’ایول کورپس‘: دنیا کے انتہائی مطلوب ہیکرز کی تلاش جو جرائم کے باوجود دنیا بھر کے لیے معمہ ہیں
- جو ٹائڈی
- سائبر رپورٹر
ایف بی آئی کو انتہائی مطلوب سائبر مجرم کی تلاش میں ایک خستہ حال عمارت کے سامنے پہنچ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ کہیں میں نے اپنا وقت ضائع تو نہیں کیا۔
روس کے دارالحکومت ماسکو سے سات سو کلومیٹر دور اس چھوٹے سے شہر میں ایک ایسے ارب پتی شخص کا سراغ لگانا اب ناممکن سا لگ رہا تھا جو دنیا بھر میں اپنے جرائم کے باوجود ایک معمہ بن چکا تھا۔
امریکی ادارے فیڈرل بیورو آف انوسٹیگیشن کو سائبر کرائم میں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں زیادہ تر نام روسی شہریوں کے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے لوگ ہیں جو حکومت کے لیے تنخواہ کے عوض کام کرتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو صرف پیسہ کمانے کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے آن لائن چوریاں کرتے ہیں اور ویب سائٹس پر سائبر حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
اگر یہ افراد روس چھوڑیں تو انھیں گرفتار کر لیا جائے لیکن ان کے اپنے گھر میں شاید انھیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔
ایک مترجم اور کیمرہ مین کو ساتھ لیے میں ایسے ہی مجرموں میں سے ایک کی تلاش میں اس دور دراز مقام تک پہنچ چکا تھا۔ ایک خستہ حال عمارت کے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک نوجوان لڑکا باہر نکلا۔ اس لڑکے کے پیچھے اور فلیٹ کے کچن میں موجود ادھیڑ عمر خاتون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں نے وہ سوال داغا جو مجھے یہاں تک لے آیا تھا۔
جواب ملا ’ایگور ٹراشیو؟ نہیں۔ مجھے یہ نام غیر مانوس لگتا ہے۔‘
میں نے ایک اور سوال داغا۔ اس پتے پر تو اسی کا خاندان رجسٹرڈ ہے۔ پھر تم کون ہو؟
جیسے ہی میں نے اسے بتایا کہ ہم بی بی سی کے رپورٹر ہیں تو یکدم جیسے ماحول ہی بدل گیا۔
لڑکے نے مجھے غصے سے کہا کہ ’میں تمہیں نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں ہے اور تم اسے ڈھونڈنے کی کوشش بھی نا کرو۔ تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔‘
اس رات مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔ میں ان متضاد اطلاعات کے بارے میں سوچتا رہا جو سائبر سکیورٹی سیکٹر کے لوگوں سے مجھے ملی تھیں۔
ایول کارپس کے سسٹم ایڈمنسٹیٹر
کچھ نے مجھے تنبیہ کی تھی کہ سائبر جرائم میں مطلوب افراد کو ان کے آبائی ملک میں تلاش کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ’ان کے ساتھ مسلح گارڈ ہوتے ہیں۔ تم کسی کھائی سے ملو گے (یعنی مارے جاؤ گے)۔‘ دوسروں نے کہا تھا کہ ایسے لوگ صرف کمپیوٹر کے ماہر ہوتے ہیں خطرناک بالکل نہیں۔ لیکن ان سب کا ہی خیال تھا کہ میں اس شخص کے قریب بھی نہیں پہنچ سکوں گا۔
اس تلاش کا آغاز دو سال قبل اس وقت ہوا جب ایف بی آئی نے ایک روسی ہیکنگ گروپ، ایول کورپس، کے نو اراکین کے نام ظاہر کیے اور الزام لگایا کہ اس گروپ کے سربراہ میکسم یاکوبیٹس اور ایگور ٹراشیو نے مبینہ طور پر چالیس سے زیادہ ممالک میں سائبر چوریوں اور ویب سائٹس کی ہیکنگ کے بعد تاوان کی مد ایک سو ملین امریکی ڈالر یعنی تقریبا سترہ ارب پاکستانی روپے بٹور چکے ہیں۔
ان کا شکار بننے والوں میں چھوٹے بزنس سے لے کر ’گارمن‘ جیسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی سمیت کئی خیراتی ادارے اور ایک سکول بھی شامل ہیں اور یہ صرف وہ نام ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ افراد سائبر بینک ڈاکو ہیں جو تاوان کی رقم کے لیے ویب سائٹس پر حملے کرتے ہیں اور کسی کے بھی اکاوئنٹ کو ہیک کر کہ پیسہ چوری کر لیتے ہیں۔ ان اطلاعات نے اس وقت 32 سال کے میکسم یاکوبیٹس کو روسی ہیکنگ کی دنیا کا ایک پوسٹر بوائے بنا دیا۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی حاصل کردہ ویڈیوز کے مطابق ان دونوں روسی ہیکرز کو کہیں لیمبرگینی جیسی مہنگی گاڑی چلاتے دیکھا جا سکتا ہے تو کہیں یہ نوٹوں کی گڈیاں پکڑے ہنستے نظر آتے ہیں اور ایک جگہ پالتو شیر کے بچے سے کھیل رہے ہیں۔
ایف بی آئی کی جانب سے ان روسی ہیکرز پر فرد جرم برسوں کی محنت کا نتیجہ تھی جس کے دوران ان کے گینگ کے سابق اراکین کے انٹرویو کیے گئے اور سائبر فرانزک کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس تفتیش کے دوران جو حقائق سامنے آئے ان میں سے کچھ معلومات بہت پرانی تھیں جیسا کہ سنہ 2010 کی یعنی وہ دور جب روس کی پولیس بھی ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کرتی تھی۔
روس اور امریکہ کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد اب یہ تعاون خواب بن چکا ہے۔ روس کی حکومت اب امریکہ کی جانب سے اپنے شہریوں کے خلاف ہیکنگ کے الزامات کو ہنس کر جھٹلا دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ہیکرز کو ناصرف کھلی چھوٹ دی گئی ہے بلکہ ان میں سے کئی روس کے دفاعی اداروں کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
ہم نے میکسم یاکوبیٹس کی تلاش کا آغاز ماسکو سے دو گھنٹے کی مسافت پر موجود ایک گالف کورس سے کیا جہاں سنہ 2017 میں میکسم کی شاندار شادی کی تقریب کی ویڈیوز کو دنیا بھر میں لوگوں نے دیکھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان ویڈیوز میں بھی میکسم کا چہرہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
سنہ 2017 میں میکسم کی شاندار شادی کی تقریب کی ویڈیوز کو دنیا بھر میں لوگوں نے دیکھا
ایک ویڈیو پروڈکشن کمپنی کی جانب سے بنائی جانی والی ان ویڈیوز میں یہ ضرور دیکھا جا سکتا ہے کہ میکسم ایک مشہور روسی گلوکار کے گانے کے دوران خوبصورت لائٹ شو میں ناچ رہے ہیں۔
اس شادی کی پلاننگ کرنے والی نتالیہ نے تفصیلات میں جائے بغیر ہمیں اس جگہ کے چند مقامات دکھائے جن میں ایک جھیل کے قریب موجود پہاڑوں میں خصوصی طور پر بنی ستونوں والی ایک عمارت بھی شامل تھی۔
گالف کورس میں گھومتے ہوئے میرے ذہن نے کچھ حساب کتاب کیا۔ جو کچھ میں دیکھ اور سُن رہا تھا اس کے مطابق اس شادی پر ڈھائی لاکھ ڈالر سے تو زیادہ ہی خرچہ ہوا ہو گا۔ یہ وہ رقم تھی جس کا تخمینہ پہلے لوگوں نے ویڈیوز دیکھ کر لگایا تھا۔ میرے انداذے کے مطابق اس شادی پر کم از کم بھی پچاس سے ساٹھ لاکھ امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہوں گے۔
ہم پر یہ راز افشاں نہیں ہوا کہ اس خاص دن پر ہونے والے خرچ کا بل کس شکل میں دیا گیا لیکن یہ انداذہ لگانا مشکل نہیں کہ میکسم کتنی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا ہے۔ چالیس سال کے ایگور بھی اس معاملے میں میکسم سے زیادہ پیچھے نہیں۔
میرے ساتھی اور بی بی سی روس میں سائبر سکیورٹی رپورٹس آندرے زاخروو نے عوامی دستاویزات استعمال کرتے ہوئے ایسی تین کمپنیوں کا سراغ لگا لیا جو ایگور کے نام پر درج ہیں۔ ان تینوں کمپنیوں کے دفاتر ماسکو کے معتبر سمجھے جانے والے فیڈریشن ٹاور میں موجود ہیں۔ چمکتی دمکتی ان بلند و بالا عمارتوں کو دیکھ کر مجھے ایسا گمان ہوا جیسے میں نیویارک کے مین ہیٹن یا لندن کے کنیری وارف میں موجود ہوں۔
جب ہم نے اندر جا کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو استقبالی عملے کے ایک حیران و پریشان رکن نے پہلے تو ان دفاتر کا فون نمبر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان دفاتر کا فون نمبر نہیں لیکن ایک فرم کے نام سے موجود موبائل فون نمبر مل گیا جس پر کال ملا دی گئی۔
کال ملانے کے بعد ہم انتظار کرنے لگے۔ تقریبا پانچ منٹ تک فرینک سناترا کا گانا بجتا رہا جس کے بعد اچانک کسی نے فون اٹھایا۔ جب ہم نے بتایا کہ ہم صحافی ہیں تو اس نے لائن کاٹ دی۔
آنڈرے نے بتایا کہ چونکہ ایگور روس میں کسی کو مطلوب ہی نہیں اس لیے اسے اتنے مہنگے علاقے میں دفتر کرائے پر حاصل کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہو گا۔ اس کے لیے یہ جگہ اس لیے بھی بہترین ہے کیونکہ معاشی مرکز سمجھے جانے والے علاقے میں ایسی کئی کمپنیوں کے دفاتر ہیں جو کرپٹوکرنسی کا کام کرتی ہیں۔ بٹ کائن نامی کمپنی کا شمار بھی ان کے شکاروں میں ہوتا ہے جن سے مبینہ طور پر ایک سائبر حملے کے بعد ویب سائٹ کی واپسی کے لیے دس ملین امریکی ڈالر تاوان لیا گیا۔
ہم نے ایگور کے نام سے جڑے دو اور پتوں پر قسمت آزمائی۔ اسی گروپ کے ایک اور مبینہ ممبر ڈینس کے پتے سمیت فون اور ای میل کے ذریعے رابطے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
آندرے کی مدد سے ہم نے کوشش کی کہ کوئی ایسا پتہ مل سکے جہاں میکسم نے کبھی کام کیا ہو۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں وہ اپنی والدہ کی ایک کمپنی کا ڈائریکٹر ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کا کوئی رجسٹرڈ کاروبار یا پتہ نہیں۔
لیکن اسی تلاش کے دوران ہمیں کچھ ایسے پتے ملے جہاں اس کی رہائش کا امکان تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب انھی مقامات پر تلاش کو جاری رکھا جائے۔
قسمت نے ہمارا ساتھ دیا اور ان میں سے ایک پتے پر ہمیں اس کے والد مل گئے۔
جب ہم نے اس جگہ کا انٹرکام دبایا تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں کون رہتا ہے لیکن انٹرکام پر میکسم کا نام لینے پر ایک ادھیڑ عمر مرد کا جواب آیا کہ ’میکسم اب یہاں نہیں رہتا۔ شاید اسے یہاں سے گئے پندرہ سال ہو چکے ہیں۔ میں اس کا والد ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں ہوا جب تھوڑی ہی دیر بعد ناصرف وہ شخص باہر آیا بلکہ اس نے ہمیں 20 منٹ تک ایک جذباتی انٹرویو دیا جس میں اس نے زیادہ تر امریکی حکام کو اس بات پر برا بھلا کہا کہ اس کے بیٹے پر فرد جرم کیوں عائد کی گئی۔
امریکی حکام کی جانب سے میکسم کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر پانچ ملین امریکی ڈالر کے انعام نے انھیں اور ان کے خاندان کو کسی بھی وقت ایک حملے کے خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ یاد رہے کہ انعام کی یہ رقم بھی کسی سائبر مجرم کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ رقم ہے۔
میکسم کے والد نے اصرار کیا کہ ہم ان کا بیان ضرور نشر کریں۔
’امریکیوں نے میرے لیے، میرے خاندان کے لیے اور ہمیں جاننے والوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس سب کا مقصد کیا تھا؟ امریکی نظام انصاف بھی سوویت یونین کے نظام انصاف میں تبدیل ہو چکا ہے۔ میکسم سے کوئی سوال نہیں کیا گیا، اس سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی، ایسا کوئی بھی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا جس سے اس کا جرم ثابت ہو۔‘
میکسم کے والد نے اس الزام کو سراسر جھٹلا دیا کہ ان کا بیٹا کوئی سائبر کریمینل ہے۔ جب میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کے خیال میں ان کا بیٹا اتنا امیر کیسے ہو گیا تو وہ آگے سے ہنس دیے۔ انھوں نے کہا کہ میں شادی پر ہونے والے خرچے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہوں اور جہاں تک رہا سوال لگژری گاڑیوں کا تو ان کے مطابق وہ کرائے پر لی گئیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میکسم کی تنخواہ کسی عام آدمی سے زیادہ ضرور ہے کیوںکہ وہ کام کرتا ہے جس کا اسے معاوضہ ملتا ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق ایول کورپس نامی گروہ نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس پر حملوں اور تاوان کے لیے مختلف ناموں سے نت نئے برانڈز کا استعمال کیا
میں نے سوال کیا کہ میکسم کیا کام کرتا ہے؟ جس کے جواب میں اس کے والد نے کہا کہ میں تمہیں کیوں بتاؤں۔ ہماری نجی زندگیوں کا کیا ہو گا؟
ان کا کہنا تھا کہ جب سے ان کے بیٹے پر امریکی حکام نے فرد جرم لگائی ہے اس سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا تو پھر ہمارا رابطہ کیسے کرا سکتے ہیں۔
ایک جانب یاکوبیٹس اور میکسم جیسے روسی ہیکرز کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے تو دوسری طرف مغربی دنیا سائبر حملوں کا توڑ نکالنے کی مہم میں مشکلات کا شکار ہے۔
دنیا بھر میں پابندیوں اور فرد جرم کا سامنا کرنے والوں میں روسی شہری اور گروپس سر فہرست ہیں۔
ان پر پابندیوں سے ان کے مالی اثاثے منجمند ہو جاتے ہیں اور وہ کسی بھی مغربی کمپنی کے ساتھ کام نہیں کر سکتے جب کہ ان پر فرد جرم عائد کرنے سے ان پر سفری پابندی عائد ہو جاتی ہیں۔
گذشتہ سال امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یورپی یونین نے بھی سائبر پابندیوں کا آغاز کر دیا تھا اور یہاں بھی سب سے زیادہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے روسی شہری ہی نکلے تھے۔
پابندیوں کی فہرست میں شامل زیادہ تر افراد سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق کہیں نہ کہیں روسی ریاست سے ضرور جڑا ہوتا ہے۔ کہیں جاسوسی کی نیت سے ہیکنگ، کہیں دباؤ ڈالنے یا صرف طاقت کے مظاہرے کے لیے ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ہر ملک ہی اپنے مخالفین کے خلاف ہیکنگ کا استعمال کرتا ہے لیکن امریکہ اور برطانیہ کا الزام ہے کہ روس کی جانب سے ہونے والے سائبر حملے کبھی کبھار ایک حد کو پار کر جاتے ہیں۔
ان روسی ہیکرز میں سے چند پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ یوکرین میں بجلی کے پاور گرڈز ہیک کرنے اور بلیک آوٹ کے ذمہ دار تھے۔ کچھ پر کیمیائی ہتھیاروں کو ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریوں میں گھسنے کی کوشش کا الزام ہے۔ دوسری طرف سرکاری سطح پر روس تمام الزامات کو جھوٹا اور روس کے خلاف مغربی پراپیگینڈا کا حصہ قرار دیتا ہے۔
اس سوال پر ابہام ہے کہ ریاستی ہیکنگ کی جنگ میں حدود کہاں پر آتی ہیں اسی لیے ہم نے اپنی تلاش کو ان افراد تک محدود رکھا جن پر یہ الزمات عائد کیے گئے ہیں۔
میکسم کے والد سے بات کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ان کے بیٹے کے خلاف فرد جرم کا کم از کم اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ وہ غصے میں ہیں لیکن ایول کورپس پر اس کا اب تک کچھ خاص اثر نہیں ہوا۔
سائبر سکیورٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ اس گروہ کے اراکین اب بھی سائبر حملوں میں ملوث ہیں جن کا نشانہ زیادہ تر مغربی ممالک ہی بنتے ہیں۔
سابق ہیکرز اور سکیورٹی محققین کے مطابق روسی ہیکنگ دنیا کا سنہرا اصول یہی ہے کہ جب تک آپ کا شکار بننے والا روس یا روسی زبان بولنے والے علاقوں سے تعلق نہیں رکھتا تو آپ جس کو چاہیں نشانہ بنائیں۔
ایول کارپس کا ایک رکن نوٹوں کی گڈیاں اٹھائے ہوئے
اس اصول کا ثبوت محققین کے مطابق یہ ہے کہ جن علاقوں کی بات ہو رہی ہے یعنی روس اور روسی زبان بولنے والے ممالک وہاں پر بہت کم سائبر حملے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ روسی زبان والے کمپیوٹر سسٹمز میں سائبر حملوں کے خلاف خصوصی حفاظتی سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔
لیلیا یاپارووا میڈوزا میڈیا گروپ کے ساتھ بطور تحقیقاتی صحافی کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سنہری اصول کا فائدہ روس کے خفیہ ادارے اس طرح اٹھاتے ہیں کہ ان کے لیے ایسے ہیکرز کی نشان دہی آسان ہو جاتی ہے جنھیں وہ اپنے کام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’روسی خفیہ ادارے ایف ایس بی کے لیے ان ہیکرز کو جیل میں بند کرنے سے زیادہ فائدہ مند یہ ہے کہ وہ ان سے اپنے کام کروائے۔ ایک سابق ایف ایس بی اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس نے بذات خود اس گروہ کے چند لوگوں کو خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔‘
یہ بھی پڑھیے
امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ میکسم سمیت دیگر انتہائی مطلوب ہیکرز براہ راست روسہ خفیہ اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ محض اتفاق کی بات نہیں ہو سکتی کہ میکسم کے سسر جن کو ان کی شادی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے ایف ایس بی کے ایک اعلی سابق افسر رہے ہیں۔
ہم نے روس کی حکومت کے سامنے یہ سوال رکھا کہ یہ ہیکرز اتنی آسانی سے کیسے گھوم رہے ہیں۔ ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
حال ہی میں روس کے صدر ولادمیر پوتن سے جب جنیوا سمٹ کے دوران یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں کہ ہائی پروفائل سائبر حملوں کا گڑھ روس کی سر زمین ہے۔ انھوں نے الٹا یہ دعویٰ کیا کہ زیادہ تر سائبر حملے تو امریکہ سے شروع ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہ وعدہ ضرور کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر اس معاملے پر کام کرنے کو تیار ہیں۔
ایول کورپس کا عروج
- سنہ 2009: ایول کورپس پہلی بار منظر عام پر آتی ہے جب وہ مبینہ طور پر بینک اکاؤئنٹس کے لاگ اِن چرا کر پیسہ چرا لیتی ہے
- سنہ 2012: نیبراسکا میں ایک عدالت ایول کورپس کے اراکین کے آن لائن نام پر ان کے خلاف فرد جرم عائد کرتی ہے (میکسم مبینہ طور پر ایکوا کا کوڈ نام استعمال کرتا ہے۔)
- سنہ 2017: اس گروہ پر الزام لگتا ہے کہ اس نے بٹ پیمر کے نام سے ایک ایسی سروس شروع کی ہے جس کو استعمال کر کے ویب سائٹس پر حملہ اور ان کا کنٹرول حاصل کر لیا جاتا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ان کی اس سروس کو دیگر ہیکرز بھی پیسے ادا کر کے استعمال کرتے تھے
- سنہ 2019 : میکسم اور ایگور سمیت نو افراد پر امریکہ میں فرد جرم سمیت پابندی عائد ہوتی ہے اور میکسم کی معلومات کے عوض پانچ ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کیا جاتا ہے
سنہ 2019 کے بعد اطلاعات کے مطابق ایول کورپس نامی گروہ نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس پر حملوں اور تاوان کے لیے مختلف ناموں سے نت نئے برانڈز کا استعمال کیا۔
گذشتہ چھ ماہ کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادی پابندیوں سے آگے نکل کر ان ہیکرز کے خلاف جارحانہ اقدامات کرنا شروع ہو چکے ہیں۔
ان میں سے ایک قدم جوابی ہیکنگ بھی ہے جس کے ذریعے اب تک ان میں چند ہیکرز کو آف لائن کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ریول اور ڈارک سائڈ نامی گروہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کی وجہ سے اب ہیکنگ کا کام نہیں کر رہے۔
امریکی حکام کئی صارفین سے چرائے گئے لاکھوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائن بھی واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس عالمی کوشش جس میں امریکی محکمہ انصاف سمیت یورو پول بھی شامل ہے اب تک یوکرین، رومانیہ، کویت اور جنوبی کوریا سے کئی مبینہ ہیکرز کو بھی گرفتار کر چکی ہے۔
ان تمام اقداامت کے باوجود سکیورٹی محققین کا کہنا ہے کہ نت نئے ہیکر گروپ سامنے آ رہے ہیں جن کے حملے ہفتہ وار بنیاد پر ہونے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک روس میں پناہ لیے ہیکرز کا خاتمہ نہیں ہو جاتا تب تک عالمی ہیکنگ پر قابو پانا مشکل ہے۔
Comments are closed.