بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ترک کرنسی کی قدر میں کمی اردوغان کے لیے پریشان کن کیوں نہیں؟

ترکی کی کرنسی کی قدر میں کمی صدر اردوغان کے لیے پریشان کن کیوں نہیں؟

  • ازگے ادمیر
  • بی بی سی ترک سروس

A woman checks rates on a board of the currency exchange office in Istanbul, Turkey, 02 December 2021

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

گزشتہ ماہ ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں ایک دن میں 18 فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی

ترکی کی قومی کرنسی لیرا کی قدر میں رواں سال ڈالر کے مقابلے میں 45 فیصد تک کی کمی واقع ہو چکی ہے اور اس کے باوجود صدر رجب طیب اردوغان اس سے پریشان نظر نہیں آتے۔

رواں ہفتے لیرا کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی لیکن طویل عرصے سے ترکی کے رہنما اپنی ’آزادی کی معاشی جنگ‘ کی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، جو کم شرح سود کی حمایت میں ہے۔

تو طیب اردوغان ایک ایسے ماڈل کو کیوں آگے بڑھا رہے ہیں جس کے بارے میں ناقدین مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خطرات سے خبردار کرتے ہیں اور ترکوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

یہ بھی پڑھیے

غیر روایتی پالیسی

لیرا کی قدر میں کمی کی سادہ سی وجہ ترکی کی اقتصادی ترقی اور مسابقتی کرنسی کے ساتھ برآمدی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے شرح سود کو کم رکھنے کی غیر روایتی اقتصادی پالیسی ہے۔

اکثر ماہرین اقتصادیات کے لیے، اگر افراط زر بڑھ جاتا ہے تو آپ شرح سود میں اضافہ کر کے اسے کنٹرول کرتے ہیں لیکن اردوغان سود کی شرح کو ’ایک ایسی برائی کے طور پر دیکھتے ہیں جو امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناتی ہے۔‘

پھلوں کی ایک مقامی مارکیٹ میں موجود سویم یلدریم نے بی بی سی کو بتایا: ’سب کچھ بہت مہنگا ہے۔ ان قیمتوں کے ساتھ میرا اپنے خاندان کے لیے بنیادی کھانا فراہم کرنا بھی مشکل ہے۔‘

ترکی میں سالانہ افراط زر کی شرح 21 فیصد سے زیادہ ہے لیکن ترکی کے مرکزی بینک نے شرح سود کو 16 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کر دیا ہے، جو رواں سال میں تیسری کٹوتی ہے۔

دنیا بھر میں افراط زر بڑھ رہا ہے اور مرکزی بینک شرح سود میں اضافے کی بات کر رہے ہیں لیکن ترکی میں ایسا نہیں کیونکہ صدر اردوغان کا خیال ہے کہ آخر کار افراط زر میں کمی آئے گی۔

پچھلے دو برسوں میں مرکزی بینک کے تین صدور کو برطرف کیا گیا ہے اور رواں ہفتے وزیر خزانہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب لیرا کی قدر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔

مہنگائی اور بڑھتی قیمتیں

ترکی کی معیشت کا بہت حد تک انحصار خام مال کی درآمدات پر ہے جن سے کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر کپڑا بنانے کی صنعت تک شامل ہے اور لیرا کی قدر میں کمی کا اثر براہ راست ان اشیاء کی قیمتوں پر پڑا ہے جو صارفین کے لیے مہنگی سے مہنگی تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔

ٹماٹروں کو ہی لے لیجیے جو ہر پکوان کا اہم جز ہے۔ ٹماٹر اگانے کے لیے کسانوں کو درآمد شدہ کھاد اور گیس خریدنا پڑتی ہیں۔

ترکی کے جنوبی حصے میں اناطالیہ کے زرعی اور ساحلی علاقے میں چیمبر آف کامرس کے مطابق ٹماٹر کی قیمتوں میں گذشتہ برس کے مقابلے رواں سال 75 فیصد اضافہ ہوا ہے

ترکی کے بڑے شہر استنبول سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع چھوٹے سے قصبے پاموکوا میں انگوروں کے ایک باغ کی مالک سعدیہ کالچی کا کہنا تھا کہ’میں اس میں کیا کما سکتی ہوں۔‘

کھاد، ڈیزل اور سلفر کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں شکایت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہماری قیمت فروخت کم ہے جب کہ تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو ہم کیا ہی کمائیں گے۔‘

Farmer Feride Tufan in her vineyard

،تصویر کا کیپشن

کاشت کارہ خاتون فریدی طوفان کا کہنا ہے کہ وہ انگوروں کے باغ سے کوئی پیسہ نہیں کما سکتیں

ایک اور کاشتکار فریدی طوفان نے شکایت کی کہ وہ اپنے اثاثے فروخت کر کے ہی گزارا کر سکتی ہیں۔

‘ہم اپنے قرضے اپنی زمین اور باغ فروخت کر کے ہی ادا کر سکتے ہیں لیکن جب ہم اپنا سب کچھ بیچ دیں گے تو ہمارے پاس کیا بچے گا۔’

کرنسی کی قدر اس حد تک غیر مستحکم ہو گئی ہے کہ قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور کاشت کاروں کے لیے افراط زر میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

حکن آیران کا کہنا ہے انھوں نے اپنے اخراجات کم کر دیے ہیں اور وہ اب خریداری کے لیے بازار نہیں جاتیں۔ اپنے بل ادا کرنے کے لیے ہر کسی نے کھانا کم کر دیا اور خریداری بند کر دی ہے۔

سپرمارکیٹوں کے ملازمین سوشل میڈیا پر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں لگاتے ہیں جس میں نئی اور پرانی قیمتوں کی پرچیاں دکھائی جاتی ہیں۔

ان اشیا میں زیتون کے تیل، چائے کی پتی، کافی، کپڑے دھونے کا پاوڈر، صابن، ٹوائلٹ پیپر سے لے کر ہر چیز کی قیمتیں شامل ہیں۔

ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمر میں ایک بیکری والے نے اپنی کھڑکی پر لکھ کر لگایا ہے کہ انھوں نے اپنی قیمتوں میں کیوں اضافہ کیا ہے۔ اس میں انھوں نے بیکری کا مال تیار کرنے میں استعمال ہونے والی ہر چیز کی قیمتیں درج کی ہیں۔ اس پیغام کے آخر میں انھوں نے لکھا ہے کہ خدا ہم پر رحم فرمائے۔

زرمبادلہ کے قرضے بھی نجی شعبے کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہیں اور بہت سی کمپنیوں کے لیے منافع بنانے کا موقع ہے جو لیرا کے عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کر کے پیسہ بنا رہے ہیں۔

اس صورت حال سے غربت میں اضافہ ہو رہا اور معاشی ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔

نوجوان نسل میں غصہ

سستی روٹیاں فروخت کرنے والے سرکاری دفاتر اور پیٹرول پمپوں کے سامنے ضرورت مندوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔

حزب اختلاف کی ایک جماعت نے ضمنی انتخابات اور جلسے جلوس نکالنے کی بات کی ہے۔ گذشتہ ماہ کی 23 تاریخ کو جب ایک دن میں لیرا کی قدر میں 18 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی تو کچھ جگہوں پر چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے تھے اور کئی مظاہرین کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں۔

لیکن نوجوان نسل میں پائے جانے والے غصے کا درست اندازہ سوشل میڈیا، ٹوئٹر، ٹوئچ لائو سٹریم، ٹک ٹوک اور یوٹیوب پر لگائی جانے والی ویڈیوز سے لگایا جا سکتا ہے۔

یوٹیوب چینل پر ایک نوجوان نے رپورٹر کو بتایا کہ ‘میں اس صورت حال پر موجودہ حکومت سے بالکل خوش نہیں ہوں، مجھے اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔’

ترکی میں ہر پانچ نوجوانوں میں سے ایک کو بے روزگاری کا سامنا ہے اور خواتین میں یہ شرح اور زیادہ ہے۔

اقتصادی تعاون اور ترقی کے بین الاقوامی ادارے کے مطابق ترکی نوجوانوں میں بے روزگاری، تعلیم اور ترتیب کے لحاظ سے دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔

ترکی کا نوجوان اپنا موازانہ مغرب ممالک کے معیار زندگی سے کرتا ہے اور جو تصویر ان کے سامنے آتی ہے اس سے ان میں غصہ بڑھتا ہے۔

ایک 18سالہ نوجوان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں ایک نوجوان کے لیے اپنی تنخواہ سے آئی فون خریدنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ مہینوں مسلسل کام کرتے رہیں تب بھی وہ اس کو خریدنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

اردوغان

،تصویر کا ذریعہAFP

واضح رہے کہ ترکی میں سنہ 2002 سے رجب طیب اردوغان کی ‘جسٹس اور ڈیویلپمنٹ پارٹی’ اقتدار میں ہے اور وہاں نوجوان نسل کا سیاست میں اہم کردار ہے۔

ترکی میں سنہ 2023 میں انتخابات متوقع ہیں جس میں نوے لاکھ نوجوانوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو جائے گا اور نوجوانوں میں موجودہ حکومت کے خلاف غصہ ارودغان کی جماعت کے لیے سیاسی مسائل کھڑا کر سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر مقبول ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک عورت رجب طیب اردوغان کی تعریفیں کرتی نظر آتی ہے جبکہ اس کا آٹھ سالہ بچہ اس سے اختلاف کر رہا ہے اور ایک حالیہ قدرتی آفت کے دوران حکومت کی ناقص حکمت عملی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

کوئی پیش گوئی کرنا ناممکن ہے

موجودہ حکمران جماعت کی سیاسی کامیابی کی ایک وجہ سنہ 2008 کے مالی بحران کے بعد ملک میں زرمبادلہ کی فروانی تھی۔

لیکن ترکی کی معاشی ترقی میں بڑا حصہ حکومت کی طرف سے ترقیاتی اور تعیراتی صنعت پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کا انحصار درآمدات پر رہا اور معیشت زرمبادلہ میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے رحم و کرم پر رہی۔

رجب طیب اردوغان کی طرف سے ترکی کی کرنسی لیرا کو بازیاب کرانے کے لیے جو معاشی پالیسی اختیار کی جا رہی ہیں ان پر بہت کم لوگوں کو بھروسہ ہے۔

غیر یقنی کی اس صورت حال میں ماہر معیشت اردا ٹنکا کا کہنا ہے سب باتوں کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ایسا معاشی ماڈل اختیار کیا جا رہا ہے جو تمام مسلمہ معاشی نظریات کی نفی کرتا ہے۔ بحران کے دوران بھی یہ علم ہوتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ لیکن اب ایسا ناممکن ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.