جنوبی کوریا: ایئر فورس کی آفیسر کی موت، 15 افراد پر فردِ جرم عائد
جنوبی کوریا کی فوج پر خاتون آفیسرز کو تحفظ نہ فراہم کرنے پر تنقید ہوتی رہی ہے: فائل فوٹو
جنوبی کوریا میں فضائیہ کی ایک افسر کی موت پر پندرہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ مذکورہ خاتون افسر نے اپنے ایک ساتھی پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا اور بعد میں خود کشی کر لی تھی۔
جنوبی کوریا کی فضائیہ کے دیگر درجنوں عہدیداروں کو بھی اس کیس پر پردہ ڈالنے اور دیگر معاملات کے حوالے سے انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس واقعہ کی وجہ سے عوام میں بہت غصہ پایا جاتا تھا اور فضائیہ کے سربراہ نے جون میں اسی وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
دریں اثناء ایک اور عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ فوج نے ایک ٹرانسجینڈر فوجی کے ساتھ غیر قانونی طور پر امتیازی سلوک کیا اور اسے فوج چھوڑنے پر مجبور کیا جس کے بعد وہ اپنے گھر میں مردہ پائی گئیں۔
ابھی تک سرکاری طور پر جنوبی کوریا کی پہلی ٹرانسجینڈر فوجی بیون ہی سو کی موت کی وجہ نہیں بتائی گئی ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی جان خود لی تھی۔
جنوبی کوریا کی فوج پر کئی سالوں سے اپنی خاتون اہلکاروں کو تحفظ نہ فراہم کرنے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
فوج میں جنسی زیادتی کے متعدد الزامات سامنے آنے کے بعد قانون سازوں نے اس سال ایسا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت اس طرح کے مقدمات کو سویلین عدالتوں کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
’بھاری ذمہ داری‘
مارچ میں ایئر فورس کی ماسٹر سارجنٹ رات کے کھانے کی ایک دعوت سے فارغ ہو کر کار میں واپس اڈّے کی طرف آ رہی تھیں جب ایک مرد ساتھی نے انھیں مبینہ طور پر گاڑی ہی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے اس معاملے کی اطلاع اپنے اعلیٰ افسران کو دی تھی، لیکن بعد میں تفتیش سے معلوم ہوا کہ افسران نے واقعے کو چھپانے کی کوشش کی اور انھیں ایک ساتھی کے ساتھ نجی رہائش گاہ پر رہنے پر مجبور بھی کیا۔
انھوں نے مئی میں خود کشی کر لی تھی۔
مِس بیون کے معاملے نے فوج میں ٹرانس جینڈر ملازمین کے ساتھ سلوک پر سوال اٹھا دیے تھے
صدر مون جے ان نے اس معاملے پر قوم سے معافی مانگی اور چیف آف سٹاف جنرل لی سیونگ۔یونگ کا استعفیٰ قبول کیا، جنھوں نے کہا تھا کہ وہ افسر کی موت کی ’بھاری ذمہ داری‘ اٹھاتے ہیں۔
جون میں ایک مرد ماسٹر سارجنٹ کو زیادتی کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
آفیسر کو انصاف دلانے اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ایک درخواست پر دسیوں ہزار افراد نے دستخط کیے جس کے بعد صدر مون نے تحقیقات کا حکم دیا۔
ملزمان کے علاوہ بھی درجنوں افراد انضباطی کارروائی کا سامنا کریں گے۔
یہ بھی پڑھیئے
جن معاملات پر کارروائی ہو گی ان میں کیس پر پردہ ڈالنے کی کوشش، خاتون پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کے ساتھ نجی تصفیہ کرے اور شواہد کو تباہ یا لیک کرنا شامل ہے۔
’برطرف کرنے کی کوئی بنیاد نہیں‘
ایک اور مقدمے میں سیول کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ سٹاف سارجنٹ بیون ہی سو کو غلط طریقے سے ملازمت سے فارغ کیا گیا تھا اور ان کی برطرفی کو کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔
آذربائیجان کی ایک ٹرانسجینڈر عورت کی کہانی جس کے سر کے بال مونڈ دیے گئے
فیصلے میں کہا گیا کہ جنس کی تبدیلی کے لیے ان کی سرجری کو فوج کی طرف سے معذوری کی درجہ بندی میں لانا ان کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک تھا۔
23 سالہ سٹاف سارجنٹ بیون نے گزشتہ سال جنوری میں فوج کے خلاف ایک تاریخی قانونی چیلنج اس وقت شروع کیا تھا جب خواتین کے لیے مخصوص کور میں ان کے تبادلے کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی اور انھیں برخاست کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے اس سال مارچ میں خود کشی کر لی تھی۔
ڈیجیون ڈسٹرکٹ کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسی کوئی ذہنی یا جسمانی معذوری کی بنیاد نہیں تھی جس کی وجہ سے انھیں برخاست کیا جاتا۔
ٹرانسجینڈر افراد کو جنوبی کوریا کی فوج میں شامل نہیں کیا جاتا، لیکن فوج میں موجود اہلکاروں کے صنفی تفویض کے آپریشنز سے متعلق کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے حالیہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نے جنسی اقلیتوں میں امید کی بنیاد فراہم کی ہے۔
Comments are closed.