پاکستان میں اس سے پہلے بھی مشتعل گروہوں کے ہاتھوں مذہب کے نام پر تشدد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ایسے ہی چند واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اپریل 2017 میں خیبر پختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کو اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کی صورت میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ اس کی جان چلی گئی، تحقیقات میں توہین مذہب کے الزامات جھوٹے نکلے۔
2014 میں پنجاب میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے جان سے مار ڈالا اور سفاکی سے ان کی لاش کو آگ لگا دی۔
مارچ 2013 میں 7 ہزار افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے 150 گھروں، 18 دکانوں اور دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی۔ واقعہ ایک مسیحی شہری پر توہین مذہب کے الزام کے بعد پیش آیا تحقیقات پر یہ واقعہ ذاتی رنجش کا نتیجہ نکلا۔
2012 میں بہاولپور میں ذہنی مسائل کے شکار ایک شخص کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں پولیس اسٹیشن سے نکال کر سرعام آگ لگا دی۔
نومبر 2020 میں خوشاب میں بینک منیجر کو گارڈ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر گولی ماردی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ گارڈ نے یہ قتل ذاتی رنجش کی بنا پر کیا۔
نومبر 2021 میں مشتعل ہجوم نے چارسدہ پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ تھانے میں ایک شخص موجود تھا جس پر توہین مذہب کا الزام تھا اور مشتعل ہجوم کا مطالبہ تھا کہ پولیس تحویل میں موجود اس شخص کو ان کے حوالے کیا جائے۔
اگست 2020 میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کردیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔
Comments are closed.