بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

آسٹریلیا کے قانون شکن ’ہیرو‘ جن کی کہانی دلا بھٹی سے ملتی جلتی ہے

نیڈ کیلی: آسٹریلیا کے قانون شکن ’ہیرو‘ جن کی کہانی پنجاب کے باغی ہیرو دلا بھٹی سے ملتی جلتی ہے

نیڈ کیلی

آج سے تقریباً 140 سال قبل 1880 میں نومبر ہی کے مہینے میں آسٹریلیا کے سب سے بدنامِ قانون شکن نیڈ کیلی کو میلبورن میں پھانسی دی گئی تھی۔ ان پر کئی الزامات تھے جن میں تین پولیس اہلکاروں کے قتل، بینک ڈکیتیاں، ڈاکے، چوری اور لوگوں کو یرغمال بنانا شامل تھے۔

اس وقت کی آسٹریلیا کی نو آبادیاتی حکومت انھیں ایک سفاک قاتل سمجھتی تھی جبکہ بہت سے لوگوں کے لیے وہ ایک ہیرو تھے جو نو آبادیاتی دور کے حاکموں سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ان کی بالکل اسی طرح ہی حیثیت تھی جیسے انگلینڈ کی لوک کہانیوں میں رابن ہڈ اور پاکستان کے صوبے پنجاب میں دُلا بھٹی کی تھی جو امیروں کو لوٹ کر مال غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔

تاہم اگر کیلی کی زندگی پر غور کیا جائے تو ان کی کہانی رابن ہڈ سے زیادہ پنجابی ہیرو دلا بھٹی سے ملتی جلتی ہے۔

نیڈ کیلی کو نو آبادیاتی آسٹریلیا کے ان قانون شکنوں میں شمار کیا جاتا ہے جو پولیس سے بچنے کے لیے اکثر جھاڑیوں یا جنگلوں میں رہتے اور واردات کرنے کے بعد وہیں جا کر چھپ جاتے۔ اس وقت آسٹریلیا میں ایسے لوگوں کو ’بش رینجرز‘ کہا جاتا تھا۔

دراصل بش رینجرز کی کارروائیاں 1820 کی دہائی سے شروع تھیں اور ایسا زیادہ تر وہ لوگ کرتے تھے جو کسی نہ کسی جرم میں ملوث ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھاگ رہے ہوتے تھے۔ وہ اکیلے یا اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے تھے اور ان میں سے اکثر کو کسی دوسرے ملک میں جرم کرنے کے بعد سزا کے طور پر یہاں لایا گیا ہوتا تھا۔

نیڈ کیلی کی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ فلمیں بنی ہیں، متعدد سوانح عمری، کتابیں اور گیت لکھے گئے ہیں اور ان کے بارے میں کئی لوک کہانیاں مشہور ہے۔ نیڈ کیلی کا وہ سکارف جو انھوں نے مرتے وقت پہنا ہوا تھا اور ان کی ذرہ بکتر میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے گاؤں اور اس جگہ جا کر حاضری دیتے ہیں جہاں سمجھا جاتا ہے کہ پولیس کے ساتھ ان کا آخری معرکہ ہوا تھا۔

ان کی زندگی پر ایک فلم سنہ 1970 میں بنی جس میں گلوکار اور اداکار مک جیگر نے کام کیا اور اس کا ایک گانا Blame It On The Kelly (کیلی کو موردِ الزام ٹھہراؤ) بہت مشہور ہوا۔ کئی تاریخ داں تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نیڈ کیلی آسٹریلیا کے سب سے مشہور ہیروز میں سے ایک تھے لیکن یہاں آسٹریلیا منقسم بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کا ذکر ذرا آگے چل ک، لیکن پہلے کیلی کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

فلم پوسٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نیڈ کیلی کون تھے؟

نیڈ کیلی دسمبر 1854 میں جان کیلی اور ایلن کوین کے ہاں آسٹریلیا کے براعظم پر واقع برطانیہ کی نو آبادی وکٹوریا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا تعلق آئرلینڈ کی کاؤنٹی ٹپریری سے تھا اور 21 سال کی عمر میں دو سؤر چوری کرنے کے الزام میں انھیں سزا کے طور پر اس وقت کے ’کالے پانی‘ آسٹریلیا بھیج دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹپریری اپنے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور آسٹریلیا میں بھی کیلی خاندان گھوڑوں کے حوالے سے ہی مشہور رہا یہ اور بات ہے کہ یہاں معاملہ گھوڑے چوری کرنے کا تھا۔

یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ نیڈ پر سب سے پہلا بڑا مقدمہ بھی گھوڑے چرا کر کسی اور کو بیچنے کا تھا۔

جان کیلی اپنی سزا پوری کرنے کے بعد آسٹریلیا میں ہی ملازمت کرنے لگے اور وہیں ان کی ملاقات ایلن سے ہوئی۔ ان کے آٹھ بچے تھے جن میں نیڈ سب سے بڑے تھے۔ ابھی نیڈ 12 سال کے ہی تھے کہ ان کے والد کی موت ہو گئی اور اس طرح نیڈ اور ان کی والدہ کو مل کر خاندان کی کفالت کرنا پڑی۔ خاندان غریب سے غریب تر ہوتا گیا اور یہیں سے نیڈ کی مجرمانہ زندگی کا آغاز ہوا۔

ان کی ملاقات ایک اور بش رینجر ہیری پاور سے ہوئی اور نیڈ کو پہلی مرتبہ جیل پاور کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ہی جانا پڑا تھا۔ اس کے بعد وہ دو تین مرتبہ جیل گئے۔ پولیس کی کتابوں میں آنے کے بعد نیڈ کی زندگی یکسر بدل گئی اور انھوں نے دوسرے دوستوں کے ساتھ ایک گینگ میں شمولیت اختیار کر لی جو لوگوں کو لوٹتا اور ان کے مویشی لے جا کر بیچ دیتا تھا۔

نیڈ نے صرف 34 سال کی زندگی پائی لیکن ان کی یہ مختصر سی زندگی پولیس اور غربت سے لڑتے لڑتے گزری اور بالآخر ان کا انجام بھی وہی ہوا جو اس وقت کے اکثر بش رینجرز کا ہوتا تھا۔

نیڈ کیلی کی موت

نیڈ اور ان کے ساتھیوں پر قتل، ڈکہ زنی اور مار پیٹ کے کئی مقدمات تھے اور پولیس ان کو تلاش کرتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ جب وہ پولیس سے بچنے کے لیے بھاگے تو پولیس ان کی ماں کو پکڑ کر لے گئی اور جب نیڈ کیلی کو اس کا پتہ چلا تو انھوں نے پولیس سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اسی طرح نیڈ کے چھوٹے بھائی بھی پولیس کی حراست میں رہے۔

کیلی ایک لا ابالی سے خوبصورت نوجوان تھے اور جو جی میں آتا نتیجے کی پرواہ کیے بغیر کر ڈالتے۔ ایک مرتبہ ایک گھوڑی کی چوری کے معاملے میں انھیں تین سال کی سزا ہوئی۔ بعد میں اچھے رویے اور چند قانونی نکات کی وجہ سے ان کی سزا کو کم کر دیا گیا لیکن جیل سے باہر آنے کے بعد کیلی بدلہ لینا نہ بھولے۔

نیڈ کیلی

،تصویر کا ذریعہReuters

انھوں نے اس شخص کو، جس کی وجہ سے وہ جیل گئے تھے، چیلنج کیا کہ وہ ان کے ساتھ بغیر دستانوں کے باکسنگ کا مقابلہ کرے۔ اس شخص نے، جس کا نام اسایہ رائٹ تھا، چیلنج قبول کیا اور وکٹوریا کے شمال میں بیچ ووڈ کے علاقے کے مشہور امپیریئل ہوٹل میں دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ کیلی نے 20 ویں راؤنڈ میں یہ مقابلہ جیت گئے۔ اس طرح وہ اپنے علاقے کے غیر سرکاری باکسنگ چیمپیئن بھی قرار پائے۔ میلبورن کے ایک فوٹوگرافر نے میچ کے بعد ان کی ایک تصویر کھینچی جو بہت مشہور ہوئی۔

سنہ 1878 میں نیڈ کیلی کی ماں کو ایک پولیس افسر کو زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، جس کا بدلہ لینے کی کیلی نے قسم کھائی۔ اس کہانی کو دو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے: ایک کیلی خاندان کا مؤقف ہے اور دوسرا پولیس کا۔

پولیس آفیسر فٹز پیٹرک کے مطابق وہ نیڈ کے بھائی کو گرفتار کرنے ان کے گھر گئے جہاں نیڈ اور ان کے بھائی ڈین نے ان پر گولی چلائی اور ان کی ماں نے ان کے سر پر بیلچہ مارا۔ بعد میں انھوں نے ان کے زخموں پر مرہم پٹی لگائی اور مستقبل میں محتاط رہنے کی دھمکی دے کر گھر سے جانے دیا۔

کیلی خاندان نے اس سے بالکل مختلف کہانی بتائی۔ ان کے مطابق جب یہ واقع ہوا نیڈ کیلی علاقے میں موجود ہی نہیں تھے اور پولیس افسر نے خود ہی یہ ڈرامہ رچایا۔ بہرحال اس کے بعد پولیس کیلی اور اس کے بھائی کو ڈھونڈتی رہی جو جھاڑیوں میں چھپ کر کارروائیاں کرتے رہے۔

نیڈ کیلی کی آخری لڑائی کا ایک خاکہ

،تصویر کا ذریعہHulton Archive/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

نیڈ کیلی کی آخری لڑائی کا ایک خاکہ

کیلی کی ’ذرہ بکتر‘

بالآخر ایک پولیس پارٹی نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور اس دوران نیڈ اور ان کے گینگ کی فائرنگ سے تین پولیس والے ہلاک ہو گئے۔ پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد معاملات مزید بگڑتے گئے اور دوسری ریاستوں سے کیلی گینگ کے خاتمے کے لیے مزید پولیس بلوائی گئی، ان کی گرفتاری کے لیے نقد انعام رکھا گیا اور سنہ 1880 میں آخر کار ایک پولیس مقابلہ ہوا جس میں نیڈ کے بھائی ڈین اور دیگر ہلاک ہوئے اور نیڈ شدید زخمی حالت میں گرفتار ہوئے۔

گرفتاری کے وقت نیڈ کیلی ایک ذرہ بکتر پہنے ہوئے تھے جو ان کے گینگ کے اراکین نے خود ہی چوری کے مال میں سے لوہا نکال کر بنائی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اتنی گولیاں لگنے کے باوجود بھی وہ زندہ تھے۔

یہ ذرہ بکتر آج بھی وکٹوریا کی سٹیٹ لائبریری میں محفوظ ہے اور لائبریری حکام کے مطابق وہاں کی سب سے مشہور چیزوں میں سے ایک ہے۔ اسی لائبریری میں پیٹر کیرے کے مشہور ناول ’ٹرو ہسٹری آف کیلی گینگ‘ کا مسودہ بھی موجود ہے، جس پر سنہ 2001 میں انھیں بکر پرائز ملا تھا۔

میوزیم میں پڑی اصل ذرہ بکتر

،تصویر کا ذریعہTopical Press Agency/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

میوزیم میں رکھی اصل ذرہ بکتر

کیلی کا مقدمہ اور پھانسی

کیلی کا گرفتاری کے بعد علاج ہوا اور پھر فوری مقدمہ چلا۔ ان پر ویسے تو بہت سی دفعات لگائی گئیں لیکن عدالت نے انھیں سزا تین پولیس والوں کے قتل پر دی جو کہ پھانسی کی سزا تھی۔

اس وقت تک نیڈ کیلی کا مقدمہ بہت مشہور ہو چکا تھا اور بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ ان کے مقدمے میں حکام نے انصاف کے وہ تقاضے پورے نہیں کیے جو ہونے چاہیے تھے۔

ان کے چاہنے والوں نے آخری وقت تک حوصلہ نہیں ہارا اور ان کی سزائے موت کے خاتمے کے لیے کوششیں کرتے رہے اور 32 ہزار افراد کے دستخط پر مبنی ایک معافی کی اپیل بھی درج کروائی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ کیلی سے بہت تنگ آ چکی تھی اور انھیں ہر حال میں پھانسی دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پھانسی سے پہلے نیڈ کیلی کے کیا الفاظ تھے اس پر کچھ اختلاف ہے لیکن زیادہ تر تاریخ داں اس پر متفق ہیں کہ انھوں نے پھانسی پر چڑھنے سے پہلے کہا تھا: ’Such is life’ یعنی ’زندگی ایسی ہی ہے۔‘

اسی طرح ان کی والدہ سے منسوب بھی ایک بیان ہے کہ انھوں نے کیلی کی موت سے پہلے اپنی آخری ملاقات میں اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ’Mind you die like a Kelly’ یعنی ’دیکھنا ایک کیلی کی طرح ہی مرنا۔‘

کیلی کو 11 نومبر 1880 کو میلبورن میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

کیلی

،تصویر کا ذریعہBBC Sport

،تصویر کا کیپشن

کیلی کی پھانسی کا منظر

کیلی پر آسٹریلیا آج تک منقسم کیوں؟

آسٹریلیا میں آج تک یہ بحث چل رہی ہے کہ نیڈ کیلی سفاک قاتل تھے یا ایک ایسے ہیرو جو نو آبادیاتی دور کی انتظامیہ کے خلاف برسرِ پیکار تھے تاہم اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ وہ بلاشبہ آسٹریلیا کی سب سے مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں، وہ چاہے اچھی شہرت کی وجہ سے ہو یا بری۔

بہت سے آسٹریلوی باشندے نیڈ کیلی کو اسٹیبلشمنٹ مخالف ایک ہیرو سمجھتے ہیں جو 19ویں صدی میں بدعنوان برطانوی نو آبادیاتی حکام کے خلاف جنگ کر رہے تھے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نیڈ کیلی پر آج مقدمہ چلتا تو انھیں بری کیا جاتا کیونکہ نہ تو انھیں مناسب قانونی مدد دی گئی اور نہ ہی یہ بات مانی گئی کہ انھوں نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائی تھیں کیونکہ پولیس والے انھیں پکڑنا نہیں بلکہ مارنا چاہتے تھے۔

کیلی کو مجبوراً اپنے اور اپنے خاندان والوں کو بچانے کے لیے ایسا کرنا پڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے خاندان اور ان جیسے بہت سے دوسروں کے ساتھ بہت ظلم ہوا تھا اور اسی لیے وہ اس راستے پر چلے۔ اس کی ایک مثال ایک خط ہے جو انھوں نے سنہ 1879 میں ایک بینک اکاؤنٹنٹ کو دیا تھا اور اسے اخبار میں چھپوانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس کے کچھ حصے چھپے بھی تھے اور 56 صفحات پر مشتمل یہ لمبا خط آج تک وکٹوریا کی لائبریری میں موجود ہے۔

اس خط میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ قانون شکن کیسے بنے اور کس طرح پولیس نے ان کے خاندان کے ساتھ زیادتیاں کیں۔ اس خط سے جو ایک بات مزید نظر آتی ہے وہ ان کے آئرش خون میں انگلش اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کی ایک جھلک بھی ہے۔

نیڈ کیلی گینگ کو پکڑنے کے لیے انعام کا اشتہار

،تصویر کا ذریعہAustralian News and Information Bureau

،تصویر کا کیپشن

نیڈ کیلی گینگ کو پکڑنے کے لیے انعام کا اشتہار

نیڈ کیلی کا موازنہ دلا بھٹی سے کیوں کیا گیا؟

اگرچہ مغرب میں نیڈ کیلی کو آسٹریلیا کا رابن ہڈ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ان زندگی پر تحقیق کی جائے تو ان کی زیادہ مشابہت پنجاب کے باغی ہیرو رائے عبداللہ بھٹی المشہور دلا بھٹی سے ہے۔

دلا بھٹی کے والد اور دادا کو شہنشاہ اکبر کے دور میں پھانسی دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں شہنشاہ اکبر کے دینِ الٰہی کے سخت مخالف تھے۔

آسٹریلیا کی جھاڑیوں اور جنگلوں کی طرح جہاں نیڈ کیلی پلے بڑھے تھے، دلا بھٹی بھی پنجاب کے ساندل بار کے علاقے میں اپنے باپ کی موت کے 12 دن بعد پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ ساندل بار کا علاقہ اس وقت جنگلوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ دلا بھٹی نے بھی تمام عمر مغلوں کے خلاف علمِ بغاوت اٹھائے رکھا، کچھ کے لیے وہ ڈاکو اور کچھ کے لیے مسیحا سمجھے جاتے تھے۔ وہ امیروں کو لوٹتے اور غریبوں کی مدد کرتے۔ یہ سلسلہ ان کی موت تک جاری رہا۔

بالآخر وہ بھی پکڑے گئے اور 26 مارچ 1599 میں انھیں لاہور میں پھانسی دی گئی اور لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں لوگ آج بھی ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے آتے ہیں۔

نیڈ کیلی کی طرح دلا بھٹی کی زندگی پر بھی کتابیں، ڈرامے اور ایک مشہور فلم بھی بن چکی ہے اور ان کا ذکر پنجابی لوک شاعری اور موسیقی میں ملتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.