اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیانِ حلفی پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو اصل بیانِ حلفی کے ساتھ تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت رانا شمیم کو 5 روز دے رہی ہے، اپنا جواب جمع کرائیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد اطہرمن اللّٰہ نے دریافت کیا کہ پاکستان بار کونسل اور پی ایف یو جے سے کوئی آیا ہے؟ اس عدالت نے کچھ اسٹینڈرڈز سیٹ کیئے ہیں، ہماری اپنی آزادی فریڈم آف پریس پر منحصر ہے، اس کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیس میں توہینِ عدالت کے اصول طے کیئے، تمام ججز کے بارے میں بات کی گئی، فریڈم آف پریس کے ساتھ کچھ ذمے داریاں بھی ہیں۔
عدالت نے سابق چیف جج گلت بلتستان رانا شمیم کو روسٹرم پر بلوا لیا، چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے تحریری جواب داخل کیا ہے؟
سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے جواب دیا کہ میرے وکیل بتائیں گے کہ جواب کیوں داخل نہیں ہو سکا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ 5 اور 12 دسمبر کو بھائی اور بھابھی کے چہلم ہیں، اس کے بعد سماعت رکھ لیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللّٰہ نے ان سے کہا کہ آپ نے 3 سال بعد ایک بیانِ حلفی دیا ہے، نیوز پیپر نے آپ کا بیانِ حلفی پبلک تک پہنچایا ہے۔
رانا شمیم نے کہا کہ بیانِ حلفی شائع ہونے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں نے کنفرم کیا، بیانِ حلفی سر بمہر تھا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس طرح لیک ہوا؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے وہ بیانِ حلفی انہیں نہیں دیا؟
سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے بیانِ حلفی اشاعت کے لیے نہیں دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ آپ نے لندن میں بیانِ حلفی کسی مقصد کے لیے دیا؟
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ بتائیں کہ 3 سال بعد یہ بیانِ حلفی کس مقصد کے لیے دیا گیا؟ آپ نے عوام کا عدالت سے اعتماد اٹھانے کی کوشش کی، آپ نے جو کچھ کہنا ہے اپنے تحریری جواب میں لکھیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس میں میڈیا کا کردار ثانوی ہے، میڈیا کے خلاف کارروائی مؤخرکی جائے، رانا شمیم سے جواب مانگا جائے، رانا شمیم کے مطابق لندن میں بیانِ حلفی ریکارڈ کرایا گیا، رانا شمیم کو اوریجنل بیانِ حلفی پیش کرنے کی ہدایت کی جائے۔
سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جو بیانِ حلفی رپورٹ ہوا وہ کون سا ہے؟ میں پہلے رپورٹ کیا جانے والا بیانِ حلفی دیکھ لوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس شخص نے بیانِ حلفی دیا اسے یاد نہیں کہ بیانِ حلفی میں کیا لکھا ہے، اگر انہیں نہیں معلوم تو پھر یہ بیانِ حلفی کس نے تیار کروایا؟
عدالتِ عالیہ نے دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انویسٹی گیشن کے جوابات عدالتی معاونین کو دینے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.