پوتن کا دورۂ انڈیا: نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات عالمی سیاست کے لیے کس قدر اہم ہیں؟
دونوں رہنماؤں میں تقریبا ایک درجن بار ملاقات ہو چکی ہے
روسی صدور کے انڈیا کے دورے ہمیشہ پرانی یادوں کو تازہ دم کرتے رہے ہیں۔ ماسکو اور دہلی کے تعلقات سرد جنگ کے دور سے چلے آرہے ہیں اور اس وقت سے ہی یہ ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔
انڈیا اور روس کی یہ پائیدار دوستی عالمی سفارت کاری کی کامیاب کہانیوں میں سے ایک ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوتن اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے سوموار کو دہلی میں ہونے والی ملاقات اس پر پورا اترنے کا ایک موقع ہے۔
لیکن اس ملاقات میں بڑے دفاعی سودوں، تجارتی اعلانات، دونوں رہنماؤں کے درمیان مصافحے اور انڈین وزیر اعظم مودی کی روایتی جپھیوں کے علاوہ دونوں ممالک کو درپیش سنگین مسائل پر بھی قابو پانا بھی شامل ہو گا۔
اور یہ بہت حد تک حالیہ مہینوں اور برسوں کے دوران دونوں ممالک کے ذریعے کیے گئے مختلف جغرافیائی و سیاسی فیصلوں اور انتخاب کا نتیجہ ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ وہ ان مسائل کو کس طرح حل کریں گے کیونکہ ان کے اثرات علاقائی اور عالمی سیاست پر مرتب ہوں گے۔
انڈیا اور امریکہ کے تعلقات، اور چین کا عنصر
انڈیا اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایک ایسا پس و پیش ہے جو دہلی اور ماسکو تعلقات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوا ہے اور پچھلی دہائی میں اس میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ انڈین وزیر اعظم مودی نے سنہ 2020 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑی ریلی بھی منعقد کی تھی جب وہ انڈیا کے دورے پر آئے تھے۔ یہ انڈیا کی جانب سے واشنگٹن کی حمایت کا ایک جیتا جاگتا مظاہرہ تھا۔
ماسکو نے بہت حد تک اس طرح کی پریشان کن چیزوں کو نظر انداز کیا ہے، حالانکہ حالیہ برسوں کے دوران واشنگٹن کے ساتھ اس کے اپنے تعلقات مسلسل خراب ہوتے رہے ہیں۔
لیکن جب انڈیا نے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چار ملکی اتحاد ’کواڈ‘ میں شمولیت اختیار کی تو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس وقت کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اتحاد کا کہنا ہے کہ ’کواڈ‘ ایک غیر فوجی اتحاد ہے اور اس کا مقصد کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں ہے لیکن روسی وزیر خارجہ لاوروف اس سے متفق نظر نہیں آئے۔
حالیہ برسوں میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی نظر آئی ہے
انھوں نے کہا کہ مغرب ‘انڈو-پیسیفک حکمت عملیوں کو فروغ دے کر انڈیا کو چین مخالف سرگرمیوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
ماسکو میں خدمات انجام دینے والے سابق انڈین سفارت کار انیل تریگونایت کا کہنا ہے کہ کواڈ روس کے لیے ایک سرخ لکیر ہے اور یقینی طور پر یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا حصہ ہو گا۔
کواڈ کے بارے میں ماسکو کی پریشانیوں کو حالیہ برسوں میں بیجنگ کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے ذیل میں سمجھا جا سکتا ہے۔
تریگونایت نے مزید کہا کہ روس کو ایشیا میں اپنے اقتصادی اور جغرافیائی و سیاسی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے پر مجبور کیا گیا ہے کیونکہ امریکہ کی قیادت میں مغرب بھی خطے پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کے ساتھ چین کے بگڑتے تعلقات نے بھی بیجنگ اور ماسکو کو قریب کر دیا ہے۔
اس صورت حال کو جو چیز مزید پیچیدہ بناتی ہے وہ انڈیا اور چین کے حالیہ کشیدہ تعلقات ہیں۔ گذشتہ سال یہ اتنے بڑھ گئے کہ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان لداخ کی گلوان وادی میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر لاٹھیوں اور پتھروں سے خون ریز جھڑپ ہوئی جس میں 20 انڈین فوجی مارے گئے۔
چین نے بعد میں قبول کیا کہ اس کے بھی کچھ فوجی اس تصادم میں ہلاک ہوئے تھے۔
واشنگٹن میں ولسن سینٹر تھنک ٹینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوجیلمین کہتے ہیں کہ نئی جغرافیائی سیاسی حقیقتیں ‘انڈیا اور روس کے تعلقات کے لیے ممکنہ خطرہ‘ ہیں۔
اس تناظر میں روسی صدر پوتن کا دورہ خصوصی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔
مائیکل کوجیلمین نے کہا کہ ’میرے خیال سے اس معاملے میں روس کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ وہ نئی دہلی کے ساتھ ماسکو کے تعلقات کی اہمیت کو مزید تقویت دے اگرچہ جغرافیائی سیاسی اشارے دوسری جانب ہی اشارہ کیوں نہ کر رہے ہوں۔‘
لیکن مائیکل کوجیلمین اور ٹریگونایت سمیت بہت سے تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیادیں ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کافی مضبوط ہیں۔
ان ممالک کے پاس کئی شعبے ہیں جن میں وہ تعاون کر سکتے ہیں اور وہ کرنا بھی چاہیں گے۔ ان میں سے ایک افغانستان ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یہ یقینی طور پر گفتگو کا حصہ ہو گا کیونکہ دہلی افغانستان میں اپنی اہمیت قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انڈیا کا پڑوسی اور روایتی حریف پاکستان اب افغانستان میں بہتر سٹرٹیجک اثر رسوخ رکھتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس نے روس، ایران اور چین کے ساتھ غیر رسمی اتحاد قائم کر لیا ہے۔
ماسکو دہلی کو افغانستان میں اس کی کھوئی ہوئی اہمیت واپس دلانے میں مدد کر سکتا ہے کیونکہ دونوں نے اس ملک کے مستقبل کے بارے میں اپنے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ میں قائم رینڈ کوپریشن نامی تھنک ٹینک کے سینیئر دفاعی تجزیہ نگار ڈیرک گراسمین کہتے ہیں کہ ’روس اور انڈیا دونوں طالبان اور حقانی نیٹ ورک، اور افغانستان سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کے ان کے ممالک پر اثر انداز ہونے کے امکانات کے متعلق پریشان رہے ہیں۔ لہذا، افغانستان واقعتا نئی دہلی اور ماسکو کے درمیان مضبوط معاہدوں کی وجہ ہے۔‘
ایس-400 دنیا کے جدید ترین دفاعی نظاموں میں سے ایک ہے
تجارت اور دفاع
اس دورے کی نمایاں بات روسی ساختہ ایس-400 میزائل دفاعی نظام ہیں جسے انڈیا کو فراہم کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ دنیا کے سب سے جدید ترین سطح سے فضا میں مار کرنے والے دفاعی نظام میں سے ایک ہے۔ اس کی رینج 400 کلومیٹر (248 میل) ہے اور یہ بیک وقت 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ایک ہی وقت میں دو میزائل کا نشانہ لے سکتا ہے۔
اس دفاعی ٹیکنالوجی سے انڈیا کو چین اور پاکستان کے خلاف اہم دفاعی صلاحیت حاصل ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود اس میزائل سسٹم کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے۔
واشنگٹن نے کئی روسی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ روس، ایران اور شمالی کوریا کو اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا نشانہ بنانے کے لیے سنہ 2017 میں کاؤنٹرنگ امریکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز ایکٹ (کاٹسا) متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ کسی بھی ملک کو ان ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر دستخط کرنے سے بھی روکتا ہے۔
اگرچہ یہ معاہدہ امریکہ اور انڈیا کے درمیان تناؤ پیدا کر سکتا ہے لیکن ماسکو، دہلی کے موقف سے مطمئن دکھائی دیتا ہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ انڈیا ایس- 400 معاہدے کے ذیل میں دو سپر پاورز کے ساتھ تعلقات کو کس طرح متوازن رکھتا ہے۔ انڈین سفارت کاروں کا خیال ہے کہ ایس-400 خریدنے کا فیصلہ انڈیا کی ’سٹریٹجک خود مختاری‘ کے رواج کو برقرار رکھتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ تریگونایت نے مزید کہا کہ انڈیا کا بڑا دفاعی بجٹ بھی اسے سٹریٹجک سبقت دیتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’زیادہ تر عالمی تعلقات لین دین پر مبنی ہوتے ہیں اور یہ ماسکو اور دہلی پر بھی صادق آتا ہے۔‘
دفاعی تھنک ٹینک سپری کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، جو عالمی دفاعی تجارت کا تقریباً 10 فیصد حصہ برآمد کرتا ہے۔
اب تک انڈیا کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک روس رہا ہے۔ حالانکہ اب یہ 70 فیصد سے کم ہو کر 49 فیصد رہ گیا ہے۔ اور اس کی وجہ انڈیا کے اپنے پورٹ فولیو کو متنوع بنانے اور ملکی دفاعی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے فیصلے ہیں۔
روس کے بعد امریکہ سنہ 2011 سے 2015 کے درمیان انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا دفاعی سازو سامان کا فراہم کنندہ تھا لیکن سنہ 2016 سے 2021 کے درمیان وہ فرانس اور اسرائیل سے پیچھے رہ گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اس ضمن میں اپنی پوزیشن بہتر کرنا چاہے گا جو کہ انڈیا کے لیے فائدہ مند ہے۔
روس بھی انڈیا کے ساتھ اپنی دفاعی برآمدات بڑھانے کی کوشش کرے گا اور اس ضمن میں سوموار کو کچھ بڑے دفاعی سودوں کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، دونوں ممالک کے درمیان کمرشل تجارت اپنی صلاحیت سے بہت کم رہی ہے۔ انڈین حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 میں دو طرفہ تجارت (کووڈ کی وبا سے قبل ) 11 ارب ڈالر تھی اور یہ روس کے حق میں تھی کیونکہ اس کی تجارتی اشیا اور خدمات کی مد میں برآمدی حجم 7.24 ارب ڈالر تھا۔
اس کے مقابلے میں اس مدت کے دوران انڈیا اور امریکہ کی دو طرفہ تجارت اور خدمات کا حجم 146 ارب ڈالر رہا۔
انڈیا اور روس نے سنہ 2025 کے آخر تک دو طرفہ تجارت کو 30 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ وہ اپنے پورٹ فولیو کو متنوع بنانے اور توانائی اور معدنیات سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ تعلیم، سائبر سکیورٹی، صاف توانائی جیسے کچھ دوسرے شعبے ہیں جن پر ان کی توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔
انڈیا اور روس کی قیادت میں یوریشین اکنامک یونین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں پیشرفت کا بھی امکان ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے، تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان آسان تجارت کرنے میں مدد ملے گی۔
مائیکل کوجیلمین مزید کہتے ہیں کہ ’جب تک دونوں کے درمیان تجارت اور دفاعی سودے بحال رہیں گے، دونوں ممالک اپنے جغرافیائی و سیاسی اختلافات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرتے رہیں گے۔‘
Comments are closed.