انگلش چینل میں تارکینِ وطن کی کشتی کو حادثہ: ایک والد کی اپنی بیٹیوں اور اہلیہ کی تلاش
عراقی کرد رزگر حسین اپنی چھوٹی بیٹی ہستی، اہلیہ کاجل اور بڑی بیٹی ہادیہ کے ساتھ
رزگر حسین نے عراق سے منگل کو رات گئے آخری مرتبہ اپنی بیٹی ہادیہ سے بات کی تھی۔ ہادیہ نے انھیں شمالی فرانس سے یہ بتانے کے لیے کال کی تھی کہ وہ اپنی والدہ، بہن اور بھائی کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہونے والی ہے۔ ہادیہ اس بات پر بہت خوش تھی کہ وہ بلاخر برطانیہ پہنچنے والی ہے۔
لیکن اس کے بعد سے رزگر حسین کو اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہادیہ سے بات کرنے کے اگلے روز رزگر نے ٹی وی پر دیکھا برطانیہ پہنچنے کی کوشش میں 27 افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔
رزگر حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘میں اب انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی مجھے کچھ بتائے۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔’
وہ ایسے بہت سے عراقی کردوں میں سے ایک ہیں جو گزشتہ بدہ کو فرانس اور برطانیہ کے درمیان سمندری راستے انگلش چینل میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوب جانے کے سانحے کے بعد سے اپنے خاندان کے افراد کی خیریت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
اس حادثے میں اب تک صرف ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق ہو سکی ہے جو 24 سالہ کرد خاتون مریم نوری محمد امین ہیں۔
ہادیہ اپنی چھوٹی بہن ہستی کے ساتھ۔ ہادیہ نے کشتی میں بیٹھنے سے چند لمحے پہلے اپنے والد سے فون پر بات کی تھی
رزگر حسین کی اہلیہ 45 سالہ کاجل حسین، ان کی بیٹی 22 سالہ ہادیہ، 16 سال کا بیٹا مبین اور سات سال کی بیٹی ہستی شمالی عراق کے ایک کرد علاقے سے گئے تھے۔ رزگر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا خاندان یورپ جائے اور یہ کہ وہ بھی ان کے ساتھ جا کر اپنی پولیس کی نوکری کھو دیں۔
لیکن ان کے اہل خانہ ایک بہتر زندگی کے لیے ہر صورت میں برطانیہ جانا چاہتے تھے۔ زرگر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ لوگ برطانیہ پہنچ گئے تو وہ بھی ان سے آن ملیں گے۔
‘وہ جانا چاہتے تھے، سب ایک اچھی اور پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہاں ایک سات سال کے بچے سے لے کر 80 سال کے شخص تک کوئی خوش نہیں ہے۔’
انھوں نے کہا کہ اگر حالات بہتر ہوتے تو کوئی ہجرت نہیں کرتا، اس طرح سے کون جانا چاہتا ہے؟ کوئی نہیں۔’
رزگر حسین کے اہلِ خانہ نے چار مہینے قبل اپنا سفر شروع کیا تھا۔ یہ لوگ سب سے پہلے ترکی پہنچے جہاں سے انھیں زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے سمگل کر کے اٹلی پہنچا دیا گیا۔ اٹلی میں وہ تین ہفتوں تک ایک کیمپ میں رہے۔
اس کے بعد وہ شمالی فرانس پہنچے اور وہاں بھی ایک کیمپ میں رہنے لگے۔ رزگر اپنے خاندان کے افراد سے ہر روز کئی مرتبہ گفتگو کرتے تھے۔
جلد ہی ان افراد کا سمگلروں سے رابطہ ہو گیا۔ سمگلروں نے انھیں برطانیہ پہنچانے کا وعدہ کیا لیکن تین مرتبہ ایسی کوششیں ناکام ہوئیں۔
پہلی مرتبہ جب یہ لوگ برطانیہ کی جانب روانہ ہونے ہی والے تھے کہ فرانسیسی پولیس نے انھیں پکڑ لیا۔ دوسری مرتبہ ان کی کشتی میں ایندھن ختم ہو گیا تو ساحل پر واپس آنا پڑا۔ تیسری کوشش میں کشتی کی موٹر خراب ہو گئی اور ان افراد کو پولیس نے ایک مرتبہ پھر ساحل پر واپس پہنچا دیا۔
یہ بھی پڑھیے:
اس کے بعد زرگر کی بیٹی ہادیہ نے گزشتہ منگل کو انھیں کال کی۔ ‘اس نے کہا ابو ہم پانچ منٹ میں روانہ ہونے والے ہیں، اس وقت سب لوگ کشتی میں بیٹھ رہے ہیں۔ میں نے کہ اچھا بیٹی محتاط رہنا۔’
یہ آخری بات تھی جو دونوں کے درمیان ہوئی۔ ‘میں سینکڑوں مرتبہ کال کر چکا ہوں لیکن کوئی جواب نہیں آتا۔’
اگلے دن رزگر نے ٹی وی پر 27 لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبر دیکھی جو سمندر پار کر کے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں ابھی تک اس بارے میں سرکاری سطح پر کوئی اطلاع نہیں ملی ہے اور وہ اس سلسلے میں صحافیوں سے رابطے کر رہے ہیں کہ شاید ان کے پاس کوئی خبر ہو۔
‘میں کچھ نہیں کر سکتا، میں کھا پی سکتا ہوں نہ سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاوں گا۔ کوئی میری تکلیف کو کم نہیں کر سکتا۔’
وہ ابھی بھی کسی اچھی خبر کی امید میں ہیں۔ ‘میں اس وقت تک کسی بات پر یقین نہیں کروں گا جب تک میں ان کی آوازیں نہیں سن لیتا یا ان کی تازہ تصاویر نہیں دیکھ لیتا۔ میں اس وقت کسی بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا۔’
رزگر حسین آج بھی کسی اچھی خبر کی امید میں ہیں کہ ان کی اہلیہ بیٹیاں اور بیٹا زندہ ہوں
رزگر کی ساس قدریا امین کا کہنا ہے کہ وہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی کاجل اور ان کے نواسے نواسیاں اس خطرناک سفر پر جائیں۔
‘میں ان سے کہہ رہی تھی کہ مت جاو۔ میں نے ان سے کہا اس پانی میں مت جاو تم لوگ ڈوب سکتے ہو۔’
لیکن کاجل ہر صورت میں اپنے بچوں کو ایک بہتر زندگی دینا چاہتی تھیں جو عراق میں ممکن نہیں تھی، جہاں خوراک اور پانی کی کمی ہے۔ کاجل کا بھائی بھی عراق سے نکل کر اب یونان پہنچ چکا ہے۔
قدریا امین نے کہا ‘میں ایک ماں ہوں اور میرا دل اپنے بچوں کے لیے جلتا ہے جن کے کچھ خواب ہیں۔ وہ وہاں جانا چاہتے ہیں، اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں۔’
ہادیہ کا خواب تھا کہ وہ برطانیہ پہنچ کر ڈاکٹر بنے گی۔ ہادیہ کی نانی قدریا امین کا کہنا ہے کہ انگلش چینل میں ہونے والے حادثے میں ہلاکتوں کی خبر نے ان کے دل کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب وہ اپنی بیٹی اور نواسے نواسیوں کے لیے صرف دعا ہی کر سکتی ہیں۔
‘انھوں نے صرف ایک بہتر زندگی کی امید کی تھی۔ سب اپنے بچوں کے لیے بہتر زندگی چاہتے ہیں۔’
Comments are closed.