افغانستان میں آپریشنز کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ’ایسا کوئی معاہدہ نہیں‘
- فرحت جاوید
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے دفتر خارجہ نے سنیچر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کو افغانستان میں عسکری اور انٹیلی جنس آپریشن کے لیے استعمال کرنے سے متعلق امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ذرائع سے یہ خبر شائع کی تھی کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں آئی ایس اور دیگر دشمنوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان اپنی فضائی حدود دینے کے حوالے سے باقاعدہ معاہدے کے لیے تیار ہے۔
تاہم پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس خبر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایسی کوئی ‘انڈرسٹینڈنگ‘ موجود نہیں ہے تاہم امریکہ اور پاکستان کے درمیان علاقائی سیکیورٹی اور انسدادِ دہستگردی کے حوالے سے طویل المدتی تعاون جاری ہے اور دونوں ممالک وقتا فوقتاً مشاورت کرتے ہیں۔
سی این این کی خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بارے میں امریکی اراکین کانگریس کو گذشتہ روز آگاہ کیا گیا۔
خبر کے مطابق ’پاکستان نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایم او یو پر دستخط کرے گا جو کہ پاکستان میں انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں اور انڈیا کے ساتھ تعلقات میں مدد سے مشروط ہے تاہم سی این این کے تین ذرائع میں سے ایک کے مطابق مذاکرات جاری ہیں اور معاہدہ، جو ابھی فائنل نہیں ہوا، کی شرائط میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔‘
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان علاقائی سلامتی اور انسداد دہشتگردی سے متعلق امور پر طویل عرصے سے تعاون چلا آرہا ہے۔اور دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ مشاورت جاری رہتی ہے۔
پاکستان اور امریکہ میں فضائی حدود تعاون کا فریم ورک
واضح رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فضائی حدود کے استعمال سے متعلق تعاون کے لیے ایک فریم ورک پہلے سے ہی موجود ہے۔
اس سے قبل جون میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان کے درمیان اے ایل او سی یعنی ایئرلائنز آف کمیونیکیشن اور جی ایل او سی یعنی گراؤنڈ لائنز آف کمیونکیشن سے متعلق فریم ورک 2001 سے ہی موجود ہے اور یہ کہ اس بارے میں کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا جا رہا۔
تاہم یہ بھی اہم ہے کہ اس وقت یہ بات چیت فوجی اڈوں تک امریکی رسائی کے معاملے پر کی جا رہی تھی۔
امریکی سینیٹ کے سربراہ نے رواں برس مئی میں بیان دیا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں القاعدہ، نام نہاد دولت اسلامیہ اور دیگر دہشتگرد گروہ نئے سرے سے منظم ہو سکتے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو ایک ’کوئیک رسپانس فورس‘ خطے میں رکھنا ہو گی۔
اس بیان کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکہ پاکستان سمیت خطے کے چند دیگر ممالک سے اس معاملے پر بات چیت کر رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس وقت ایچ بی او Axios کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو کسی دوسرے ملک میں کارروائی کے لیے ہرگز فوجی اڈے نہیں دے گا۔
اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایوان بالا میں کہا تھا کہ امریکہ کو افغانستان کی سرزمین پر ڈرون آپریشنز کے لیے کوئی فوجی اڈہ دیا جا رہا ہے نہ کوئی ایئربیس۔
تاہم یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فوجی اڈوں اور لائنز آف کمیونکیشن یعنی زمینی اور فضائی راستے فراہم کرنے میں فرق ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان فضائی تعاون پر ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر رؤف حسن نے کہا ہے کہ سنہ 2001 کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان اے ایل او سی اور جی ایل او سی کے لیے تعاون کے باقاعدہ معاہدے ہوئے تھے۔
اس سے قبل سابق سفارتکار ضمیر اکرم نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان معاہدوں کے مطابق اے ایل او سی کے تحت امریکہ کو فضائی اڈے، فضائی حدود اور جی ایل او سی کے تحت زمینی راستے استعمال کرنے کی اجازت ملی تھی۔
اے ایل او سی یعنی فضائی حدود سے متعلق تعاون کے تحت امریکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے خلیج میں موجود اپنے ایئرکرافٹ کیریئرز اور اڈوں سے افغانستان میں جنگی اور لاجسٹیکل سپورٹ مشنز کی ٹرانسپورٹ کا کام کر رہا تھا۔
اسی طرح زمینی راستے یعنی جی ایل او سی بھی سامان کی ترسیل کے استعمال ہوتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے کون سے فضائی اڈے امریکی استعمال میں رہے
دوسری جانب فوجی اڈوں سے متعلق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ معاہدے دہشت گردی کی عالمی جنگ کے دوران ہوئے تھے اور اس دوران امریکہ بلوچستان میں خضدار کے نزدیک واشک کے علاقے میں قائم شمسی ائیربیس اور سندھ کے جیک آباد میں واقع شہباز ائیربیس کو استعمال کرتا رہا ہے۔
ان دونوں ہوائی اڈوں سے امریکہ کے طیارے اڑا کرتے تھے جبکہ شمسی ائیربیس کو امریکی ڈرون حملوں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق شہباز ائیربیس کو تو سنہ 2011 سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا مگر شمسی ائیربیس کو امریکہ کی جانب سے نومبر 2011 میں مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد بند کیا گیا تھا۔
شجاع نواز اپنی کتاب ’بیٹل فار پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ سلالہ حملے کے بعد پاکستان نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تجویز پر فوری طور پر امریکہ کے لیے جی ایل او سی یا زمینی راستہ بند کر دیا تھا۔
یوں نومبر 2011 سے جولائی 2012 تک زمینی راستہ تو بند رہا تاہم فضائی راستہ کھلا رہا تھا اور یوں امریکہ افغانستان میں اپنی جنگ جاری رکھے تھا اگرچہ اس کی اب بڑی قیمت ادا کرنا پڑ رہی تھے۔
واضح طور پر پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس وقت امریکہ نے نادرن ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک کا استعمال شروع کیا اور اس کے تقریباً پچاسی فیصد سامان کی ترسیل کے لیے یہ رستہ استعمال ہونے لگا۔ امریکہ کو ماہانہ سو ملین ڈالر کا خرچ اٹھانا پڑا جبکہ پاکستان کے ساتھ زمینی راستے میں یہ اخراجات سترہ ملین ڈالر تھے۔
بعد میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے سلالہ واقعے کی معافی مانگنے کے بعد زمینی راستہ دوبارہ کھول دیا گیا تھا تاہم اس تمام عرصے کے دوران امریکہ نے بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم روکنا شروع کر دی تھی۔
پاکستان اے ایل او سی یعنی فضائی حدود کے استعمال پر بھی امریکہ سے پیسے نہیں وصول کر رہا تھا۔
شجاع نواز لکھتے ہیں کہ سنہ 2018 میں پاکستان کے عسکری حکام نے یہ بتانا شروع کیا کہ افغان جنگ کے دوران تقریباً دو ملین امریکی اور نیٹو پروازوں نے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کی۔ اتنی پروازوں کی قیمت کمرشل بنیاد پر ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر بن سکتی تھی۔
Comments are closed.