آذربائیجان، اسرائیل تعلقات: اکثریتی شیعہ آبادی ہونے کے باوجود آذربائیجان ایران کے بجائے اسرائیل کے زیادہ قریب کیوں ہے؟
آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای
آرمینیا کی اکثریتی آبادی مسیحیت کی پیروکار ہے تاہم پھر بھی یہ شیعہ اکثریتی ملک ایران کے قریب ہے۔
آذربائیجان کی اکثریتی آبادی شیعہ مسلک کی پیروکار ہے تاہم یہ ایران کے بجائے اسرائیل کے زیادہ قریب ہے۔
پیر کو ایران اور آرمینیا کے وزرائے خارجہ کی تہران میں ملاقات ہوئی۔ ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے آرمینیا کے وزیرِ خارجہ ارارت مرزویان سے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بات چیت کی۔
آرمینیا کے وزیرِ خارجہ ایران کے دو روزہ دورے پر ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان ایران اور آرمینیا کو سڑک کے ذریعے منسلک کرنے کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل سرحد ہے اور دونوں کے تعلقات بھی کافی پرانے ہیں۔
ایران میں بڑی تعداد میں آرمینیائی لوگ بھی آباد ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایران میں کووڈ ویکسین کی قلت کے باعث ایران سے لوگوں کی بڑی تعداد نے آرمینیا جا کر ویکسین لگوائی ہے۔
آذربائیجان بھی ایران کا پڑوسی ملک ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان رواں سال ناگورنو قراہباخ کے علاقے کی ملکیت کے معاملے پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔
اس جنگ میں ایران غیر جانبدار رہا اور دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوشش کرتا رہا تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایران خفیہ طور پر آرمینیا کی مدد کر رہا تھا۔
ایران کے ساتھ تناؤ
ایران اور آذربائیجان کے درمیان حالیہ دنوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
آذربائیجان نے حال ہی میں ترکی اور پاکستان کے ساتھ ایرانی سرحد سے صرف 500 کلومیٹر کی دوری پر فوجی مشقیں کی ہیں۔
سنہ 2013 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور آذربائیجان کے وزیرِ خارجہ علمار محمدیاروف کی ملاقات
اس کے علاوہ آذربائیجان نے گذشتہ دنوں ایرانی ٹرک ڈرائیورز کو بھی آرمینیا جانے سے روکتے ہوئے دو ایرانی ٹرک ڈرائیورز کو حراست میں لے لیا تھا۔
علاوہ ازیں ایران کو آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربتوں پر بھی تحفظات ہیں۔
اس سب کے جواب میں یکم اکتوبر کو ایران نے شمال مغربی سرحد پر اپنی فوجی مشقیں شروع کر دیں۔
چند ہی دنوں میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی نے بھی اس علاقے میں اپنا ساز و سامان پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف نے کہا کہ وہ ایران کی فوجی مشقوں سے حیرت زدہ ہیں۔
الہام علیئیف نے کہا کہ ’ہر ملک کو اپنی سرحدوں کے اندر فوجی مشقیں کرنے کا حق ہے، یہ اُن کا حق ہے۔ مگر ایران یہ اس وقت کیوں کر رہا ہے اور ہماری سرحد پر کیوں کر رہا ہے؟’
ایران نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ ایسی فوجی مشق کی ہے۔
ایران حکام کا کہنا ہے کہ ایسی فوجی مشقیں اُن کا حق خودمختاری ہے مگر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران کو آذربائیجان میں اسرائیل کی موجودگی پر تحفظات ہیں۔ ایران اور آذربائیجان کے درمیان سرحد 700 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔
تہران میں 30 ستمبر کو آذربائیجان کے نئے سفیر سے ملاقات کے دوران ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا: ’ہم اپنے پڑوس میں یہودی قوم کی موجودگی اور ہماری قومی سلامتی کے خلاف اس کی سرگرمیاں برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اس کے خلاف ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔‘
آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان دوستی کیوں ہے؟
اسرائیل اور آذربائیجان کے درمیان سنہ 1992 سے سفارتی تعلقات موجود ہیں۔
ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اور آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف
یہ سفارتی تعلقات سوویت یونین سے آزادی کے صرف چھ ماہ بعد ہی قائم ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور آذربائیجان کا ایک مشترکہ مقصد ہے: ایران اور سیاسی اسلام پر نظر رکھنا۔
فروری 2012 میں اسرائیل نے آذربائیجان کو 1.6 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا اور اس کے بعد بھی اسرائیل کئی مرتبہ اس ملک کو اسلحہ فراہم کر چکا ہے۔
سنہ 2012 میں آذربائیجان میں اسرائیلی سفیر مائیکل لوتم نے کہا تھا: ’میرے خیال میں آذربائیجان اور ہمارا دنیا کو دیکھنے کا طریقہ یکساں ہے۔ ہم دونوں کو ہی مشترکہ مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں ایسے مسلمان ملک کی ضرورت ہے جو دوستانہ، ترقی پسند اور اسرائیل کی اہمیت کو سمجھنے والا ہو۔‘
اسی سال امریکی میگزین فارن پالیسی نے کہا تھا کہ آذربائیجان اور اسرائیل لوگوں کی اُمیدوں سے زیادہ قریب آ چکے ہیں۔ میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کوئی جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اسرائیل آذربائیجان کے ساتھ اس کی فضائی حدود سے متعلق ایک معاہدہ کر چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اگر ایسا ہے تو اسے اسرائیل کی سٹریٹجک فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے مگر اسرائیل نے اس کی تردید کی ہے۔ اس وقت آذربائیجان میں اسرائیلی سفیر نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
آذربائیجان کی اکثریتی آبادی شیعہ مسلک کی پیروکار ہے مگر یہاں کی حکومت کو سیکولر تصور کیا جاتا ہے۔
شام کے وقت آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے فاؤنٹینز سکوائر میں واقع ایک ریستوران میں گاہکوں کو ترک بیئر بھی پیش کی جاتی ہے۔ زیادہ تر خواتین حجاب میں نظر نہیں آتیں۔ باکو تہران کے بجائے تل ابیب کے جیسا محسوس ہوتا ہے۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن
باکو میں انڈیپینڈنٹ سینٹر فار نیشنل اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی ڈائریکٹر لیلیٰ علیئیفا نے بی بی سی کو بتایا: ’آذربائیجان نے قدرتی طور پر ایرانی اسلامی اثرورسوخ کو نیشن سٹیٹ کے لیے خطرہ سمجھ کر مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب آذربائیجان کے یہودی برادری سے اچھے تعلقات ہیں۔
مگر آذربائیجان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی حکومت کی اسرائیل سے دوستی کے خلاف ہیں۔
الگار ابراہیموغلو ایک عالم ہیں اور وہ آذربائیجان میں اسلام کے وسیع تر کردار کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ایران ایک مسلم ملک اور ہمارا پڑوسی ہے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ اگر یہ لائیو انٹرویو بھی ہوتا تو میں پانچ گھنٹوں تک یہی کہتا۔‘
مگر الگار اسرائیل کے بارے میں جارحانہ انداز میں بات کرتے ہیں۔ ’آذربائیجان کو فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کرنے والے ملک کا دوست نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیل ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ لبنان اور غزہ اور ایران میں نہیں جیت سکتا۔‘
علمان عبداللہییف آذربائیجان کی وزارتِ خارجہ کے سابق ترجمان ہیں۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’آذربائیجان ہمیشہ سے اپنی جدت کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہم سیکولر لوگ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آذربائیجان مشرقی مسلم ممالک میں پہلا سیکولر ملک ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم نے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ چاہے وہ اسرائیل ہو یا کوئی اور اسلامی ملک۔‘
ایران نے حال ہی میں آذربائیجان کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں شروع کی ہیں
ایران اور آذربائیجان کے درمیان تعلق بہت پیچیدہ ہے۔ ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل سرحد موجود ہے، مگر ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ دونوں کا مشترکہ ورثہ ایک ہی ہے۔
ایک وقت تھا جب آذری لوگ سلطنتِ فارس کے ماتحت تھے۔ سنہ 1813 میں پہلی روس ایران جنگ میں گلستان معاہدے کے تحت آذری قوم کو علیحدہ کر دیا گیا تھا۔
جو لوگ شمال میں تھے وہ سوویت کنٹرول میں رہے اور اب آذربائیجان میں رہ رہے ہیں۔ جو لوگ جنوب میں تھے وہ سلطنتِ فارس میں رہے اور اب اسلامی جمہوریہ ایران میں رہ رہے ہیں۔
فی زمانہ آذربائیجان میں ایک کروڑ آذری رہ رہے ہیں مگر اس سے زیادہ آذری افراد ایران میں رہتے ہیں۔
اندازے کے مطابق ایران میں کوئی دو کروڑ کے قریب آذری رہتے ہیں جو ایران کی کُل آبادی کا 20 فیصد بنتا ہے۔
چنانچہ آذریوں کو دوبارہ متحد کرنے کی خواہش زور پکڑ رہی ہے اور ایران اس سے خوفزدہ ہے۔
Comments are closed.