hookup Stafford CT carolina sweets hookup hotshot black gay hookup hookup Uniondale

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

وہ دیوہیکل ایٹم بم جو اپنے سائز کی وجہ سے استعمال نہ کیا جا سکا

’زار بومبا‘: سوویت یونین کا وہ پہاڑ جیسا ایٹم بم جس کا کوئی استعمال نہیں تھا

  • سٹیفن ڈولنگ
  • بی بی سی فیوچر

جوہری دھماکہ

،تصویر کا ذریعہunknown

30 اکتوبر 1961 کے دن روس کے شمال میں جزیرہ نما کولا میں موجود اولینیا ائیر فیلڈ سے ایک سوویت ’تو-95‘ بمبار طیارے نے پرواز بھری۔

’تو 95‘ ایک خاص طرز پر بنایا گیا بمبار طیارہ تھا جسے کچھ عرصے قبل ہی سوویت یونین کے فضائی بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا، مڑے ہوئے پنکھوں اور چار انجنوں پر مشتمل ایک ایسا طیارہ تھا جسے روس کے ایٹمی بموں کی ترسیل کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

اکتوبر 1961 سے پہلے کی دہائی میں سوویت ایٹمی تحقیق میں بہت زیادہ پیش رفت ہوئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین ایک ہی کیمپ میں تھے لیکن جنگ کے بعد کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری اور جمود دیکھنے میں آیا۔

اور سوویت یونین، جو اس وقت دنیا کی واحد ایٹمی سپر پاور یعنی امریکہ کے خلاف تھا، اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ جلد از جلد یہ صلاحیت حاصل کرے۔

یہ بم آٹھ میٹر لمبا تھا اور اس کا قطر تقریباً 2.6 میٹر تھا جبکہ اس کا وزن 27 ٹن سے زیادہ تھا۔ یہ بم دیکھنے میں ’لٹل بوائے‘ اور ’فیٹ مین‘ بموں جیسا نظر آتا تھا، وہ بم جنھوں نے پندرہ برس قبل جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔

سوویت یونین کے اس بم کو اس وقت مختلف نام دیے گئے جیسا کہ پراجیکٹ 27000، پراڈکٹ کوڈ 202، آر ڈی ایس 220 اور کوزینکا میٹ لیکن اب یہ ’زار بومبا‘ یعنی ’زار کا بم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اگست 1949 کو سوویت یونین نے موجودہ قازقستان کے دور درواز علاقوں میں اپنے پہلے جوہری ہتھیار کا تجربہ کیا تھا۔ مغربی ممالک میں یہ تجربہ ’جو-ون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے لیے امریکہ کے ایٹمی پروگرام میں دراندازی کے ذریعے حاصل ہونے والی خفیہ معلومات کو استعمال کیا گیا تھا۔

زار بومبا

،تصویر کا ذریعہScience Photo Library

،تصویر کا کیپشن

زار بومبا کے ماڈل کی ایک تصویر جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایٹم بم کس قدر بڑا تھا

درمیانی برسوں میں سوویت یونین کے تجرباتی پروگرام میں تیزی سے اضافہ ہوا اور صرف سنہ 1958 میں سوویت یونین نے 36 ایٹمی بموں کے تجربے کیے لیکن سوویت یونین کے اس تجربے کا موازنہ کسی اور چیز سے نہیں کیا جا سکتا۔

’تو 95‘ میں ایک بہت بڑا بم رکھا گیا تھا، یہ بم اتنا بڑا تھا اس طیارے میں اس طرح کے گولہ بارود کے لیے مختص جگہ پر اس کا فٹ آنا مشکل تھا۔

زار بومبا کوئی عام جوہری بم نہیں تھا بلکہ سویت سائنسدانوں کی ان زبردست کاوشوں کا حاصل تھا جن کا مقصد اپنے دور کا سب سے طاقتور ایٹم بم بنانا تھا۔ سوویت سائنسدانوں کو اس کی تحریک اپنے وزیراعظم نکیتا خروشیف کی اس خواہش سے ملی تھی کہ سوویت یونین ایک ایسا جوہری ہتھیار بنائے کہ دنیا سوویت یونین کی طاقت کا سوچ کر ہی کانپ جائے۔

زار بومبا دھات کا ایک دیو تھا جسے دنیا کے سب سے بڑے جنگی طیارے میں بھی شاید نہ رکھا جا سکتا۔ یہ پورے شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھا، ایک ایسا ہتھیار جو جنگ میں آخری حربے کے طور ہر استعمال کیا جا سکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چمکدار سفید رنگ میں رنگا ہوا توپولیو (تو-95) اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا اور یہ مقام نوویا زیملیا تھا جو سوویت یونین کے برفیلی شمالی کنارے پر واقع جگہ ہے جہاں دور دور تک انسانی آبادی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ توپولیو کے پائلٹ میجر آندرے دونوسوف تھے جو اس جہاز کو سطح سمندر سے 34 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس مقام تک لائے تھے جہاں سوویت یونین نے اپنے پہلے جوہری بم کا تجربہ کرنا تھا۔

’تو 16‘ قسم کا ایک چھوٹا بمبار طیارہ بھی اس دیوہیکل جہاز کے ساتھ ساتھ اڑتا ہوا یہاں پہنچا تھا جس کا کام اس جوہری دھماکے کی فلم بنانے کے علاوہ یہ تھا کہ وہ دھماکے کے بعد وہاں سے اٹھنے والے غبار پر نظر رکھے۔

زار بومبا

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

زار بومبا سے اتنی توانائی خارج ہوئی تھی کے یقین نہیں آتا

یہ ممکن بنانے کے لیے کہ طیارے جوہری دھماکے کے اس مشن میں محفوظ رہیں، زار بومبا کو ایک بہت بڑے پیراشوٹ کے ذریعے طیارے کے ساتھ لٹکایا گیا تھا اور اس پیراشوٹ کا وزن ایک ٹن کے قریب تھا۔ پروگرام کے مطابق اس بم نے آہستہ آہستہ زمین کے طرف آنا تھا اور جب یہ 13 ہزار فٹ کی مقررہ بلندی تک پہنچے گا تو پھٹ جائے گا۔ اس وقت تک دونوں بمبار طیارے اس مقام سے 50 کلومیٹر آگے جا چکے ہوں گے۔ منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ جب یہ طیارے اتنی دور پہنچ چکے ہوں گے تو وہ جوہری دھماکے کے اثرات سے محفوظ رہیں گے۔

زار بومبا کا تجربہ ماسکو کے وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 32 منٹ کیا گیا تھا۔ ایک ہی لمحے میں وہاں سے آگ کا ایک شعلہ لپکا جو پانچ میل چوڑا تھا۔ جب دھماکہ ہوا تو اس میں تیزی سے نکلنے والی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ اسے ایک ہزار کلومیٹر دور سے دیکھا جا سکتا تھا۔

دھماکے سے کھُمبی یا مشروم کی شکل کے دھوئیں کا جو بادل بنا وہ پھیلتے پھیلتے 64 میل کی بلندی تک جا پہنچا۔ اگر اسے دور سے دیکھا جا سکتا تو یقیناً یہ ایک حیران کن منظر ہوتا۔

اس علاقے میں اس دھماکے کے اثرات تباہ کن تھے۔ دھماکے کے مقام یا گراؤنڈ زیرو سے تقریباً 55 کلومیٹر دور سیورنی نامی گاؤں میں تمام مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ اور یہاں سے سینکڑوں کلومیٹر دور سوویت یونین کے مختلف قصبوں میں مکانات گرنے، گھروں کی چھتیں اڑ جانے، اور دروازے کھڑکیاں ٹوٹ جانے کی متعدد اطلاعات ملیں۔ اس کے علاوہ پورے علاقے میں ریڈیو کی نشریات میں ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک خلل موجود رہا۔

یہ بڑے طیارہ ٹوپولیو کی خوش قسمتی تھی کہ اس دھماکے میں بچ گیا کیونکہ یہ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ اس نے طیارے کو ایک ہزار میٹر اوپر دھکیل دیا اور پائلٹ کو اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں واپس لینے میں وقت لگا۔

یہ ایٹمی دھماکہ دیکھنے والے سوویت یونین کے ایک کیمرا مین کا کہنا تھا: ’دھماکے سے روشنی کا اتنا بڑا گولہ برآمد ہوا کہ طیارے کے نیچے موجود بادل اور ارد گرد کا تمام علاقہ روشنی میں نہا گیا۔ نیچے روشنی کا ایک اتنا بڑا سمندر تھا کہ گہرے (سیاہ بادل) بھی اس میں روشن ہو گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہمارا طیارہ بادلوں کی دو تہوں کے درمیان سے ابھر رہا تھا اور ہمارے نیچے خالی جگہ پر ایک بہت آگ کا روشن گولا اوپر اٹھ رہا تھا۔ آگ کا یہ بگولا سیارے مشتری کی طرح طاقتور اور مغرور لگ رہا تھا۔ خاموشی سے یہ نارنجی رنگ کا بہت بڑا غبارہ اوپر کو آتا گیا اور بادلوں کی دبیز تہوں کو توڑتا ہوا یہ بڑا ہوتا گیا۔ لگتا تھا اس نے پوری زمین اپنے اندر نگل لی تھی۔ ایک زبردست، غیر حقیقی، مافوق الفطرت منظر۔‘

تو 95 طیارہ

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

زار بومبا کو فضا میں دھماکے کے مقام تک پہنچانے کے لیے ’تو 95‘ بمبار طیارے کا ایک خصوصی ماڈل بنایا گیا تھا

زار بومبا سے اتنی توانائی خارج ہوئی تھی کہ یقین نہیں آتا۔ اور اب لوگ کہتے ہیں کہ یہ 57 میگا ٹن توانائی تھی، دوسرے الفاظ میں پانچ لاکھ 70 ہزار ٹی این ٹی کے برابر۔ یہ توانائی ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کی مجموعی توانائی سے 1500 گنا زیادہ تھی اور جنگ عظیم دوئم میں گرائے جانے والے تمام بموں کی مجموعی توانائی سے دس گنا زیادہ۔ سینسرز کی مدد سے معلوم ہوا کہ اس دھماکے سے اٹھنے والی لہر نے ختم ہونے سے پہلے زمین کے گرد ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ تین مرتبہ چکر لگایا۔

یہ ایک ایسا دھماکہ تھا جسے دنیا سے پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ایٹمی دھماکے کے مقام سے دسیوں کلومیٹر دور امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ موجود تھا۔ اس میں ایک خاص آلہ لگا ہوا تھا جس سے کہیں دور دراز ہونے والے جوہری دھماکے کا بھی پتہ لگایا جا سکتا تھا۔ اس جاسوس طیارے (جسے سپیڈ لائیٹ کا خفیہ نام دیا گیا تھا) کی مدد سے پراسرار دھماکے کے بارے میں اعداد وشمار جمع کیے گئے تھے۔

سوویت یونین کے اس جوہری دھماکے کے فوراً بعد بین الاقوامی سطح پر مذمت شروع ہو گئی۔ مذمت کرنے والوں میں صرف امریکہ اور برطانیہ ہی شامل نہیں تھے بلکہ اس میں سویڈن جیسے سوویت یونین کے کچھ پڑوسی ممالک بھی شامل تھے۔ اس دھماکے سے اٹھنے والے غبار کی ایک ہی بات اچھی تھی، چونکہ آگ زمین کی سطح تک نہیں پہنچی تھی اس لیے اس سے نکلنے والی تابکاری کی مقدار حیرت انگیز طور پر کم رہی۔

صورتحال اس سے بہت مخلتف بھی ہو سکتی تھی، لیکن زار بومبا کے دھماکے کے اثرات کو قدرے لگام ڈالنے کے لیے اس کے ڈیزائن میں جو تبدیلی کی گئی تھی، اگر وہ نہ کی جاتی تو یہ دوگنا طاقت سے پھٹتا۔

یہ طاقتور جوہری بم بنانے والوں میں ایک سوویت ماہرِ طبعیات، آندرے سخاروف بھی شامل تھے۔ یہ وہ شخص تھے جو بعد میں بہت مشہور ہوئے کیونکہ انھوں نے دنیا کو ہر اُس ہتھیار سے نجات دلانے کی کوشش کی تھی جس کے بنانے میں اُن کی مدد شامل تھی۔ وہ آغاز سے ہی سوویت یونین کے ایٹمی بم بنانے کے پروگرام کے ایک سرکردہ رکن تھے اور اس ٹیم میں بھی شامل تھے جس نے سوویت یونین کے ابتدائی ایٹمی بم بنائے تھے۔

آندرے سخاروف

،تصویر کا ذریعہScience Photo Library

،تصویر کا کیپشن

آندرے سخاروف سوویت یونین کی ایٹم بم بنانے والی ٹیم کے ایک سرکردہ رکن تھے

سخاروف نے ایک ایسے ایٹم بم پر کام شروع کر دیا تھا جو اوپر کی تہیں پھٹنے کے بعد اپنے مرکز سے مزید توانائی خارج کر سکے۔ سخاروف نے اسے سلوایکا یا ’تہہ دار کیک‘ کا نام دیا تھا۔ ان کی اس ایجاد سے سوویت یونین کو اپنا پہلا ہائیڈروجن بم بنانے میں بہت مدد ملی۔

خروشیف نے سخاروف کو کہا تھا کہ وہ ایسا بم بنائیں جو اس سے پہلے دنیا میں ٹیسٹ کیے جانے والے تمام جوہری بموں سے زیادہ طاقتور ہو۔

صدر بِل کلنٹن کی انتظامیہ میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے پروگرام کے سربراہ فِل کوئل کے مطابق سوویت یونین دکھانا چاہتا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکہ سے آگے نکل سکتا ہے ’لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے امریکی بموں کی تیاری کے دوران امریکہ اتنا کام کر چکا تھا کہ وہ پہلے ہی سوویت یونین سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ اس کے علاوہ جب سوویت یونین نے فضا میں صرف ایک جوہری تجربہ کیا تھا، امریکہ اس سے پہلے ایسے کئی تجربے کر چکا تھا۔‘

’ہم ان سے آگے تھے، لیکن سوویت یونین کچھ ایسا کر کے دکھانے کی کوشش کر رہا تھا جس سے دنیا اسے بھی (ایک بڑی جوہری طاقت) تسلیم کرے۔ زار بومبا بنانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا دنیا اٹھ کھڑی ہو اور دیکھ لے کہ سوویت یونین (امریکہ کے) برابر ہے۔‘

زار بومبا کی شکل میں سوویت یونین ایک اتنا زیادہ طاقتور جوہری بم بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا جسے وہ اس کی پوری طاقت کے ساتھ ٹیسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اور اس تباہ کن ہتھیار میں صرف یہی ایک مسئلہ تھا۔

تو-95 بمبار طیارے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے لیے بنائے گئے تھے لیکن زار بومبا حجم میں اتنا بڑا تھا کہ اسے ان طیاروں پر لگے کسی میزائل پر نہیں رکھا جا سکتا تھا اور اس کا وزن بھی اتنا زیادہ تھا کہ تو-95 طیارہ اپنا تمام ایندھن خرچ کرنے کے باوجود بھی بم کو اس کے ہدف تک نہیں پہنچا سکتا تھا۔اور اس بم کو اگر اتنا ہی بڑا دھماکہ کرنا تھا جو سوویت یونین چاہتا تھا، تو یہ طیارہ بم دھماکے کے بعد صحیح سلامت واپس نہیں آ سکتا تھا۔

صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں شامل رہنے والے اور آج کل جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم، سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پولیفریشن کے سرکردہ رکن، کوئل سوال کرتے ہیں کہ جب جوہری ہتھیاروں کی بات ہوتی ہے تو کیا اس میں کسی کو یہ فکر ہونی چاہیے کہ یہ ہتھیار بہت زیادہ طاقتور تو نہیں۔

ان کے بقول ’اگر آپ (دشمن کے) ہر بڑے شہر کو تباہ نہیں کرنا چاہتے تو اس کے علاوہ کسی جوہری ہتھیار کا اور کیا استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر اتنا بڑا بم تو استعمال ہونے سے رہا۔‘

امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی امور کے ماہر اور ماہرِ طبیعات، فرینک وان ہِپل بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ (بڑے جوہری ہتھیار) بنائے ہی اسی لیے گئے تھے کہ اگر آپ کسی چیز کو مکمل تباہ کرنا چاہتے ہیں تو ان ہتھیاروں کی مدد سے ایسا کر سکیں۔ (لیکن) پھر میزائل ٹیکنالوجی میں ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کے آنے کے بعد چیزیں کسی اور سمت میں نکل گئیں ہیں۔‘

زار بومبا کے تجربے کے اثرات اس سے بھی کہیں زیادہ تھے۔ اس ٹیسٹ سے اتنا بڑا دھماکہ ہوا کہ سنہ 1963 کے بعد فضا میں جوہری تجربوں کے خاتمے کی باتوں میں تیزی آ گئی۔ مسٹر وان ہِپل کے بقول اس بم کے تجرنے سے ’اتنی زیادہ تابکار کاربن خارج ہوئی تھی کہ سخاروف بہت زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔‘

چنانچہ سنہ 1963 میں جب جوہری ہتھیاروں کے تجربات پر جزوی پابندی کے معاہدے کا وقت آیا تو سخاروف نے اس کی بہت حمایت کی اور وہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے بہت بڑے ناقد رہے۔ اس کے علاوہ جب سنہ 1960 کے عشرے کے آخری برسوں میں اینٹی میزائل سسٹمز لگانے کی بات ہوئی تو انھیں خوف تھا کہ اس سے دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ یوں سوویت یونین کی ریاست ان کے خلاف ہوتی گئی اور پھر سنہ 1975 میں انھیں امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔

لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیار یعنی زار بومبا کے تجربے کے اثرات وہ نہیں نکلے جن کی توقع کی جا رہی تھی اور یہ بم جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافے کی بجائے ان ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا سبب بن گیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.