بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکہ میں اسقاط حمل پر ’قتل‘ کے جرم کی سزا کیوں؟

اسقاط حمل پر امریکہ میں ’قتل‘ کے جرم کی سزا کیوں؟

  • رابن لیونسن کنگ
  • بی بی سی نیوز

برٹنی پولا

،تصویر کا ذریعہState of Oklahoma

،تصویر کا کیپشن

برٹنی پولا کا حمل ضائع ہو گیا اور انھیں غیر ارادی قتل کی سزا سنا دی گئی

جب امریکی ریاست اوکلاہوما میں ایک 21 سال کی خاتون کا حمل ضائع ہونے کے بعد انھیں غیر ارادی قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تو بہت سے لوگ اشتعال میں آ گئے۔

گذشتہ برس جنوری میں برٹنی پولا چار ماہ کے حمل سے تھیں اور ہسپتال میں داخل تھیں جس وقت ان کا حمل ضائع ہوا۔ اکتوبر میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور انھیں اپنے بیٹے کو پیدائش سے پہلے قتل کرنے کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اُس وقت میڈیا میں اِس معاملے پر بہت بحث چلی کہ حمل ضائع ہونے کی تکلیف اور اذیت کے بعد انھیں اپنے بچے کو قتل کرنے کے جرم میں قید کی سزا کیسے سنائی جا سکتی ہیں۔

برٹنی کا تعلق ان قبائل سے ہے جو براعظم امریکہ کو اپنی آبائی سرزمین کہتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ انھیں اسی ماہ یہ سزا دی گئی جب ملک بھر میں حمل ضائع ہونے سے متعلق آگاہی کی مہم چل رہی تھی۔ دیگر صارفین نے اس کیس کا موازنہ مارگریٹ ایٹوڈ کے ناول ’دی ہینڈمیڈز ٹیل‘ سے کیا۔

جب برٹنی علاج کے لیے ہسپتال پہنچیں تو انھوں نے حمل کے دوران منشیات کے استعمال کا اعتراف کیا۔ طبی معائنے کی رپورٹ کے مطابق ان کے ضائع ہونے والے بچے کے جگر اور دماغ میں نشہ آور مادہ میتھ ایمفیٹامین موجود تھا۔

معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے ضائع ہونے والے بچے کی موت کی وجہ کا تعین نہیں کیا اور یہ نوٹ کیا کہ جینیاتی نقص یا زچگی کے دوران منشیات کا استعمال اس میں اہم عوامل ہو سکتے ہیں۔

برٹنی کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کریں گے جبکہ استغاثہ کی وکیل نے معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے بات کرنے سے معذرت کی ہے۔

اسقاط حمل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قومی سطح پر حاملہ خواتین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ’نیشنل ایڈویکیٹس آف پریگننٹ ومین‘ کی نائب ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈینا سسمین کا کہنا ہے کہ برٹنی پولا کا کیس ایک وسیع مسئلے کی مثال ہے۔

سسمین کہتی ہیں کہ ’اس کیس نے کئی لوگوں کو اشتعال دلایا تاہم یہ اتنا غیر معمولی نہیں جتنا لوگ اسے سمجھ رہے ہیں۔‘

سسمین کا ادارہ برٹنی کو اپیل کرنے میں قانونی امداد فرہم کر رہا ہے اور وہ امریکہ میں حاملہ خواتین کی زبردستی گرفتاریوں سے متعلق کیسز اور ان واقعات کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

سنہ 1997 سے 2020 کے دوران اس ادارے نے اس قسم کے 16 ہزار کیس ریکارڈ کیے ہیں جن میں سے کم از کم 1200 کیس گذشتہ پانچ سال میں ہی سامنے آئے ہیں۔

اگرچہ کچھ خواتین کو ’گر جانے‘ یا ’گھر پر بچے پیدا کرنے‘ کے مضحکہ خیز الزامات میں گرفتار کیا گیا تاہم زیادہ تر کیسز منشیات کا استعمال کرنے والی یا غیر سفید فام خواتین کے خلاف ہیں۔

سسمین کہتی ہیں کہ ’ایسے کیسز میں اتنی تیزی مخصوص امریکی رجحان ہے اور اس میں امریکہ کی منشیات کے خلاف جنگ اور انسانیت کو تسلیم کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم، دونوں کی جھلک ملتی ہے۔‘

’دی ہینڈ میڈز ٹیل‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کئی لوگ اس کیس کا موازنہ مارگریلا ایٹ وڈ کی کہانی ’دی ہینڈ میڈز ٹیل‘ سے کر رہے ہیں

زندگی کب شروع ہوتی ہے؟

حمل پر نشہ آور مواد کے اثرات کا معاملہ 1980 کی دہائی میں لوگوں کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب ’کریک بے بی‘ کی اصطلاح سامنے آئی جو ایسے بچوں کے لیے استعمال ہوتی جن کی مائیں نشے کی عادی تھیں۔

حمل میں نشہ کرنے کے بہت سے مضر اثرات ہوتے ہیں جن میں بچوں کی مردہ پیدائش یا پھر پیدائش سے پہلے حمل کے ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تاہم حمل پر منشیات کے استعمال سے پڑنے والے اثرات میں بہت تنوع ہے۔

سنہ 1980 کی دہائی میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جن بچوں کی مائیں کوکین کی عادی ہوتی ہیں ان کی نشوونما میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں تاہم بعد میں اس نظریہ کو غلط ثابت کر دیا گیا تھا۔

اس وقت سے میتھ ایمفیٹامین سے لے کر افیون تک، منشیات کی جو مختلف اقسام رائج رہی ہیں، ان سے اسے منسوب کیا گیا ہے۔

اسی دوران دوسری جانب اسقاط حمل سے متعلق قانون پاس کرنے میں بہت سی امریکی ریاستوں کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

اگرچہ لوگ اخلاقی یا مذہبی بنیادوں پر اسقاط حمل کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ایک توجیہ انسانیت سے متعلق ہے۔

پرسن ہُڈ الائنس کی صدر سارہ کوئیل کہتی ہیں ہیں کہ ان کے نزدیک ہر انسان، انسان ہے اور ہماری برابری کا دارومدار انسانیت پر ہوتا ہے۔

’انسان کی حیثیت سے ہم اس بات کے حقدار ہیں کہ ہمیں قانون کے مطابق برابر تحفظ ملے کیونکہ ہم قدرتی طور پر انسانی حقوق کے حامل ہیں۔‘

پرسن ہوڈ تحریک اسقاط حمل سے آگے بڑھ کر حمل کے حقوق کا دائرہ بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ تحریک اس کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ، طبی امداد سے موت اور ایسی تحقیق جس میں جنین ضائع ہو جائے، کی بھی مخالفت کرتی ہے۔

اگرچہ تنظیم کا منشیات کا استعمال کرنے والے ماؤں کے حوالے سے کوئی مؤقف نہیں تاہم سارہ کوئیل کے مطابق وہ ہر ایسے قدم کے حق میں ہیں جو پیدا ہونے والے بچوں کو والدہ کی جانب سے منشیات کے استعمال اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچائیں گے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ہمارے قانونی نظام میں نہ صرف ان مسائل کی ذمہ داری اور احتساب کے معاملے کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے بلکہ نشے کی عادی ماؤں کی بحالی اور صحتیابی پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

قوانین جو زیادہ نقصان دہ ہیں؟

امریکہ کی 23 ریاستوں میں دورانِ حمل منشیات کے استعمال کو بچوں کے استحصال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ملک کی نصف ریاستوں میں طبی عملے کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہر ایسی ماں کے بارے میں اطلاع دیں جس پر منشیات استعمال کرنے کا شک ہو۔

سنہ 2006 میں ریاست الاباما نے کیمیائی طور پر خطرے میں ڈالنے کے حوالے سے قانون بنایا تھا جس کے تحت بچوں کو کوئی کیمیائی مادہ یا نشہ آور شے دینا جرم ہے۔ امریکی جریدے پرو پبلیکا کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اب تک 500 خواتین کو اس قانون کے تحت جیل بھیجا جا چکا ہے۔

ریاست ٹینیسی نے بھی سنہ 2014 میں ایسا ہی قانون لانے کی کوشش کی تاہم دو سال بعد اس کی مدت معیاد پوری ہو گئی اور اسے مزید بڑھایا نہیں گیا۔

ریاست کیلیفورنیا کی ایک کاؤنٹی میں دو خواتین کو مردہ بچے پیدا کرنے کے الزام میں جیل ہوگئی جب یہ ثابت ہوا کہ ان کی جسم میں منشیات کے آثار موجود تھے۔

ان میں سے ایک، چیلسی بیکر کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا گیا جبکہ اڈورا پیریز اپنی 11 برس کی سزا کا ایک تہائی حصہ گزار چکی ہیں۔ وہ اس وقت اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

دونوں خواتین کے خلاف ’جنین پر تشدد‘ کے قوانین کے تحت کارروائی ہوئی جو کم از کم 38 ریاستوں میں موجود ہیں۔

ان میں سے کئی ریاستوں نے 2004 میں لیسی پیٹرسن کے قتل کے بعد منظور ہونے والے وفاقی قانون کی دیکھا دیکھی ایسے قوانین بنائے تھے۔ لیسی کو ان کے خاوند نے قتل کیا تھا اور مرتے وقت وہ حاملہ تھیں۔

تاہم ان میں کئی قوانین مبہم ہیں جس کی وجہ سے استغاثہ کے پاس حمل ضائع ہونے والی خواتین کے خلاف کیس لانے کی گنجائش موجود ہے۔

کچھ ریاستوں میں حمل کی عمر کا تعین کیا گیا ہے اور زیادہ تر ڈاکٹر 20 سے 24 ہفتوں کے بعد جنین کو بچہ قرار دینے کے حق میں ہیں تاہم سسمین کے مطابق برٹنی ملک کی تاریخ میں سب سے کم عرصے حاملہ رہنے والی خاتون ہیں جنھیں اس قانون کے تحت سزا ہوئی ہو۔

مزید سخت مستقبل؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر برٹنی نے اسقاطِ حمل کروایا ہوتا تو ان پر ایسا کوئی مقدمہ نہ بنتا کیونکہ یہ اوکلاہوما میں جائز ہے۔

تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے ٹیکساس میں اسقاط حمل پر مکمل پابندی کے حوالے سے کیس پر فیصلہ متوقع ہے اور دیگر ریاستوں میں بھی قوانین سخت ہونے کی توقع ہے۔

ایسے ممالک جہاں اسقاط حمل غیر قانونی ہے وہاں خواتین کو حمل ضائع کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر قتل کا جرم عائد کیا جاتا ہے۔ وہاں مقامی حکام ان پر یہ الزام بھی لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے جان بوجھ کر اپنے حمل کو ختم کیا۔

لاطینی امریکی ملک ایل سیلواڈور، جہاں اسقاطِ حمل پر سخت ترین پابندیاں ہیں، میں سامنے آنے والا ایک کیس اس وقت براعظم امریکہ کی انسانی حقوق کی عدالت کے سامنے پہنچ چکا ہے جہاں سے فیصلہ رواں برس کے آخر میں متوقع ہے۔

اسقاط حمل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

33 برس کی مینیولہ جو اپنا حمل ضائع ہونے کے بعد ہسپتال علاج کے لیے گئی تھیں۔ انھیں قتل کے جرم میں تیس سال تک کی سزا دی گئی اور وہ سنہ 2010 میں جیل میں وفات پا گئیں۔

ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ ایل سلواڈور کے قوانین میں ڈاکٹروں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی خواتین جن پر اسقاط حمل کا شبہ ہو وہ اس کی اطلاع دیں لیکن یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ایما میلن جو ایک قانونی ماہر ہیں اور جنس اور جرم کے حوالے سے برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کیسز کی بنیاد میں جائیں تو اس حوالے سے یہ خیال دکھائی دیتا ہے کہ خواتین جب ایک بار ماں بن جاتی ہیں تو جو بھی ہو جائے، انھیں اپنے جنین کو مقدم رکھنا چاہیے ۔

وہ کہتی ہیں کہ لیکن حقیقت اس سے بہت پیچیدہ ہے کیونکہ کبھی کبھی خواتین بہت مجبور ہوتی ہیں اور انھیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

سنہ 2012 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں چھ فیصد حاملہ خواتین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ نشہ آور ادویات استعمال کرتی ہیں اور آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد نے کہا کہ وہ شراب پیتی ہیں جبکہ 16 فیصد نے کہا کہ وہ سگریٹ پیتی ہیں۔

امریکہ میں میڈیکل ایسوسی ایشنز نے حمل کے دوران منشیات استعمال کرنے کو بچوں کا استحصال قرار دینے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت نشہ کرتی ہے تو اس کا علاج ہونا چاہیے نہ کہ قید کی سزا ملنی چاہیے۔

گلین کوہن، ہاورڈ لا سکول میں طبی اخلاقیات کے ماہر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پیدائش سے پہلے ایک بچے کو قانون کے مطابق مساوی حقوق دینا اتنا سادہ نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس بات پر کوئی بھی اختلاف نہیں کہ جنین انسانی نوع کا حصہ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ قانون کے تحت کوئی فرد ہے یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر جنین کو فرد کا درجہ دیا بھی جائے تو کیا وہ شخصی حقوق کسی ماں کے حق خود ارادیت کو صلب کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اس پر زیادہ بات نہیں ہوتی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اسے ایک ’پھسلتی ہوئی ڈھلوان‘ جیسا کہتے ہیں جو حاملہ خواتین سے ان کی خودمختاری چھیننے جیسا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.