دا سکروِن: امریکہ کا سب سے زیادہ آسیب زدہ ہوٹل؟
- رؤس کینتھ اُرکن
- بی بی سی ٹریول
اوکلاہوما سٹی میں قائم چودہ منزلہ دا سکروِن ہِلٹن
اس ایک صدی پرانے ہوٹل کے بارے میں افواہیں ہیں کہ یہاں محبت کی ماری ایک صفائی کرنے والی عورت کا بھوت رہتا ہے۔
شاید بے خیالی میں میں نے امریکہ کے ممکنہ طور پر سب سے زیادہ آسیب زدہ اور بدنام ہوٹل میں اپنے اور اپنے گھر والوں کے رہنے کا بندوبست کردیا۔
اوکلاہوما شہر میں واقع یہ چودہ منزلہ ہوٹل ’دا سکروِن ہِلٹن‘ ہے جو سنہ 1911 میں تعمیر کیا گیا تھا اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ایفی کا بھوت پایا جاتا ہے۔ ایفی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ’پروہیبیِشن ایرا‘ (وہ دور جب امریکہ میں شراب بنانے، فروخت کرنے اور درآمد کرنے کو آئین کے تحت ممنوع قرار دے دیا گیا تھا) کے زمانے میں اس ہوٹل میں کمروں کی صفائی کرنے والی ملازمہ تھی اور جس نے اس ہوٹل کے بانی ڈبلیو بی سکروِن کے ہاتھوں ناجائز طور پر حاملہ ہونے کے بعد چھلانگ لگا کر اپنی جان لی تھی۔
’سکروِن‘ نامی کتاب کے شریک مصنف، سٹیِو لیکمیئر، کا کہنا ہے کہ ’یہ پوری ریاست کی نہ سہی مگر اوکلاہوما سٹی کی سب سے مشہور بھوت کہانی ہے۔ آپ کو کچھ مشہور لوگ بھی یہ دعویٰ کرتے ملیں گے کہ انھوں نے ایفی کو شہوت انگیز حالت میں دیکھا ہے۔‘
سکروِن میں ٹھہرنے والے بعض مہمان اس ہوٹل کے آسیب زدہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں
یہاں ٹھہرنے والے ایک مہمان میٹا سینڈیفورڈ آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ 2016 میں جب وہ سکروِن میں تھے تو ایک عورت کے شہوت بھرے بھوت سے ان کا سامنا ہوا تھا۔ بعض دوسرے مہمان بھی ایسے دعوے کرتے ہیں۔
مگر یہاں رہنے والی ایک مصورہ پیٹرا جرمنی کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ آسیب زدہ نہیں ہے، بس بعض لوگ بزدل ہیں۔‘
باتھ روم کے نم آئینوں پر ’ہیلپ می‘ کی تحریر
سکروِن کے ڈائریکٹر سیلز ڈون جیکسن نے بتایا کہ ’لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ رات کو ان کی لائٹیں ٹمٹمانے لگتی ہیں یا الماری کا دروازہ دھڑام کر کے بند ہو جاتا ہے یا پھر دروازے سے چرچراہٹ کی آواز آتی ہے۔ شہر میں ہوٹل کے آسیب زدہ ہونے کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں، مگر ہم خود کو ان سے دور رکھتے ہیں کیونکہ ایسے کسی واقعے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔‘
میں نے جیکسن کو بتایا کہ میری ایک مہمان سے بات ہوئی ہے جو یہاں پر کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی اور اس کے کسی ساتھی نے شاور کے بعد باتھ روم کے آئینے کی نم سطح پر ’ہیلپ می‘ (میری مدد کریں) کے الفاظ لکھے ہوئے دیکھے ہیں۔ ان کا جواب تھا: ’حال ہی میں ہمیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ ایسے الفاظ آئینے پر ظاہر ہوئے ہیں۔‘
غور سے دیکھیں تو ہوٹل کی بعض خصوصیات ڈراؤنی لگتی ہیں
ایفی کو چھوڑ کر بھی ہوٹل کا ماضی دلچسپ ہے۔ 1913 میں اس کے پہلے منیجر نے خود کو گولی مار لی تھی، یہ ایک خود کشی تھی بعد میں جس کی تفتیش قتل کے طور پر کی گئی۔ پھر ہوٹل کے اندر مسلح گروہوں میں جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔ مگر دوسری جانب اس کے خاص مہمانوں میں امریکی صدور ڈوائٹ آئزن ہاور، ہیری ٹرومین اور رونالڈ ریگن بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انگلش گلوکار و موسیقار پال میک کارٹنی اور امریکی گلوکار و اداکار ایلوِس پریسلی بھی یہاں ٹھہر چکے ہیں۔
جنرل منیجر سکِپ ہارلس کہتے ہیں کہ ’دا سکروِن کی تاریخ اور شان و شوکت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہاں جو ہوا اور یہاں پر ٹھہرنے والوں کے اثر سے یہ شاندار جگہ آسیب زدہ ہی محسوس ہوتی ہے۔‘
یہاں کی لفٹ میں جب میری ملاقات ایک اور منیجر کیسلی ہوبر سے ہوئی تو انھوں نے کہا: ’میں اس وقت تک یقین نہیں کرتی جب تک خود نہ دیکھ لوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
وہ تجہیز و تکفین کا بندوبست کرنے والے ایک گھرانے میں پلی بڑھی ہیں اور 10 سال سے یہاں پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہاں کسی مافوق الفطرت حرکت کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ مگر لفٹ سے نکلتے وقت انھوں نے کہا، ’کبھی نہیں، کبھی نہیں کہنا چاہیے۔‘
اس عمارت کو بہتر طور پر سمجھنے کی غرض سے میں نے سوسن رائلی سے بات کی جو ہوٹل کی تاریخ کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اپنی ساڑھے چھ برس کی ملازمت میں انھوں نے شفٹوں کے دوران کسی بچے کے رونے کی آوازیں سنی ہیں، مگر بعد میں پتا چلا کہ جب دروازہ کھلنے پر اوکلاہوما کی تیز ہوا اندر داخل ہوتی ہے تو بچے کے رونے کی سی آواز پیدا ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دا سکروِن کی راہداریوں میں سرخ لباس پہنے کوئی عورت منڈلاتی نظر آتی ہے
ہم ایک گولی کے نشان کی تلاش میں 10ویں منزل پر پہنچے جو مبینہ طور پر دو گروہوں کے درمیان لڑائی میں چلائی گئی تھی اور لفٹوں کے پاس لگی تھی، مگر ایسا کوئی نشان ڈھونڈنے میں ناکام رہے، اور جب 11ویں منزل پر گئے تو ایک دروازے پر آویزاں ’ڈو ناٹ ڈسٹرب‘ یعنی مُخل مت ہوں کی تختی اچانک سے پھڑپھڑانے لگی، شاید دوازے کے نیچے سے آنے والی تیز ہوا کی وجہ سے۔ رائلی نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ سرخ لباس پہنے ہوئے ایک عورت کا ہیولا بھی کبھی کبھار کوریڈور میں نظر آتا ہے۔
اپنے انگوٹھے اور انگلی کو بجا کر آواز نکالتے ہوئے رائلی نے کہا کہ ’یہاں کے ماحول میں آواز گونجتی ہے۔‘ ایک بڑے ہال میں جا کر انھوں نے بتایا کہ وہ یہاں کئی ضیافتوں کا اہتمام کر چکی ہیں۔ ’آسیب یہاں پر سب سے زیادہ سرگرم لگتا ہے کیونکہ ضیافت کے بعد اگلی صبح یہاں پر سامان بری طرح سے بکھرا ہوا پایا گیا ہے۔‘ ان کے خیال میں ایسا حالیہ دور میں آنے والے زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر برائن فرہا اوکلاہوما سٹی یونیورسٹی میں مابعد طبیعیات کے پروفیسر ہیں اور اس موضوع پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ 2004 میں وہ بھوتوں کی تلاش میں دا سکروِن میں جا چکے ہیں۔
بھوت کی ہنسی
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہاں کا چپّہ چپّہ چھان مارا مگر مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملی۔ اور یہ میں نے انتہائی پر اسرار ماحول میں کیا، جب ہوٹل کی تزئین و آرائش نہیں ہوئی تھی، بجلی بند ہو جانے کی وجہ سے انتہائی سردی تھی اور دیکھنے کے لیے فلیش لائٹس کا سہارا لینا پڑا تھا۔ پھر بھی سوائے ایک پرانے، خالی اور ٹھنڈے ہوٹل کے کچھ نہیں ملا۔‘
جب میری بیوی نے شکایت کی کہ اسے بعض راتوں کو بھوت کے ہنسنے کی آواز آتی ہے تو میں نے ٹانیا میککوئے کو بلایا جو بھوت پکڑتی (عامل) ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہمارے کمرے میں آئیں۔
میککوئے نے کہا: ’تم نیچے سیڑھیوں کی لکڑی پر اپنا ہاتھ رکھو اور اس میں موجود جان کو محسوس کرو۔ یہ پاگل کرنے والی ہے۔‘
میککوئے نے اپنے فون پر کسی ایپ کی مدد سے بچوں کی گاڑی پر سے ایک سبز چھڑی کی تصویر لی جو آنکھ سے نظر نہیں آ رہی تھی۔ میری بیٹی برابر والے کمرے میں سو رہی تھی۔
مصنف نے دا سکروِن میں اپنے قیام کے دوران بھوت پکڑنے والی عامل کی خدمات حاصل کیں
میککوئے نے اپنی مختلف ایپس کو احتیاط سے کھولا اور بند کیا کیونکہ ان کے سیدھے ہاتھ کی چھوٹی انگلی اس وقت مڑ گئی تھی جب بقول ان کے ’ایک بھوت نے انھیں دھکا دے دیا تھا۔‘
انھوں نے کچھ برقیاتی آلات بھی استعمال کیے جو مقناطیسی لہروں اور حرارت معلوم کرنے کے لیے کام میں لائے جاتے ہیں۔
انھوں نے راہداری میں اپنے فون کے ذریعے روحوں کو ڈھونڈنے کی بھی کوشش کی۔ اس دوران ان کے شوہر ایک ’گوسٹ ہنٹِنگ ٹولز‘ (بھوت پکڑ آلہ) نامی ایپ ہاتھ میں لیے ہوئے ان کے پیچھے چل رہے تھے، اور ان کے بقول اگر کوئی بھوت راستے میں ہو تو وہ ٹیکسٹ میسج کے ذریعے رابطہ کرتا ہے۔
ایک بھوت کا سراغ
گوسٹ ہنٹنگ ٹولز ایپ پر پیغام آیا، ’باہر نکل جاؤ‘۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی ایک لہر آ کر گزر گئی۔
ہم بھوت کی تلاش میں راہداری میں آگے بڑھے تو گرمی کی ایک لہر سی آئی۔ کیا یہ گرم ہوا کا کوئی جھونکا تھا؟
جب ہم لفٹ کی طرف جا رہے تھے تو میککوئے نے کہا: ’یہ بھوت ہے، بڑا والا۔‘ اور یہ کہ ان کے سر سے نیچے تک ان پر کپکپی طاری ہوئی اور اپنے بازو پر کھڑے رونگٹے مجھے دکھائے۔
گوسٹ ہنٹنگ ٹول سکرین پر ’سیٹ‘ لکھا ہوا نظر آیا۔ میککوئے نے مجھ سے کہا کہ وہ ایک 20 سے 30 سال کی عمر کا نوجوان تھا جس کا نام چارلس تھا اور جو لفٹ کے برابر رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک ٹھیکہ دار تھا اور یہ کہ اسے دیکھ کر انھیں اپنی سر کی پچھلی جانب درد محسوس ہوا، جو بقول ان کے اس وجہ سے تھا کہ بھوت اپنے مرنے کے حالات زندوں پر آشکار کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
راہداری میں واپس آتے ہوئے دوسرا ٹھنڈا مقام آیا۔ میں نے جھرجھری سی لی، اور میککوئے کے بازو پر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ 813 سے آ رہی ہے۔‘
اپنی نوٹ بک پر پین رکھتے ہوئے میں کافی بے چین ہو چکا تھا اور فیصلہ کر لیا تھا کہ کہ دوں کہ ’بہت ہو چکی‘، کہ ایپ پر ’پین‘ کا لفظ ابھرا۔
میککوئے نے ’تمھاری ڈھال ایک بوتل میں‘ کہتے ہوئے عطر جتنی ایک شیشی اور کچھ جڑی بوٹیاں مجھے پکڑا دیں۔
وہ رات میں نے اپنی بیوی اور بیٹی کی نگرانی کرتے گزاری۔ کمرے میں لگی گھڑی سے نکلنے والی روشنی عجیب و غریب منظر بنا رہی تھی اور میں چارلس اور ایفی کی موجودگی کا سراغ پانے کے لیے پوری طرح سے چوکنّا تھا۔
Comments are closed.