حالیہ دنوں میں ہوا کا کم ہونا ایک بڑا ماحولیاتی اور صحت کا مسئلہ بن گیا ہے، صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔
فضائی آلودگی کی وجہ سے عوام کو سانس لینے میں دشواری کے مسئلے سے لیکر صحت کی متعدد پیچیدگیوں سے لڑنا پڑ رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ جو ایک بار کورونا وائرس سے متاثر ہو گیا اس کے لیے فضائی آلودگی بےحد خطرناک ہے۔
خراب فضا کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کیلئے مضر:
آپ میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کورونا وائرس کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ بیماری کس طرح پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے، سانس کی صلاحیتوں کو تباہ کرتی ہے اور مجموعی صحت کو انتہائی سخت طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ شدید کورونا وائرس جسم پر دیرپا اثر چھوڑتا ہے، جسے پوسٹ کورونا وائرس سنڈروم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سانس کے مسائل، تھکاوٹ، بالوں کے گرنےجیسے مسائل پیدا کر سکتا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے پھیپھڑوں کو ٹھیک ہونے میں مہینوں لگ سکتے ہیں ۔
ہوا کا معیار بگڑنا سانس کی صحت کو خراب کر سکتا ہے:
خارش والی آنکھوں، جِلد اور گلے کی جلن کے علاوہ، ہوا کا خراب معیار آپ کے پھیپھڑوں کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنا مشکل بنا سکتا ہے اور یہ آپ کی مجموعی صحت میں خلل ڈال سکتا ہے۔
فضائی آلودگی سے متاثر ہونے کے بعد اسپتال میں داخل ہونے اور بعض صورتوں میں موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو شدید کورونا وائرس انفیکشن سے صحت یاب ہوچکے ہیں ان کے لیے خود کو فضائی آلودگی سے بچانا بہت ضروری ہے۔
دمے کے مرض میں مبتلا افراد کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے:
ماہرین صحت کے مطابق دمے میں مبتلا افراد کو فضائی آلودگی کے منفی اثرات سے لڑنے کے لیے اچھی طرح سے تیار رہنا چاہیے، اس مرض میں مبتلا ہونے والے بالغوں اور بچوں دونوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور خراب ہوا کے معیار سے لاحق خطرات سے لڑنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔
پھیپھڑوں پر فضائی آلودگی کے اثرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
ماسک لازمی پہنیں، باہر جانے سے گریز کریں، سردی یا فلو کی علامات سے لڑنے کے لیے گھر پر ورزشیں کریں اور گھریلو علاج کریں۔
Comments are closed.