بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

تسمانیہ کی قدیم تہذیب کا دوسرا جنم، جس کا ماضی انتہائی ظالمانہ رہا

آسٹریلیا کی ریاست تسمانیہ کی قدیم تہذیب کا دوسرا جنم، جس کا ماضی انتہائی ظالمانہ رہا

تسمانیہ

تسمانیہ کے شمال مشرقی ساحل کے قریب ریت کے ٹیلوں کے درمیان کچھ لوگ آگ پر بڑی بڑی مرغابیوں کا گوشت بھون رہے ہیں۔ اس کیمپ فائر کے ارد گرد جھاڑیوں کے آس پاس ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے خیمے لگائے ہوئے جہاں یہ رات کو سوتے ہیں۔

چھوٹی دُم والی شیئر واٹر قسم کی مرغابیوں کا چربی سے بھرپور گوشت تسمانیہ کے قدیم ابورجنیز باشندوں (جنھیں پلاوا بھی کہتے ہیں) کا مرغوب کھانا رہا ہے۔

آج کی شام یہاں لگے ہوئے سلیپِنگ پوڈز یا چھوٹے چھوٹے خیمے اسی قسم کے پلاوا خیموں کی طرز پر بنائے گئے ہیں جو صدیوں تک ابورجنیز قبائل کی پہچان رہے ہیں۔

ان چھوٹے چھوٹے خیموں والے یہ سیاحتی مقام دراصل اس علاقے کی پہلی سیاحتی کمپنی نے لگائے ہیں جس کا نظام مقامی پلاوا کمیونٹی خود چلاتی ہے۔

ایک لحاظ سے یہ خیمے اس خطے کے قدیم مقامی باشندوں اور ان کی تہذیب کا اظہار ہیں۔ اس قدیم تہذیب کی یہ علامات اتنے زیادہ عرصے تک دنیا سے اوجھل رہیں کہ 21 برس کے تھامس، جو یہاں گائیڈ کا کام کرتے ہیں، وہ بھی یہی سمجھتے رہے کہ یہ تہذیب تو کب کی مر چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ’جب میں سکول جاتا تھا تو اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو قسمیں کھا کر بتاتے تھے کہ تسمانیہ کے ابورجنیز قبائل کی آخری نشانی تروگانینی نیمی خاتون تھی اور اب اس موت کے بعد یہ قبائل ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکے ہیں۔‘

’مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ لوگوں کی باتوں کا کیا جواب دوں کیونکہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ میرا اپنا تعلق یہاں کے قدیم قبائل سے ہے۔‘

تروگانینی نامی خاتون کے بارے میں یہ داستان سنہ 1876 میں ان کی موت کے ساتھ ہی مشہور ہو گئی تھی کہ وہ یہاں کے قدیم قبائل کی آخری فرد تھیں اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔

تسمانیہ

،تصویر کا ذریعہAnrew Bain

،تصویر کا کیپشن

پلاوا کمیونٹی کی الگ شناخت کے حوالے سے حالیہ برسوں میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے

یہ وہ دن تھے جب یورپی لوگوں کو آسٹریلیا کے ان جزیروں پر بسے ہوئے تقریباً 80 برس ہو چکے تھے۔ یورپی اقوام کی ان جزیروں پر آمد کے بعد پلاوا کمیونٹی پر مظالم کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کبھی ان لوگوں کو ’تہذیب سکھانے اور مسیحیت کے دائرے‘ میں داخل کرنے کے نام پر زبردستی مدرسوں میں ڈالا گیا، تو کھبی انھیں ’بلیک لائن آف 1830‘ کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سکیم کے تحت سفید فام یورپیوں نے تسمانیہ کے پورے جزیرے کو گھیرے میں لے لیا تھا تاکہ قدیم قبائل کے بچے کھچے لوگوں کو پکڑ لیا جائے لیکن پلاوا کمیونٹی نے نہایت چالاکی سے خود کو بچایا اور ان کے صرف دو باشندے ہی یورپیوں کے ہاتھ لگے۔

پلاوا کمیوٹی کے خلاف ان سلسلہ وار مظالم کو آج مقامی قبائل کی نسل کشی کے مترداف سمجھا جاتا ہے۔

آسٹریلیا میں سنہ 2016 کی مردم شماری میں ریاست تسمانیہ کے 23 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنی نسلی شناخت ابورجنیز بتائی تھی، جو کہ ریاست کی کل آبادی کا چار اعشاریہ چھ فیصد بنتا ہے۔ یہ تناسب قومی اوسط سے زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری کے مطابق قومی سطح پر تین اعشاریہ تین فیصد لوگوں نے کہا تھا کہ ان کا تعلق قدیم ابورجنیز قبائل سے ہے۔

پلاوا کمیونٹی کی الگ شناخت کے حوالے سے حالیہ برسوں میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں بہت سے لوگوں نے اپنی قدیم تہذیب کو گلے لگایا اور وہ اب اس شناخت پر فخر کرتے ہیں۔

سنہ 2014 میں حکومت نے ریاست تسمانیہ کے کچھ مقامات کو دو نام عطا کرنے شروع کر دیے تھے، انگریزی نام اور اس کے ساتھ پلاوا نام۔ اس کی ایک مثال ماؤنٹ ویلینگٹن ہے جس کا نام تبدیل کر کے کنانی ماؤنٹ ویلنگٹن کر دیا گیا۔ اسی طرح تسمانیہ کے شمال مغربی حصے میں پائے جانے والے جنگل کا نیا نام تاکیانہ ٹرکین رکھ دیا گیا۔

اس سال ریاست کے 15 مقامات کے لیے نئے ناموں کی منظوری دی گئی جس کے بعد تسمنایہ میں ایسے مقامات کی تعداد 25 ہو گئی جن کے نام تبدیل ہو چکے ہیں۔

تسمانیہ

،تصویر کا ذریعہAndrew Bain

،تصویر کا کیپشن

ایڈی سٹون پوائنٹ نامی یہ مقام ’بے آف فائرز‘ کے شمالی سرے پر واقع ہے

’ووکالینا واک‘ نام سیاحتی پروگرام کا آغاز 2018 میں ہوا تھا جس کے بعد اب زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو پلاوا تہذیب، ان کے دیہاتوں اور ان کی لوک کہانیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔

اس کے علاوہ اب ریاست کے سکولوں میں ابورجنیز قبائل کے تاریخ کے بارے میں بھی پڑھایا جا رہا اور ان قبائل کے روایتی فنون بھی لوگوں کے سامنے آ رہے ہیں، جن میں سیپیوں کے ہار اور درختوں کی کھال اور پتًوں سے ٹوکریاں بنانے جیسے فن شامل ہیں۔

پلاوا کمیوٹی سے تعلق رکھنے والے فنکار، کیلب نکولس مانسِل نے تسمانیہ کے شمال مغربی ساحل کے قریب ایک قصبے میں اپریل 2021 میں ایک آرٹ گیلری کا آغاز کیا، جہاں اب اس کمیونٹی کے 19 فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی گیلری وہ پہلا ادارہ ہے جو پلاوا آرٹ کو دنیا کے سامنے لا رہا ہے۔ نکولس مانسِل سمجھتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں جس طرح پلاوا کلچر کو ایک نئی شناخت ملی ہے اس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ جیسی تحریک کا بھی بڑا ہاتھ ہے جس کے بعد لوگوں کو احساس ہوا کہ ریاست تسمانیہ کا ماضی بھی نسلی اعتبار سے کس قدر ظالمانہ رہا۔

ان کے بقول ’میں سمجھتا ہوں کہ ہم اب اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں اس (ظالمانہ ماضی) کا اعتراف کرنا ہو گا۔ ہم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک ہم تسلیم نہ کر لیں کہ ماضی میں کیا ہو چکا ہے۔‘

’میرے خیال میں (تسمانیہ کی قدیم) تاریخ میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ ہے کہ جب ہم سچ بولنے، ماضی کو تسلیم کرنے اور اس سے سمجھوتہ کرنے کی بات کرتے ہیں، تو اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی قدر کرنا سیکھیں اور یہ کام آپ آرٹ اور کلچر کے ذریعے کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ آپ ماضی سے براہ راست لڑنا شروع کر دیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

تسمانیہ کی قدیم پلاوا تہذیب میں سیپیوں کا کردار بہت اہم رہا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

تسمانیہ کی قدیم پلاوا تہذیب میں سیپیوں کا کردار بہت اہم رہا ہے

شیلڈن تھامس کا شمار بھی ان پلاوا فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کلچر میں اس تبدیلی کو قریب سے دیکھا ہے۔ شیلڈن ان چار فنکاروں میں شامل تھے جنھیں سنہ 2007 میں وہ نوک دار کشتی بنانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا جو پلاوا قبائل کے لوگ استعمال کیا کرتے تھے۔

ان فنکاروں نے سنہ 1840 کے عشرے کی پانچ کشتیوں کے نمونوں کے سکین استعمال کیے جو ایک عجائب گھر میں پڑے ہوئے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی کشتیوں کے ان نمونوں کو جوڑ کر انھوں نے یہ معمہ حل کیا۔ ان فنکاروں نے جو کشتی بنائی وہ آج کل تسمانیہ کے عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے۔

تھامس بتاتے ہیں کہ یہ پلاوا کشتی بنانا دنیا کی قدرین ترین روایت کو زندہ کرنے کے مترداف تھا کیونکہ اس قسم کی کشتیاں تسمانیہ کے قدیم قبائل آج سے کم از کم 40 ہزار برس پہلے بنایا کرتے تھے اور یہ کشتی بنانے کا منصوبہ ایک ایسی مصروفیت تھی جس کے طفیل انھیں ہر وقت کی شراب نوشی سے نجات مل گئی۔

’اگر میں یہ کام نہ کرتا تو آج آپ کے سامنے نہ کھڑا ہوتا۔ میں وہ شخص نہ ہوتا جو آج آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ میں (اس منصوبے) کا بہت مشکور ہوں۔‘

تھامس تسمانیہ کے مرطوب جنگلات میں اگنے والے قدیم درختوں کی لچکدار ٹہنیوں اور پتّوں سے روایتی ٹوکریاں بنانے کا فن بھی جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ میں اب قدرے بوڑھا ہو رہا ہوں، اس لیے میں بچوں کو بھی یہ ہنر سکھاؤں گا۔ میں مقامی سکول سے آدھا درجن بچوں کو لیکر انھیں یہ فن پوری طرح سکھاؤں گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.