پاکستان میں ماہرین امراضِ قلب سمیت 61 فیصد ڈاکٹرز موٹاپے کی بیماری کا شکار ہیں جبکہ ساڑھے سات فیصد ڈاکٹرز سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔
اس بات کا انکشاف قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ریسرچر ڈاکٹر سالک احمد میمن کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں کیا گیا جو اتوار کے روز پانچویں کارڈیالوجی ریسرچ ایوارڈ کی تقسیم انعامات کے موقع پر پیش کی گئی۔
پاکستان کارڈیک سوسائٹی کی 50ویں سالانہ کانفرنس کے اختتامی روز پاکستان بھر سے آئے ہوئے نوجوان تحقیق کاروں اور ڈاکٹروں کی طبی تحقیق اور ریسرچ پیپرز کی جانچ پڑتال کے بعد 6 نوجوان تحقیق کاروں کو نقد انعام دیے گئے۔
قومی ادارہ برائے امراض قلب سے وابستہ ڈاکٹر سالک میمن کے مطابق انہوں نے پاکستان بھر کے 159 ڈاکٹروں اور ماہرین امراض قلب کے انٹرویو کیے اور ان کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے اور حیران کن طور پر ان میں سے تقریباً 21 فیصد ڈاکٹر موٹاپے کی بیماری یا ’اوبیسٹی‘ کا شکار تھے جبکہ 40 فیصد ڈاکٹروں کا وزن مروجہ پیمانوں سے کافی زیادہ تھا۔
ڈاکٹر سالک احمد نے مزید بتایا کہ تقریباً ساڑھے سات فیصد ڈاکٹر سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا نکلے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان تمام ڈاکٹروں میں 26 فیصد سے زائد کے خاندان میں دل کی بیماریاں موجود تھی، لیکن ان میں سے صرف 65 فیصد کو اس بات کا علم تھا کہ انہیں ہفتے میں ڈھائی گھنٹے سے زائد وقت ورزش کرنی چاہیے۔
تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان تمام ڈاکٹروں میں سے صرف 26 فیصد ڈاکٹر باقاعدگی سے ایکسرسائز کرتے ہیں جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ انہیں اتنا ٹائم ہی نہیں ملتا کہ وہ واک یا باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرسکیں۔
اپنی دلچسپ تحقیق کے باوجود ڈاکٹر سالک میمن کارڈیالوجی ریسرچ ایوارڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور لاہور کے ڈاکٹرز اسپتال کی ڈاکٹر ہما زرتاش کو ہارٹ فیلیئر کے مریضوں میں ’آرنی‘ نامی دوا کے کامیابی سے استعمال پر پہلے انعام سے نوازا گیا جبکہ آغا خان اسپتال کراچی کے سید وقار احمد دوسرے اور قومی ادارہ برائے امراض قلب سے وابستہ ڈاکٹر صنم خواجہ تیسرے انعام کی حقدار قرار پائیں۔
پاکستان کارڈیک سوسائٹی نے اس موقع پر پشاور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ درانی، ادارہ برائے امراض قلب کی ڈاکٹر صبا حسین اور آغا خان یونیورسٹی کے میاں مصطفیٰ کمال کو بھی ان کی طبی تحقیق پر نقد انعامات سے نوازا۔
واضح رہے کہ کارڈیالوجی ریسرچ ایوارڈ مقامی دوا ساز ادارے فارمیو کی مالی معاونت سے دیے جاتے ہیں اور نوجوان تحقیق کاروں کو لاکھوں روپے طبی تحقیق کرنے کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کارڈیک سوسائٹی کے صدر پروفیسر ہارون بابر کا کہنا تھا کہ مقامی طور پر کی جانے والی طبّی تحقیق کے نتیجے میں ہمیں مقامی بیماریوں اور ان عوامل کو جاننے میں مدد ملے گی جن کے نتیجے میں یہ بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں ہم ان بیماریوں کو بہتر طور پر نمٹنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
فنڈز فراہم کرنے والے دواساز ادارے فارمیوو کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ منصور خان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ پاکستان میں صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس کے لیے وہ تحقیق کاروں کو تمام مالی وسائل فراہم کر رہے ہیں۔
کاڈیو کون کے کنوینر اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر نے اس موقع پر انعامات حاصل کرنے والے نوجوان تحقیق کاروں کو مبارک باد دی اور امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی ریسرچ پوری دنیا میں دل کے امراض سمیت دیگر بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ماہرین کی توجہ حاصل کر پائے گی۔
Comments are closed.