جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

پالمائرا کا رکھوالا: ’دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے ماہرِ آثار قدیمہ کی لاش ملی گئی‘

پالمائرا کا رکھوالا: ’دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے ماہرِ آثار قدیمہ کی لاش ملی گئی‘

Khaled al-Asaad in 2002

شام میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے ممکنہ طور پر آثار قدیمہ کے اُس ماہر کی لاش ڈھونڈ لی ہے جنھیں 2015 میں دولتِ اسلامیہ نے اس وقت ہلاک کیا تھا جب وہ قدیم شہر پالمائرا کی حفاظت کی کوشش کر رہے تھے۔ قیمتی نوادرات کے مقام کا انکشاف کرنے سے انکار کے بعد عسکریت پسندوں نے 82 سالہ خالد الاسد کا سر قلم کر دیا تھا۔

سرکاری میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی لاش اُن تین لاشوں میں سے ایک ہے جو پالمائرا کے مشرق میں واقع شہر کہلول سے دریافت ہوئی ہیں۔

ان کی شناخت کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں

شام کی خانہ جنگی کے دوران شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے پالمائرا پر دو دفعہ قبضہ کیا

یہ وحشیانہ قتل، دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے طرف سے کیے جانے والی مظالم کی ایک کڑی ہے، جو انھوں نے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی سائٹ پر قبضے کے دوران کیے تھے۔

خالد الاسد نے اپنی زندگی کے 50 سے زیادہ سال پالمائرا کے لیے وقف کیے تھے، جو دمشق کے شمال مشرق کے صحرا میں واقع ایک نخلستان میں ہے۔

انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ماہرِ آثار قدیمہ خالد الاسد 2003 میں وہاں کے نوادرات کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے لیکن وہ دولتِ اسلامیہ کے شہر پر قبضے تک وہاں تحقیق کرتے رہے۔

ان کے تین بیٹے اور ایک داماد، جو آثار قدیمہ کے ماہرین بھی ہیں، دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے آنے سے پہلے ہی قریبی شہر تدمور کے میوزیم سے سینکڑوں قیمتی نوادرات لے کر دارالحکومت دمشق فرار ہو گئے تھے۔ لیکن اسد نے اصرار کیا تھا کہ وہ اپنا گھر یعنی پالمائرا نہیں چھوڑیں گے۔

بعد میں ٹیمپ آف بیل کو بھی تباہ کر دیا گیا جو کہ کبھی پالمائرا کی مذہبی رسومات کا مرکز ہوا کرتا تھا

بعد میں ٹیمپ آف بیل کو بھی تباہ کر دیا گیا جو کہ کبھی پالمائرا کی مذہبی رسومات کا مرکز ہوا کرتا تھا

انہوں نے کہا تھا کہ ’میں پالمائرا سے ہوں اور میں یہیں رہوں گا چاہے وہ مجھے مار بھی ڈالیں۔‘

بعد میں اسد کو دولتِ اسلامیہ نے حراست میں لیا اور ان سے پوچھا کہ باقی نوادرات کہاں ہیں۔ جب انھوں نے تعاون کرنے سے انکار کیا تو اس کے بعد اگست میں تدمور شہر کے ایک سکوائر میں ان کا سر قلم کر دیا گیا۔

سرگرم کارکنوں نے ایک تصویر دکھائی تھی جس میں بظاہر ان کی لاش کو ایک کھمبے سے بندھا ہوا دکھایا گیا، اس کے ساتھ ایک اعلان نامہ یا پوسٹر تھا جس میں ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ پالمائرا کے ’بت پرستی کے ڈائریکٹر‘ تھے۔

پالمائرا کے قدیم کھنڈرات

یونیسکو کی اس وقت کی ڈائریکٹر جنرل آرینا بوکووا نے کہا تھا کہ دولتِ اسلامیہ نے اسد کو ’اس لیے مار ڈالا کہ انھوں نے پالمائرا سے اپنی گہری وابستگی سے خیانت نہیں کی۔‘

ان کے قتل کے بعد دولتِ اسلامیہ نے پہلی اور دوسری صدی سے تعلق رکھنے والے پالمائرا کے کئی مشہور حصوں کو تباہ کیا جن کو وہ مشرکانہ تصور کرتے تھے۔

بال شامن کا مندر اور بیل کے مندر کی مہرابوں کو اڑا دیا گیا، اور اس کے علاوہ قدیم شہر کی فاتح محراب اور اس کے قبرستان کے سات قدیم ٹاورز بھی تباہ کر دیے گئے۔

یونیسکو کا کہنا ہے کہ پالمائرہ کے کچھ حصوں کو تباہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے

یونیسکو کا کہنا ہے کہ پالمائرہ کے کچھ حصوں کو تباہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے

2016 کے آخر میں جب جنگجوؤں نے دوبارہ اس جگہ پر قبضہ کیا تو انھوں نے ٹیٹراپائلن کو تباہ کیا، جو کہ چار ستونوں والا ایک ڈھانچہ، اور رومن تھیئٹر کا ایک حصہ تھا۔

یہاں پر 2017 سے سرکاری فوج کا کنٹرول ہے، لیکن جاری خانہ جنگی کی وجہ سے تعمیر نو کا کام بہت محدود ہے۔

ایک وقت تھا جب مغربی شام سے لے کر مشرقی عراق تک پھیلے ہوئے 88،000 مربع کلومیٹر کے علاقے پر دولتِ اسلامیہ کا قبضہ تھا اور انھوں نے تقریباً اسی لاکھ افراد پر وحشیانہ حکمرانی مسلط کی ہوئی تھی۔

اس گروپ کو اس کے زیرِ قبضہ علاقوں سے سنہ 2019 نکال دیا گیا، لیکن اقوام متحدہ کے اندازہ کے مطابق اب بھی شام اور عراق میں 10،000 سے زیادہ عسکریت پسند سرگرم ہیں۔

خیال ہے کہ وہ چھوٹے سیلز یا گروہوں کی صورت میں منظم ہیں اور دونوں ممالک میں جان لیوا حملے کرتے رہتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.