دولت اسلامیہ: جرمنی اور ڈنمارک نے شدت پسند گروہ میں شامل ہونے والی 11 خواتین، 37 بچوں کو وطن واپس بلا لیا
جرمنی اور ڈنمارک نے ایک مشترکہ آپریشن کے تحت شام کی ایک کیمپ میں قید 37 بچوں اور 11 خواتین کو وطن واپس بُلا لیا ہے۔ ان گیارہ خواتین ماضی میں اپنے اپنے ملک سے فرار ہو کر شدت پسند گروہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے جا ملیں تھیں۔
ان میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی آٹھ خواتین اور 23 بچے ہیں جبکہ تین خواتین اور 14 بچوں کا تعلق ڈنمارک سے ہے۔
جرمنی کے وزیر داخلہ ہیکو ماس کے مطابق شمالی شام میں ایک کیمپ میں رکھے جانے والی ان خواتین کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ یورپ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی افراد بشمول خواتین نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بیشتر یورپی خواتین نے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے شادیاں کر لی تھیں جس کے بعد اُن کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔
مارچ 2019 میں دولت اسلامیہ کو شام اور عراق میں ہونے والی شکست کے بعد ایسے یورپی شہریوں کو دیگر ہزاروں افراد کے ہمراہ شمالی شام میں کردوں کی جانب سے قائم کیے گیے کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔
جرمنی کے وزیر داخلہ نے کہا کہ جرمن خواتین اور بچے بدھ کے روز روج کیمپ سے وطن واپس پہنچے ہیں۔
فائل فوٹو
جرمن وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ ’خوش‘ ہیں کہ یہ لوگ جرمنی واپس آ گئے ہیں تاہم ‘ان ماؤں (خواتین) کو اپنے اعمال کے جواب دینے ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خواتین کے ہمراہ وطن واپس لوٹنے والے بچے اس صورتحال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ان کو تو مزید تحفظ کی ضرورت ہے۔‘
شامی کیمپوں میں موجود ان خواتین اور بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں یا ان کی حمایت کرنے والوں کی بیویاں اور انھی کے بچے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیوں نے کئی بار یورپی حکومتوں کو کہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس لیں اور زور دیا کہ اگر خواتین اور بچے ان کیمپوں میں مزید رہے تو اس کے باعث نہ صرف وہ بیمار ہو سکتے ہیں بلکہ شدت پسند بھی بن سکتے ہیں۔
گذشتہ برس دسمبر میں جرمنی نے 18 بچے اور پانچ خواتین کو فن لینڈ کے ساتھ ایک مشترکہ آپریشن میں واپس بلوا لیا تھا جبکہ بیلجیئیم نے جولائی میں چھ خواتین اور 10 بچے بلوائے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
اکثر یورپی ممالک ان افراد کو واپس بلوانے کے لیے انفرادی طور پر کیسز کو دیکھتے ہیں لیکن کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو سکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنے شہریوں کو وطن واپس بلانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
اس کی ایک واضح مثال برطانیہ سے تعلق رکھنے والی شمیمہ بیگم کی ہے جو ایک سکول کی طالبہ تھیں جب انھوں نے 2015 میں شام کا سفر کیا اور دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔
جرمنی کے وزیر داخلہ ہیکو ماس
فروری 2015 میں شمیمہ بیگم 15 برس کی تھیں جب وہ مشرقی لندن کی دو مزید لڑکیوں کے ساتھ دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے شام چلی گئیں۔
شمیمہ بیگم ترکی کے راستے رقہ میں دولت اسلامیہ کے ہیڈکوارٹرز پہنچی تھیں اور وہاں انھوں نے ایک ولندیزی یا ڈچ شخص سے شادی کر لی تھی اور وہ تین سال سے زیادہ عرصے تک نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے زیر اقتدار علاقوں میں رہیں۔
پھر فروری 2019 میں معلوم ہوا کہ وہ ایک شامی پناہ گزین کیمپ میں ہیں، اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ ان کا پیدا ہونے والا بچہ بعد میں نمونیہ کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اس موقع پر شمیمہ بیگم نے بتایا تھا کہ اس سے پہلے بھی ان کے دو بچوں کی موت ہو چکی ہے۔
سنہ 2019 میں اس وقت کے برطانوی وزیرِ داخلہ ساجد جاوید نے قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر ان کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی تھی اور وہ آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔
شمیمہ بیگم
دہشت گردی میں خواتین کا کردار
پُرتشد واقعات میں خواتین کے فعال کردار اور ان میں اپنی مرضی سے ملوث ہونے کے بارے میں بہت سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔
سنہ 2019 میں رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ سے بھرتی ہونے والے انتہا پسندوں میں سے 17 فیصد خواتین ہوتی ہیں، جبکہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق عراق اور شام میں مقیم غیر ملکی جنگجوؤں میں سے بھی 13 فیصد خواتین ہیں۔
رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹیٹیوٹ اور دیگر اداروں نے دولت اسلامیہ اور الشباب جیسی شدت پسندوں تنظیموں میں خواتین کے کردار کے بارے میں تحقیق کی ہے۔
شدت پسند گروپوں میں خواتین کی بھرتی کی کافی وجوہات ہیں۔
خاص طور پر خواتین کے حوالے سے اپنائے گئے ہتھکنڈے جیسا کہ صنفی کرداروں میں واپس آنے کی اپیل بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔
دیگر خواتین بظاہر ملازمتوں کی فراہمی کے وعدوں، پیسہ اور دیگر مواقعوں کی وجہ سے بھی اس جانب راغب ہوتی ہیں۔
تاہم ان خواتین کی شدت پسند گرہوں میں شمولیت کی اصل وجوہات کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ متعدد خواتین جن کے انٹرویوز کیے گئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے بھرتی نہیں ہوئی تھیں۔
Comments are closed.