سے بچاتے ہوں۔

عمان اور سعودی عرب کا مشترکہ اعلامیہ ایک ایسے ماحول میں جاری کیا گیا ہے جب خطے میں سعودی عرب کے بڑے حریف، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے اہم بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ اس ماہ ہونے والی خلیجی سربراہی کانفرنس میں تمام رکن ممالک کی شمولیت یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان پیر کو ہمسایہ خلیجی عرب ریاستوں کے دورے پر روانہ ہوئے۔ سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ولی عہد عمان، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور کویت کا دورہ کریں گے۔ عمان کا دو رہ ان کے اس علاقائی تعاون کے دورے کا پہلا مرحلہ ہے۔

شہزداہ سلمان بن محمد قطر کے دورے پر

،تصویر کا ذریعہAmiri Diwan of the State of Qatar/Anadolu Agency v

کشیدگی کے بعد قطر کا پہلا دورہ

اس کے علاوہ سعودی ولی عہد جو اس وقت سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے صاحبِ فراش ہونے کی وجہ سے ملک کے عملاً سربراہ ہیں، قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی جا رہے ہیں۔ ریاض اور اس کے عرب اتحادیوں کی جانب سے سنہ 2017 کے وسط میں دوحہ پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد یہ ولی عہد کا قطر کا پہلا دورہ ہو گا۔ قطر سے تعلقات میں بہتری گزشتہ جنوری میں ہوئی تھی۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے جون 2017 میں قطر کی ناکہ بندی شروع کی تھی، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ بنیاد پرست اسلام پسند گروپوں کی حمایت کرتا ہے اور وہ ریاض کے حریف تہران کے بہت قریب ہے۔ دوحہ نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی۔

سعودی عرب کے ایک اخبار ‘العربیہ’ نے کہا کہ خلیجی عرب رہنماؤں کا سربراہی اجلاس دسمبر کے وسط میں سعودی دارالحکومت ریاض میں ہوگا جس میں شہزادہ محمد بن عبدالعزیز خلیجی ممالک کی علاقائی تعاون کی کونسل کے تمام رکن ممالک کی شرکت یقینی بنانا چاہتے ہیں تاکہ دنیا بھر میں اور خاص کر ایران اور ترکی تک خطے میں سعودی برتری کا پیغام جائے۔

ترکی اور ایران سے کشیدگی

شہزادے کا یہ دورہ علاقائی تنازعات کے حل، خاص طور پر ایران اور ترکی کے ساتھ ایک پس منظر میں آیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان برف پگھلنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اس سے قبل تہران اور ریاض نے تعلقات کو بہتر بنانے کے مقصد سے اپریل سے مذاکرات کے کئی دور کیے ہیں۔

سعودی عرب کی قیادت والی گلف عرب کونسل کو ایران سے مقابلے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، لیکن کیا اب اس کی بحالی ایران کے خلاف ہوگی یا بدلتی دنیا میں تعاون کا ایک نیا انداز ہوگا۔

اسی دوران ترکی نے خلیج میں اپنے سابق حریفوں بشمول متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوشش کی ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے سنہ 2018 میں استنبول کے قونصل خانے میں قتل کے بعد انقرہ اور ریاض کے درمیان تناؤ بڑھ گیا تھا۔ قطر اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے دوران ترکی قطر کا حامی بن کر ابھرا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے موجودہ دورے کا آغاز ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے منگل کو دوحہ کے دورے کے فوراً بعد ہوا ہے۔ تاہم قطر کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان دو دوروں کا آگے پیچھے ہونا محض اتفاق ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہJOE KLAMAR/AFP via Getty Images

،تصویر کا کیپشن

ایران کے جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی آسٹریا میں

ایران کا جوہری معاہدہ

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے علاقائی کشیدگی پر قابو پانے کے لیے اپنے دیرینہ حریف ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے جو اب تک تیسرے ذریعے کی وساطت سے اور کچھ براہِ راست بات چیت کی ہے وہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جوہری معاہدے کو بچانے کی کوششوں کے پس منظر میں ہوئی ہے۔

گزشتہ ہفتے ویانا میں ہونے والی بات چیت کے تازہ ترین دور میں، مغربی طاقتوں نے سنہ 2015 کے معاہدے کو بچانے کے لیے ایران کے عزم پر سوال اٹھایا، جس پر خلیجی ریاستوں کا اعتراض یہ ہے کہ ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے میں تہران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اُس کے حامی پراکسیوں کے نیٹ ورک کے معاملے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

ایران اور خلیجی ممالک

حال ہی میں امریکی جریدے ‘دی اٹلانٹک’ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں معروف صحافی کِم غتاس ریاض اور تہران کے تعلقات کی نوعیت پر سعودی عرب کے امریکہ میں سابق سفیر اور سعودی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ، ترکی بن فیصل کا ایک فقرہ بیان کرتی ہیں: ‘ایرانیوں نے ہمیں ہمارے خصیوں سے پکڑا ہوا ہے۔’ (کِم غتاس کہتی ہیں کہ وہ ایک نجی ماحول میں بات کر رہے تھے اور بعد میں کہا کہ وہ اس بات چیت کا حوالہ دے کر شائع کر سکتی ہیں۔)

شہزادہ ترکی الفیصل کے بقول سعودی مملکت کو سخت پابندیوں کے شکار مخالف کے سامنے اپنے آپ کو کافی محفوظ محسوس کرنا چاہیے، ایک ایسا مخالف جس کی معیشت سعودی معیشت سے ایک تہائی سے بھی کم ہے، جس کا فوجی بجٹ مملکت کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے، اور جس کی تیل کی پیداوار بہت ہی کم ہے۔

کم غتاس ان کی بات کو مختصراً بیان کر کہ ان کے حوالے سے مزید کہتی ہیں کہ ‘سعودی عرب میں ایک سنی عرب بادشاہت، جبکہ ایران میں ایک شیعہ فارسی ملائیت ہے۔ ایسے میں تو سعودی عرب کو انتہائی پُر اعتماد ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب اپنے آپ غیر محفوظ سمجھتا ہے۔’

ترکی بن فیصل کے مطابق ایرانی حکام برسوں سے فخر کر رہے ہیں کہ وہ چار عرب دارالحکومتوں: بیروت، دمشق، صنعاء اور بغداد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان تمام ممالک میں، تہران ملیشیا کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جس کے ذریعے وہ خطے میں طاقتور ہے، مقامی وسائل کو استعمال کرتا ہے، اور ‘آگ کا ایک دائرہ’ بناتا ہے جو بنیادی طور پر سعودی عرب کو گھیرے میں لیتا ہے۔

وہ کِم غتاس سے مزید بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ کے حوالے سے ایران کا سستا اور غیر روایتی جنگ کا طریقہ اسے اپنے امیر خلیجی پڑوسیوں کے بہتر ہتھیاروں سے لیس لیکن کم تجربہ کار روایتی افواج پر برتری دیتا ہے۔ اس میں ایک جوہری پروگرام، جو تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، شامل کریں تو ایران اور مضبوط ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی بن فیصل کے مطابق تاہم حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں غیر مرئی مگر سنجیدہ تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں جو ایران میں غیر محفوظ ہونے کا احساس پیدا کر رہی ہیں۔ ان کے خیال میں یہی بڑی وجہ ہے کہ ایران زیادہ پُر اعتماد نظر آرہا ہے اور اس کا جوہری معاہدے پر نئے مذاکرات کے حوالے سے رویہ غیر لچکدار اور غیر مصلحت پسندانہ نظر آرہا ہے۔

حوثی جنگجو

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

’سعودی عرب حزب اللہ، حوثی اور بشارالاسد کے بارے میں غیر لچکدار رویہ رکھتا ہے، یعنی خطے میں جو ایران کے اتحادی طاقتیں یا تنظیمیں ہیں ان کے بارے میں۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی:‘ تجزیہ کار

تجزیہ کار پُر امید نہیں ہیں

ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کیا کسی بہتری کی امید ہے یا موجودہ سفارتی سرگرمی اتنی بھی گرم نہیں ہے کہ برف پگھل سکے۔ ہم نے اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خطے کے امور کو سمجھنے والے چار تجزیہ کاروں سے چند سوالات کیے جو ذیل میں جوابات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔

سعودی عرب کے معاملات کر گہری نظر رکھنے والے کینیڈا میں مقیم صحافی، سید راشد حسین،

انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد کی سابق ریسرچر، فاطمہ رضا،

سعودی عرب کے سینیئر صحافی او تجزیہ کار، خِالد المعینہ، اور

کیٹو انسٹیٹیوٹ، امریکہ سے وابستہ عالمی امور کی تجزیہ کار، سحر خان۔

سعودی ولی عہد خلیجی ریاستوں کے دورے پر ہیں۔ کیا یہ سعودی خارجہ پالیسی میں تبدیلی ہے کہ ولی عہد علاقائی ممالک کے دورے کر رہے ہیں؟

راشد حسین: جی ہاں. متعدد جغرافیائی سیاسی حالات میں تبدیلیوں کے ذریعہ طے شدہ، یہ ان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ امریکہ کے دباؤ پر انھیں قطر کے بارے میں اپنا رویہ بدلنا پڑا۔ پھر انھوں نے ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید (ایم بی زیڈ) کے ساتھ یمن سمیت کئی مسائل پر اختلافات پیدا کر لیے تھے۔ دونوں ممالک کے اسٹریٹجک مفادات میں کافی فرق تھا۔ اس کے باوجود انھیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ خلیجی ممالک کی تنظیم کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کے عملی طور پر حقیقی حکمران کا متحدہ عرب امارات اور خلیج کے دیگر ممالک کا موجودہ دورہ ان کی سٹریٹیجک مجبوریوں کی عکاسی کرتا ہے۔

خلیج کے عرب ممالک کی اسرائیل سے بڑھتی ہوئی دوستی بھی اسی کی عکاس ہے۔ متحدہ عرب امارات یہ کام کھلم کھلا اور بڑی رفتار سے کر رہا ہے، جب کہ ریاض اب بھی اسے خفیہ طور پر جاری رکھنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ واضح وجوہات کی بنا پر۔ سچ پوچھیں تو عرب کی سڑکیں ابھی تک اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ کے بتدریج مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بعد تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی عرب ریاستیں اپنی سلامتی کی تلاش میں ہیں اور یہ سلامتی انھیں اسرائیل فراہم کر سکتا ہے۔

فاطمہ رضا: یہ ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے جو بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں شامل رہنے کے لیے امریکی جھکاؤ میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر خطے میں امریکی دلچسپی میں کمی سعودیوں کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہے کیونکہ اس سے خطے کی موجودہ سلامتی کی فضا خراب ہو سکتی ہے۔ حوثیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی تمام سعودی کوششیں بھی کم و بیش بے اثر رہی ہیں، اسی لیے ولی عہد کا چھ ملکی دورہ دہشت گردی کے خلاف جنگ یا امن قائم کرنے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کی کوشش ہے۔

خالد المعینہ: سعودی حکومت علاقے میں کشیدگی نہیں چاہتی۔ وہ (شہزادہ محمد بن سلمان) بارہا کہہ چکے ہیں کہ عدم مداخلت اور پراکسی جنگ چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یہ عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

سحر خان: ہم سب کو اس بات کا اندازہ ہے کہ یو اے ای اور سعودی عرب کے درمیان ایک دوستی ہے، خاص کر ایران کے اثر کو کاؤنٹر کرنے کی حکمت عملی کے سلسلے میں۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ میں پڑے ہوئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو کاؤنٹر کرنا چاہتے ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ امریکی پالسی ایک دوسرے کی جانب نہ بدلے۔

متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر نے حال ہی میں تہران کا دورہ کیا ہے۔ کیا متحدہ عرب امارات کی پالیسی میں سعودی عرب کے ساتھ اُس کی کوئی ہم آہنگی ہو سکتی ہے؟

راشد حسین: ایران کے بارے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب، دونوں کو احساس ہے کہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی کے ساتھ، وہ اپنی پرانی، مضبوط ایران مخالف پالیسیوں کو جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ریاض اور سعودی عرب دونوں نے محسوس کیا کہ انھیں تہران کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود منصفانہ بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ ایران کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ سخت امریکی پابندیوں کے دنوں میں بھی دونوں کے درمیان کاروباری تعلقات برقرار رہے۔ دبئی نے تقریباً دنیا اور ایران کے درمیان ایک رابطے کا کام انجام دیا – خاص طور پر تجارت اور کاروبار کے میدان میں۔ دونوں کے درمیان ایک دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ سعودی عرب کا معاملہ الگ تھا۔ ریاض نے کئی وجوہات کی بنا پر تہران کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا۔ اس کی قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے خطے میں ‘شیعہ کریسنٹ’ (ایران عراق، شام اور لبنان کے ممکنہ اتحاد کا نام) کے ابھرنے سے خوفزدہ رہی ہے۔ اور یہ سعودی خاندان کے لیے خطرہ تھا۔ اس طرح اس نے امریکہ کی طرف حفاظت کے لیے دیکھا۔ خاص طور پر ایران کے خلاف اور تمام اختلافات کے باوجود اگر پاکستان اب بھی ریاض کی نظر میں ایک پسندیدہ ملک ہے تو اس کی بنیادی وجہ اس کی فوجی صلاحیت ہے۔

فاطمہ رضا: دونوں کے درمیان ایک حد تک ہم آہنگی موجود ہوسکتی ہے کیونکہ بہت سے لوگ ایم بی ایس کے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دورے کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ تاہم دونوں پیش رفتوں کے درمیان بنیادی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس خطے کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے خطے کے اندر سیکیورٹی کے عوامل یکسر تبدیل ہو رہے ہیں۔

خالد المعینہ: بدقسمتی سے ایران کی جانب سے جنگ کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہاں کے سخت گیر حلقے نئے جغرافیائی سیاسی حالات سے غافل ہیں۔ سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ ان کی اولین ترجیح سعودی عرب کی ترقی اور معیار زندگی کو بلند کرنا ہے، وہ سب کچھ کرنا ہے جس سے خطہ تناؤ سے پاک ہو۔ حوثیوں کو بھی اس کا احساس کرنا چاہیے اور ملک پر حملے بند کر دینا چاہیے۔

سحر خان: ابھی جو ایران اور یو اے ای کے درمیان تعلقات میں تبدیلی نظر آ رہی ہے یہ اصل میں امریکہ سے زیادہ متعلقہ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک یو ای اے کو ایک مصالحت کار کے طور پر دیکھیں۔ اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ چاہے یو اے ای کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ یو اے ای کے ایران سے بھی تعلقات بہتر ہوں۔

ایران اور سعودی عرب کے نمائندوں کی مختلف مقامات پر ملاقاتیں ہوتی رہیں، کیا مستقبل قریب میں ایرانی صدر رئیسی اور سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے درمیان براہ راست بات چیت ہو سکتی ہے؟

راشد حسین: ایران اور سعودی نمائندوں کے درمیان جاری ملاقاتیں ایک اہم پیشرفت ہیں۔ یہ وہ بات تھی جس کا تاحال اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس کی کئی وجوہات رہی ہیں۔ اب انھیں شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ خطے سے امریکہ کا سست انخلا ایک اہم عنصر ہے۔ ریاض کو احساس ہے کہ اسے اپنے خطرے کے احساس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تہران کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا امکان بڑھ رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کا زیادہ تر انحصار جاری مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر ہے۔ لیکن فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ دونوں کو اپنی دشمنی ختم کرنے اور ہموار تعلقات بنانے کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ شاہ عبداللہ اور ایران کے مرحوم صدر رفسنجانی کے درمیان تعلقات بنے تھے۔

فاطمہ رضا: ہاں عراقی سہولت کے ساتھ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے چار دور ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یہ اس ہنگامہ خیز خطے کے لیے ایک انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے، لیکن دونوں ممالک کے رہنماؤں کی براہ راست ملاقات کا امکان بہت کم ہے۔

خالد المعینہ: اگر ایران مداخلت سے باز رہنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے تو خلیجی ریاستیں ان کے ساتھ بات چیت کر سکتی ہیں۔

سحر خان: میرے خیال میں اس وقت ہم جو کوآرڈینیشن دیکھ رہے ہیں وہ شاید اس لیے ہے کہ سعودی عرب یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایران میں انتخابات کے بعد جو نئی انتظامیہ آئی ہے اُسے سخت گیر سمجھا جا رہا ہے تو سعودی عرب یہ دیکھنا چاہ رہا ہے کہ آیا نئی انتظامیہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے کس قسم کی لچک یا رویے کا مظاہرہ کرتی ہے۔

سعودی ولی عہد خطے میں ایران کے اتحادیوں، جیسا کہ حزب اللہ، حوثی یا بشارالاسد کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں کوئی لچک نہیں دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس صورت میں ریاض اور تہران کے تعلقات کیسے معمول پر آئیں گے؟

راشد حسین: میرے خیال میں دونوں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے اپنی اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تہران جاری مذاکرات میں حوثیوں اور حزب اللہ کو فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ بات چیت کے باوجود، خطے میں ایران کے اتحادیوں کے خلاف مضبوط اور سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے، بنیادی طور پر دونوں طاقت کی پوزیشن سے مذاکرات کرنے کے لیے ہیں۔

فاطمہ رضا: ہاں دونوں طرف سے کچھ معاملات پر کوئی لچک نہیں ہے اور دونوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کافی وقت لگے گا (اگر ایسا ہوتا)۔

خالد المعینہ: ایران اور خلیج کے درمیان کسی بھی تعلقات کے لیے ایران کو اپنے طریقوں کو درست کرنے کے لیے ایک ایماندارانہ انداز اختیار کرنا چاہیے اور اچھی ہمسائیگی کا انداز اختیار کرنا چاہیے۔

سحر خان: یہ درست ہے کہ سعودی عرب حزب اللہ، حوثی اور بشارالاسد کے بارے میں غیر لچکدار رویہ رکھتا ہے، یعنی خطے میں جو ایران کے اتحادی طاقتیں یا تنظیمیں ہیں ان کے بارے میں۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ چاہے جوہری معاہدے کی بحالی ہو، یا ایران کی نئی انتظامیہ کسی نئے معاہدے کے لیے تیار بھی ہو جائے تب بھی سعودی عرب کا ایران کے ان حامیوں کے ساتھ رویہ نہیں بدلے گا۔ چاہے یو اے ای بھی مصالحت کار کے طور دونوں کے درمیان کتنی بھی کوشش کرلے۔

کیا سعودی ایران تعلقات میں بہتری ایران کے جوہری معاہدے (JCOPA) پر امریکی پالیسی سے براہ راست جڑا ہوا ہے یا یہ دونوں چیزیں الگ الہگ اپنی سمتوں کا خود تعین کر رہی ہیں؟

راشد حسین: جی ہاں، اس کا براہ راست تعلق ہے۔ خطے سے امریکی انخلاء کے ساتھ، سعودیوں کو اب تہران کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

فاطمہ رصا: ٹرمپ کے بعد اور اب بائیڈن کے تحت امریکی خارجہ پالیسی میں مجموعی تبدیلی کے ساتھ اس کا زیادہ تعلق ہے جو اب مشرق وسطیٰ کو توجہ کا بنیادی علاقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اب دونوں علاقائی کھلاڑی (ایران اور سعودی عرب) دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنی سیکیورٹی اور اسٹریٹجک آپریٹس خود سنبھالنا چاہتے ہیں۔ سعودی مملکت اس بات سے چوکس ہو سکتی ہے کہ امریکہ کس طرح JCPOA کو بحال کرنے پر تلا ہوا ہے اور ایک بار پھر سٹریٹجک توازن کو ایران کے حق میں کر سکتا ہے، اس لیے وہ بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ یا کم از کم ایران کو مستحکم ہونے سے روک رہے ہیں کیونکہ انھیں ایک مضبوط ایران سے نمٹنا پڑے گا۔ اس کے بعد یقیناً یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ امریکہ کی طرف حمایت کے لیے باہر کی طرف دیکھنے کے بجائے خطے کے اندر کشیدگی کو درست کیا جائے، لیکن شاید کشیدگی میں کمی پھر بھی نہ ہو۔

خالد المعینہ: میں خطے میں حالات کے بہتر ہونے کے بارے میں پُر امید نہیں ہوں۔

سحر خان: جہاں تک JCPOA کا تعلق ہے تو اس میں تو نظر آتا ہے سعودی عرب ایسا نہیں چاہتا ہے کہ ایران سے معاہدہ اس طرح بحال ہو کہ جس سے ایران کو فائدہ ہو یا امریکہ ایران کو ایک اچھے ملک کی طرح دیکھنے لگے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.