پینڈورا پیپرز: قطری شاہی خاندان کے ارکان نے لندن کے سپر مینشن پر 18.5ملین پاؤنڈ سے زیادہ کا ٹیکس بچایا
- احمد الشامی اور امیر نادر
- بی بی سی نیوز عربی
حال ہی میں پینڈورا پیپرز کے نام سے اِفشا کی گئی دستاویزات کے مطابق قطر کے حکمراں خاندان نے برطانیہ کے دو مہنگے ترین مکانات کے سودے میں 18.5 ملین پاؤنڈ سے اوپر کی سٹامپ ڈیوٹی بچائی۔
شاہی خاندان نے آفشور کمپنیوں کے ذریعے سینٹرل لندن میں 120 ملین پاؤنڈ سے زیادہ مالیت کے دو مکان خرید کر انھیں 17 بیڈروم یا خوابگاہوں کے ایک ’سپر مینشن‘ یا عالی شان محل میں تبدیل کرنے کے لیے درخواست دی۔
ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا ہے جس سے لگے کہ قطری شاہی خاندان یا اس املاک کو فروخت کرنے والوں نے اس سلسلے میں کوئی غیرقانونی اقدام کیا ہو۔
قطری حکومت کی جانب سے بی بی سی کی تفتیش کے نتائج کے سلسلے میں کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
ان مکانوں کی فری ہولڈ یا ملکیت کراؤن اسٹیٹ کی ہے جو ملکہ کی شاہی املاک کا انصرام وزارت خزانہ کے ذریعے کرتی ہے اور برطانیہ کے لیے نقد آمدنی پیدا کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’اٹھائے گیے سوالات‘ کی اب چھان بین کی جا رہی ہے۔
لِیکڈ ڈاکیومینٹس یا اِفشا کی گئی دستاویزات پینڈورا پیپرز کا حصہ ہیں۔ بشمول بی بی سی نیوز 600 سو سے زیادہ جرنلسٹ کئی ماہ تک 14 ذرائع سے ملنے والی فائلوں کی چھان بین کرتے رہے ہیں۔
سنہ 2013 میں برٹِش میڈیا نے خبر دی تھی کہ شیخہ موزا ناصر، اس وقت کے امیرِ قطر کی بیوی، نے لندن میں 1 کارنوال ٹیرس کی قیمت 109 ملین ڈالر کے قریب ادا کی تھی۔ برطانیہ میں اس وقت کسی ٹیرسڈ پراپرٹی (ایک سے زیادہ منزلیں) کے لیے ادا کی گئی یہ سب سے زیادہ رقم تھی۔ اس کے برابر ہی 2-3 کارنوال ٹیرس کو 54 ملین ڈالر سے زیادہ میں خریدا گیا۔
کارنوال ٹیرس میں بنے گھروں کو دنیا کے سب سے مہنگے گھر تصور کیا جاتا ہے۔ رجنٹس پارک کے مد مقابل ان مکانات کو 19ویں صدی کے اوائل میں جارجیئن دور کے مشہور آرکیٹیکوں جیمز اور ڈیسیمس برٹن اور جان نیش نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا، جنھوں نے یہ مشہور پارک بھی بنایا تھا۔
انھیں خریدنے کے بعد حکمراں خاندان نے 2015 میں کوشش کی تھی کہ دونوں مکانوں کو ملا کر 17 خوابگاہوں، 14 بیٹھکوں، ایک سنیما، جوس بار اور سویمنگ کے ایک عالی شان محل میں بدل دیا جائے۔
ویسٹ منسٹر کونسل نے اس سلسلے میں دائر درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ علاقے میں پہلے ہی رہائشی عمارتوں کی کمی ہے، مگر لگتا ہے کہ 2020 میں ان کی دوسری درخواست منظور کرلی گئی ہے۔
البتہ ان نئی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان پراپرٹیوں کو ٹیکس ہیونز (ٹیکس کی چھوٹ والے ممالک یا خطے) میں قائم شیل کمپنیوں کے توسط سے خرایدا گیا تھا جس سے قطری شاہی خاندان کو لیزہولڈ کے تبادلے کے وقت اندازاً 18.5 ملین پاؤنڈ کی سٹاپ ڈیوٹی لینڈ ٹیکس کی مد میں بچ ہوئی تھی۔
دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ 1 کارنوال ٹیرس خریدنے کے لیے حکمراں خاندان نے اپنے کسی رکن کے نام کی بجائے ’گولڈن سیٹیلائٹ‘ کے نام سے ایک آفشور کمپنی رجسٹر کروائی تھی۔ چونکہ پراپرٹی کی ملکیت پہلے ہی شیل کمپنی کے پاس تھی اس لیے شاہی خاندان کمپنی کے حِصص خرید کر بطور اثاثہ اس پراپرٹی کا مالک بن گیا۔
کراؤن اسٹیٹ نے 1 کراؤن ٹیرس کو آخری مرتبہ 2005 میں 21 ملین پاؤنڈ میں بیچا تھا۔ اس کے بعد یہ مکان 84 ملین پاؤنڈ میں ایک آفشور کمپنی کے ذریعے فروخت کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی عام مکان کی طرح نہ تو برطانیہ کے محکمۂ ٹیکس (ایچ ایم آر سی) اور نہ ہی اس املاک کی فری ہولڈ یا اصل ملکیت رکھنے والی کراؤن اسٹیٹ کو اس سودے کی مد میں کوئی رقم ملی اور نہ ہی انھیں اس سلسلے میں آگاہ کیا گیا۔
اسی طرح ایک شیل کمپنی بنا کر 2-3 کارنوال ٹیرس کی لیزہولڈ حاصل کی گئی۔
دونوں شیل کمپنیوں کا مالک قطر میں قائم ’ذرب‘ گروپ ہے اور یہ ممکت کے امیر تمیم الثانی کے نجی آفس کی ملکیت ہے۔
اگر ان مکانوں کو براہ راست قطری شاہی خاندان کا کوئی فرد خریدتا تو ان کی خرید و فروخت پر سٹامپ ڈیوٹی عائد ہوتی۔ برطانوی قوانین میں ترمیم کا مطلب ہے کہ اب جائیدادوں پر 40 فیصد انہیرِیٹنس یا ترکہ ٹیکس عائد ہوگا۔
جائیداد کی ملکیت کی حامل شیل کمپنیاں ’سپیشل پرپز ویہیکلز‘ (اس پی ویز) کہلاتی ہیں اور بالعموم ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
قطر کے سابق امیر اور ان کی بیوی شیخہ موزا بنت ناصر کئی مواقع پر تقریبات میں برطانوی ملکہ کے ساتھ نظر آئیں
اس طرح سے سٹیمپ ڈیوٹی بچانا ایک متنازع معاملہ ہے۔ ایچ ایم آر سی کا کہنا ہے کہ وہ ناقابل شناخت ’ٹیکس دہندگان‘ پر تبصرہ نہیں کر سکتا ’مگر ٹیکس بچانا‘ قانون کی روح کے منافی ہے۔
سابق سراغ رساں اور بین الاقوامی مالیات کے ماہر جوناتھن بینٹن کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں مہنگے داموں والی جائیدیں خریدنے کے لیے ایس پی ویز کا استعمال عام ہے۔
پراپرٹی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹیکس قوانین میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جن کے بعد سمندر پار خریداروں کے لیے آفشور کمپنیوں کی کشش میں کمی آ گئی ہے کیونکہ اب انھیں کیپیٹل گین ٹیکس، اِنہیرِیٹنس ٹیکس اور کمپنیوں پر عائد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
پینڈورا پیپرز کے مزید تجزیے کے بعد بی بی سی نے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ میں اور بھی کئی املاک قطری شاہی خاندان کی ملکیت ہیں جنھیں آفشور کمپنیوں کے ذریعے خریدا گیا ہے اور اندازاً جن کی مالیت 650 ملین پاؤنڈ ہے، البتہ یہ واضح نہیں کہ ان سودوں میں ٹیکس بچایا گیا ہے یا نہیں۔
برطانوی حکومت کئی بار وعدہ کر چکی ہے کہ وہ ایسا قانون متعارف کروآئے گی جس کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے املاک رکھنے والوں کے نام ظاہر کرنا ہوں گے تاکہ کالے دھن کو سفید بنانے کو روکا جا سکے۔
Comments are closed.