لندن کے دریائے ٹیمز سے ملنے والی لاش کا معمہ جو 20 سال بعد بھی حل نہ ہو سکا
- اینگس کرافورڈ اور ٹونی سمتھ
- بی بی سی نیوز
یہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی حالیہ تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک غیر حل شدہ رہنے والا بچے کے قتل کا کیس ہے۔
بیس سال قبل ایک نوجوان افریقی لڑکے کو ایک انتہائی خوفناک انداز میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اُس کے سر، ٹانگوں اور بازوؤں کو الگ کر کے اس کے دھڑ کو دریائے ٹیمز میں پھینک دیا گیا تھا۔
اس کی شناخت ایک معمہ رہی تاہم تفتیش کاروں نے اسے ‘ایڈم’ کا نام دیا۔
سال در سال کئی گرفتاریاں ہوئی ہیں، کئی فورینزک تحقیقات ہوئی ہیں مگر کسی پر بھی ان کے قتل کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
میں نے اس کیس پر شروعات سے ہی نظر رکھی ہے، یہاں تک کہ میں حقیقت معلوم کرنے کی خاطر وہاں بھی گیا جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہی بچے کی جائے پیدائش تھی۔ بیس سال بعد اب میں اس کیس سے قریبی طور پر منسلک رہنے والے لوگوں سے بات چیت کر رہا ہوں۔ کچھ لوگ پہلی مرتبہ بات کر رہے ہیں۔
اور ہم نے جنوبی لندن کے ایک وسیع و عریض قبرستان میں ایڈم کی بے نشان قبر کا بھی دورہ کیا ہے۔
21 ستمبر 2001: لاش کی دریافت
لاش گلوب تھیٹر کے قریب دریائے ٹیمز سے برآمد ہوئی تھی
ایک راہ گیر نے یہ لاش سب سے پہلے دیکھی تھی۔
ایڈن منٹر اس وقت وسطی لندن میں ٹاور برج عبور کر رہے تھے۔ اُنھیں ایک کاروباری میٹنگ میں پہنچنا تھا۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کو صرف 10 دن ہوئے تھے اور شہر اب بھی پراسرار خاموشی کی لپیٹ میں تھا۔
ایڈن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘اس وقت لہریں کافی بلند تھیں۔ میں سمجھا کہ یہ کسی درزی کا پتلا ہے۔’
وہ اس کیس کے متعلق زیادہ بات چیت نہیں کرتے۔
‘پھر یہ تیرتا ہوا پل کے نیچے آ گیا اور تب میں نے اسے غور سے دیکھا، یعنی جسم اور اس پر موجود زخموں کے نشانات۔’
پولیس نے دریا کی بالائی بہاؤ کی طرف گلوب تھیٹر کے پاس اس جسم کو پانی سے نکالا۔
یہ وہ یاد ہے جس کے ساتھ ایڈن آج بھی زندگی گزار رہے ہیں۔
‘میں اس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں۔ میں جب تک زندہ ہوں، اسے کبھی نہیں بھول سکوں گا۔’
ایڈن منٹر (2021 کی تصویر) نے سب سے پہلے ایڈم کی لاش کو دریائے ٹیمز میں دیکھا تھا
پہلا ہفتہ
اس سیاہ فام لڑکے کی لاش شاید 10 دن سے پانی میں تھی۔ اس کی موت گلا کٹنے کے باعث ہوئی تھی۔ اس کے بازو، ٹانگیں اور سر نہایت مہارت کے ساتھ الگ کر دیے گئے تھے اور آج تک دریافت نہیں ہوئے ہیں۔
جسمانی یا جنسی استحصال کے نشانات نہیں ملے اور بچے کو پیٹ بھر کر کھلایا گیا تھا۔ جسم پر نارنگی رنگ کے جانگیے کے علاوہ کچھ موجود نہیں تھا۔ اور اسی چیز سے تفتیش کار اس کیس میں پہلی اہم پیش رفت حاصل کر پائے۔
اس جانگیے پر ‘کڈز اینڈ کمپنی’ کا لیبل لگا ہوا تھا اور یہ رنگ اور سائز جرمنی کی صرف چند ہی دکانوں پر مل سکتا تھا۔
نک چالمرز اس وقت ڈیٹیکٹیو سارجنٹ تھے اور اس کیس پر تعینات ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سے تھے جو اُن کے کریئر کا پراسرار ترین اور پیچیدہ ترین کیس تھا۔
ریٹائرڈ ڈیٹیکٹیو نک چالمرز 2021 میں ایڈم کی قبر پر
"‘آپ کا بلاشبہ اس کیس سے تعلق ہوتا ہے اور پھر سوالوں کے جواب تلاش کرنے کا وہ جذبہ۔ ایک چیز جو 20 سال سے باقی رہی ہے وہ یہ بے چینی ہے کہ ہمیں اب بھی تمام جوابات نہیں ملے ہیں۔’
اُن کے پاس اس کیس کی انسائیکلوپیڈیا جیسی معلومات ہیں اور وہ اس کیس کی فائلوں کی کئی نقول اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔
لاش کی برآمدگی کے ایک ہفتے بعد ہی تفتیش کاروں نے بی بی سی کے کرائم واچ یو کے پروگرام میں عوام سے مدد کی درخواست کی۔
ساٹھ کے قریب لوگوں نے رابطہ کیا مگر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
افریقہ سے تعلق
تفتیش کاروں نے لڑکے کو نام دینے کا قدم اٹھایا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ قاتل کو سزا تک پہنچانے والی معلومات کی فراہمی پر 50 ہزار پاؤنڈ کا انعام رکھا گیا۔
ٹیسٹس سے معلوم ہوا کہ ایڈم کی عمر چار سے سات سال کے درمیان تھی اور وہ اپنی موت سے کچھ عرصے قبل تک افریقہ میں رہا تھا۔
اس کے معدے سے کھانسی کے شربت کی باقیات بھی ملی تھیں۔
اگر اُس کی طبعیت خراب تھی تو کیا اس کے قاتلوں کو اس کو دوائی دینے کی فکر تھی؟ یا کیا اُنھوں نے اس کا استعمال قتل سے قبل اسے غنودگی میں دھکیلنے کے لیے استعمال کیا تھا؟
ماہرین کا اتفاق تھا کہ کیونکہ ایڈم کی لاش کو مہارت سے کاٹا گیا تھا، اس لیے یہ قتل کسی رسم کا حصہ تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ افریقہ کے جنوبی حصوں میں کیے جانے والے انوکھے ‘مُتی’ قتل کی طرح تھا۔ اس طرح کے قتل میں شکار کے جسم کے حصوں کو الگ کر کے جادوگر اپنے گاہکوں کے لیے استعمال کرتے ہیں جنھیں یا کسی کاروباری معاہدے میں کامیابی چاہیے ہوتی ہے یا پھر خوش بختی۔
دیگر ماہرین کے مطابق کافی امکان ہے کہ یہ انسانی قربانی تھی جو کہ نائجیریا میں یوروبان عقائد کی مسخ شدہ شکل ہے۔ اس میں پانی اور زرخیزی کی دیوی اوشون کو یہ گھناؤنی قربانی پیش کی جاتی ہے۔
بعد میں ملنے والے فورینزک ثبوتوں سے اس نظریے کو مزید تقویت ملی۔
اپریل 2002: نیلسن منڈیلا کی اپیل
اپریل 2002 میں پولیس کی ایک ٹیم جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا سے ملنے اُن کے ملک گئی۔ منڈیلا نے پورے برِاعظم افریقہ میں اپیل کی کہ ایڈم کا خاندان سامنے آئے۔
‘سکاٹ لینڈ یارڈ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اُن کی تفتیش کے ابتدائی اشاروں کے مطابق لڑکے کا تعلق افریقہ میں کہیں سے ہے سو اگر کہیں بھی، ہمارے برِاعظم کے دور افتادہ ترین گاؤں میں کوئی خاندان ہے جس کا اس عمر کا کوئی بیٹا اسی عرصے میں کھو گیا ہے، تو خدارا پولیس سے رابطہ کریں۔’
جولائی 2002: پہلی پیش رفت
پھر جولائی 2002 میں سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں سماجی کارکنوں کو دو لڑکیوں کی حفاظت سے متعلق خدشات پیدا ہوئے۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہی تھیں جو ایک افریقی خاتون اور 30 کے پیٹے میں تھی۔
علاقے کی کونسل کے اہلکاروں کو اُن کے گھر میں عجیب و غریب رسومات سے متعلق اشیا ملیں۔ بچوں کو تحویل میں لینے کی ایک عدالتی سماعت کے دوران جوئس اوساگیئد نامی خاتون نے پراسرار گروہوں، قتل، اور قربانیوں کی کہانیاں سنائیں۔
ایک ہوشیار پولیس افسر کو یہ اتنا عجیب لگا کہ اُنھوں نے لندن میں قتل کے معاملات سے نمٹنے والے یونٹ کو کال کرنا مناسب سمجھا۔
ڈیٹیکٹیو سارجنٹ نک چالمرز نے جوئس کے گھر کی تلاشی لی اور وہی ‘کڈز اینڈ کمپنی’ کے لیبل والے کپڑے برآمد کیے جن کا سائز بھی ایڈم کے نارنگی جانگیے جتنا ہی تھا۔
جوئس کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس اہلکار ایڈم کے جسم پر پائے جانے والے جانگیے جیسا ایک اور جانگیہ دکھا رہے ہیں
پولیس اہلکاروں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس کہانی کا ایک اہم حصہ ہیں تاہم وہ خود بھی گھبرائی ہوئی تھیں اور اپنی کہانی بدلتی رہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں ایڈم کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا لیکن وہ کپڑوں سے متعلق اس غیر معمولی اتفاق کے بارے میں کچھ سمجھا نہیں پائیں۔
پولیس جوئس پر الزامات عائد نہیں کر سکی۔ وہ گلاسگو میں ہی رہیں اور پناہ کی درخواست کے نتیجے کا انتظار کرتی رہیں۔
ستمبر 2002: نائجیرین تعلق
ستمبر 2002 میں ایڈم کی برآمدگی کے ایک سال بعد لندن کے سٹی ہال میں ایڈم کی خاطر ایک یادگاری تقریب منعقد کی گئی۔ اس میں تقریباً 30 پولیس اہلکاروں، سائنسدانوں، پیتھولوجسٹس اور کیس سے منسلک کئی ماہرین نے شرکت کی۔
ستمبر 2002 میں ایڈم کی یاد میں دریائے ٹیمز میں پھولوں کا گلدستہ بہایا گیا
"نک چالمرز کہتے ہیں کہ ‘ممکنہ طور پر (ایڈم) کے خاندان کے طور پر جو چیز موجود تھی وہ لوگ تھے جو اسے تفتیش کے باعث جانتے تھے۔
فورینزک کام جاری رہا اور دسمبر تک ایڈم کے ڈی این اے سے یہ اشارہ ملا کہ وہ مغربی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
ہڈیوں کے نمونوں پر انتہائی اہم ٹیسٹس کے نتیجے سے اندازہ لگایا گیا کہ اُن کی جائے پیدائش جنوبی نائجیریا میں بینن سٹی کے قریب ایک پٹی میں تھی۔
یہ جوئس اوساگیئد کا آبائی شہر ہے۔
سنہ 2002 میں بی بی سی کے پروگرام کرائم واچ یو کے میں اس کیس پر بات کی گئی
ایڈم کے گلے میں پائے جانے والے پولن کے نمونوں سے معلوم ہوا کہ وہ اپنی موت سے کچھ ہی دنوں یا ہفتوں قبل جنوب مشرقی انگلستان میں رہ رہے تھے۔
اس کے علاوہ اُن کے معدے میں افریقی دریائی چکنی مٹی سے بنا ہوا ایک عجیب سا مادہ بھی تھا جس میں گھاس، پسی ہوئی ہڈیاں اور سونے اور کوارٹز یعنی سنگِ مردہ کے بھی کچھ حصے پائے گئے۔
راکھ کی موجودگی سے معلوم ہوا کہ اس ملغوبے کو بچے کو زبردستی کھلانے سے قبل جلایا گیا تھا۔ شاید یہی کھانسی کے شربت کی وجہ ہو، ایک میٹھی چیز جس کے ذریعے اس بدذائقہ چیز کو نگلنے میں مدد دی گئی ہو؟
نومبر 2002: جرمن تعلق
گلاسگو میں گرفتار ہونے والی جوئس اوساگیئد جن پر الزامات عائد نہیں کیے گئے تھے، اُن کی پناہ کی درخواست محکمہ داخلہ نے مسترد کر دی اور اُنھیں ملک بدر کر دیا گیا۔
نک چالمرز اور اُن کے باس ڈیٹیکٹیو انسپکٹر وِل او رائلی بھی اُن کے ساتھ خصوصی طور پر چارٹر کیے گئے طیارے میں نائجیریا گئے۔
اُمید کی جا رہی تھی کہ وہ شاید پرواز کے دوران اپنی خاموشی توڑیں اور قتل کے متعلق کچھ اہم معلومات فراہم کریں مگر اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔
جب طیارہ لاگوس پہنچا تو تفتیش کار طیارے سے نہیں اترے اور سیدھے واپس آ گئے۔ جوئس وہاں سے غائب ہو گئیں۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد جرمن پولیس نے انکشاف کیا کہ جوئس 2001 کے اواخر تک ہیمبرگ میں رہ رہی تھیں، وہی شہر جہاں ایڈم کے جسم پر پائے جانے والے نارنگی جانگیے خریدے گئے تھے۔
مزید گرفتاریاں
لندن میں 2002 کے اواخر میں کچھ ایسا ہوا جو نہایت اہم پیش رفت جیسا معلوم ہوا۔
جب پولیس نے جوئس کو گرفتار کیا تھا تو اُنھیں معلوم ہوا کہ اُن کے فون میں صرف دو نمبر محفوظ تھے۔ ایک نمبر موسا کمارا نامی شخص کا تھا۔
یہ پایا گیا کہ وہ لندن کے ایک گھر میں رہ رہے تھے۔ وہاں پولیس اہلکاروں کو ایک جانور کی کھوپڑی ملی جس میں ایک کیل پیوست تھا، کئی محلول ملے، اور مٹی سے بھرے چھوٹے پیکٹس ملے۔
اس کے علاوہ ‘ریچوئلز’ یعنی رسومات نامی ایک ویڈیو ٹیپ بھی ملی۔ یہ ایک ڈرامہ تھا جس میں ایک بالغ کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔
بظاہر یہ ساری چیزیں جوجو کہلانے والی نائجیرین رسومات سے تعلق رکھتی تھیں۔
تفتیش کاروں نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ موسا کمارا کا حقیقی نام کنگسلے اوجو تھا۔
مزید جانیے
اُن کو ایڈم سے براہِ راست کسی طرح منسلک نہ کر پانے پر اُنھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
مگر اس بات کے واضح ثبوت ملے کہ کنگسلے اوجو انسانی سمگلنگ میں ملوث تھے۔
رہا ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ اپنے مجرم ساتھیوں کے پاس پہنچ گئے جو نائیجیرنز کو غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخلے میں مدد دیتے تھے۔
اُنھیں لوگوں کو سمگل کر کے ملک میں لانے والے گینگ میں ایک اہم کردار تصور کیا گیا۔
کنگسلے اوجو جولائی 2003 میں مشرقی لندن سے گرفتاری کے وقت
جولائی 2003 میں اُن کے ہر قدم کی نگرانی کرنے اور اُن کے مجرم ساتھیوں کا پتا چلانے کے بعد 21 مرد و خواتین کو لندن میں نو جگہوں پر مربوط چھاپوں میں گرفتار کیا گیا۔ کنگسلے بھی اُن میں شامل تھے۔
اکتوبر 2003: قیامت کا پودا
برطانیہ کے رائل بوٹانیکل گارڈن کے ماہرینِ نباتات کو ایڈم کے معدے میں پائے جانے والے پودوں کے نمونے بھیجے گئے۔ اکتوبر 2003 میں وہ ایک حیران کُن نتیجے پر پہنچے۔ ایڈم کو دو مختلف پودے کھلائے گئے تھے۔ سب سے پہلے تو اُن میں کیلابار بین نامی پودے کے ذرات ملے۔ اسے ڈومز ڈے یا قیامت کا پودا، یا تکلیف دہ پودا بھی کہا جاتا ہے۔
اسے روایتی طور پر مغربی افریقہ میں جادوگروں کی تقریبات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس مقدار میں کھلائے جانے پر یہ مفلوج کر دیتا ہے مگر درد کا باعث نہیں بنتا۔
اس کے علاوہ اُن کے اندر دتورا پودے کے پسے ہوئے بیج بھی پائے گئے جو غنودگی کے ساتھ ساتھ ہذیان کی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔
دتورا کے بیجوں کا کیپسول
تفتیش کاروں کو یقین تھا کہ ایڈم کو گلا کاٹنے سے قبل یہ ملغوبہ کھلایا گیا تھا۔ اس سے وہ مفلوج اور بے یار و مددگار رہ گئے ہوں گے مگر اُنھیں پھر بھی معلوم ہو گا کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
جولائی 2004: کنگسلے اوجو کو قید کی سزا
پولیس کو کنگسلے اوجو پر الزامات عائد کرنے کے لیے کافی تعداد میں ثبوت مل گئے تھے، ایڈم کی موت سے منسلک نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ اور پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے جعلی دستاویزات استعمال کرنے کے چار الزامات میں۔
جولائی 2004 میں اُنھوں نے اعترافِ جرم کر لیا اور اُنھیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی اور رہا ہونے پر ملک بدر کیے جانے کی سفارش بھی کی گئی۔
اوجو کو کئی مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا اور تفتیش کاروں کے مطابق وہ ایک ‘بڑے’ نیٹ ورک کی سربراہی کر رہے تھے جو سینکڑوں لوگوں کو برطانیہ لایا تھا تاکہ اُنھیں جنسی دھندے، گھریلو غلامی اور سرکاری مالی فوائد کے بے جا حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
تفتیش کاروں کو اُمید تھی کہ کنگسلے کے پاس ایڈم کی موت کا راز ہوگا۔
میں نے بریکسٹن جیل میں پایا کہ وہ ‘بڑا آدمی’ ہونے کی شہرت حاصل کر چکے تھے۔
الزام ہے کہ اُنھوں نے پیسے کے لیے دیگر قیدیوں کی ایما پر جوجو تقریبات منعقد کیں۔ ایک قیدی نے پولیس کو اس حوالے سے خبردار کیا تھا۔
دسمبر 2004: سماعت
دسمبر 2004 میں ایڈم کی موت کے حوالے سے سماعت میں غیر قانونی قتل کا فیصلہ سنایا گیا۔
سماعت میں یہ بتایا گیا کہ کیسے اُنھیں زندہ رہتے ہوئے گلے کے زخموں کا سامنا کرنا پڑا جس سے اُن کی موت ہوئی۔
2005: کنگسلے اوجو کی مدد کی پیشکش
جیل میں اپنے سیل سے کنگسلے نے ایڈم کی موت کی تفتیشی ٹیم سے رابطہ کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے پاس اُن کے ساتھیوں کی جانب سے جوئس کی نائیجیریا میں ریکارڈ کی گئی خفیہ ریکارڈنگز موجود ہیں۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایڈم کے قاتل کی تلاش میں مدد دے کر اپنا نام اس واقعے سے الگ کروانا چاہتے ہیں۔
تفتیش کاروں نے اُن کی سزا کے بعد اور ملک بدری سے پہلے اُن سے تفتیش کی۔ اُنھوں نے ٹیم کو قائل کر لیا کہ وہ مدد کر سکتے ہیں اور 2005 کے اواخر میں اُنھیں رہا کر دیا گیا اور وہ مشرقی لندن میں رہتے ہوئے بظاہر پولیس تفتیش میں مدد دینے لگے۔
دو سال تک اُنھوں نے پولیس کو معلومات فراہم کیں، اور ایک موقع پر تو دعویٰ کیا کہ جوئس برطانیہ واپس آ رہی ہیں مگر یہ دعویٰ درست ثابت نہیں ہوا۔
اُنھوں نے ایک اور خاتون پر ستمبر 2001 میں انسانی قربانی دینے کی تقریب کی سربراہی کرنے کا الزام عائد کیا۔
پولیس نے اس خاتون کے چرچ میں کئی ماہ تک ایک خفیہ اہلکار کو تعینات کیے رکھا مگر تفتیش کار اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دعوے بے بنیاد تھے۔
دسمبر 2006 میں ایڈم کی لاش کو لندن کے قبرستان میں ایک بے نشان قبر میں دفنا دیا گیا۔
لندن میں ایڈم کی بے نشان قبر
تدفین کی تقریب کسی مخصوص فرقے کی نہیں تھی اور اس میں کیس پر شروع سے کام کرنے والے چند پولیس اہلکار شریک ہوئے جن میں نک چالمرز اور ول او رائلی بھی تھے جنھیں جلد ہی ڈیٹیکٹیو چیف انسپکٹر کی ترقی ملنے والی تھی۔
2008: کنگسلے اوجو کو نائیجیریا ڈی پورٹ کر دیا گیا
تفتیش کار اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ کنگسلے اوجو پر بھروسے نہیں کر سکتے تھے۔ اب بھی یہ مانا جا رہا تھا کہ وہ سرکاری مالی فوائد کے حصول کے لیے جیل سے رہائی کے بعد بھی جعلی شناخت استعمال کر رہے تھے۔
پھر 2008 میں اُنھیں نائیجیریا ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
اپنی ملک بدری کی سماعت کے دوران کنگسلے نے مؤقف اپنائے رکھا کہ اُنھوں نے تفتیش میں مدد دینے کے لیے ‘اپنی بھرپور کوشش’ کی تھی۔
نائیجیریا میں جوئس دوبارہ منظرِ عام پر آ گئیں اور پولیس نے اُن کا انٹرویو کیا۔ بالآخر اُنھوں نے تسلیم کیا کہ جب وہ شمالی جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں رہ رہی تھیں تو اُنھوں نے ‘ایڈم’ کی دیکھ بھال کی تھی اور اُن کے جسم پر پائے جانے والے نارنگی جانگیے خریدے تھے۔
مگر اُنھوں نے مزید کچھ نہیں کہا اور پھر غائب ہو گئیں۔
سال در سال کوشش کے بعد میں ایک خاتون کو تلاش کرنے میں کامیاب رہا جو جوئس کو جرمنی میں جانتی تھیں۔ اس سے پہلے اُنھوں نے کبھی میڈیا سے بات نہیں کی ہے۔
ریا میتھیں سرکاری فوائد کے حصول کے دعووں کا جائزہ لینے والی سماجر کارکن ہیں۔
اُنھوں نے جوئس اور اُن کی دو بیٹیوں سے ہیمبرگ میں ملاقات کی تھی۔
اُنھیں یاد ہے کہ اُنھوں نے 2001 کی گرمیوں میں جوئس کو دو مرتبہ ایک چھوٹے بچے کے ساتھ دیکھا تھا اور اب اُنھیں احساس ہے کہ وہ بچہ ایڈم ہو سکتا ہے۔
اس سے ریا ایڈم کو زندہ دیکھنے والے آخری لوگوں میں سے ہو سکتی ہیں۔
ریا میتھیس، جو ایڈم کو آخری مرتبہ دیکھنے والے لوگوں میں سے ہو سکتی ہیں
ریا کہتی ہیں: ‘میں اس کیس کے بارے میں بار بار سوچتی ہوں۔ میرے لیے وہ انتہائی شرمیلا اور توجہ دینے والا بچہ تھا۔ وہ اپنے آپ میں رہنے والا اور الگ تھلگ بچہ تھا۔ وہ ایک ہی جگہ پر ٹکا رہتا اور وہاں سے بالکل نہ ہلتا۔’
ریا کہتی ہیں کہ جوئس اس بچے سے ایسے پیش آتیں جیسے وہ اُن کے لیے ‘ضروری مصیبت’ تھا۔ ‘ایسا تھا جیسے اُنھیں اس بچے کو اپنے ساتھ رکھنا پڑتا، اس لیے کہ شاید وہ اسے اپنی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہتی تھیں یا یہ نہیں چاہتی تھیں کہ بچہ اپنے آپ کچھ کر سکے۔’
2011: ایڈم کی تصویر
تین سال تک تفتیش جاری رہی مگر کوئی نئے اہم کلیے نہیں ملے۔ مگر جب تفتیش کاروں نے جرمنی میں جوئس کے ایک دوست کے پاس موجود چیزوں کا جائزہ لیا تو اُنھیں تصاویر کا ایک ڈھیر ملا۔ اُن میں سے ایک تصویر ایک پانچ سال تک کے بچے کی تھی جو سیدھا کیمرے میں دیکھ رہا تھا۔
یہ تصویر 2001 میں لی گئی تھی۔
نک چالمرز اس حوالے سے شبے کے شکار تھے کہ کیا یہ ایڈم کی تصویر ہو سکتی ہے مگر وہ اب اس کیس پر کام نہیں کر رہے تھے اور تفتیش کاروں کی ایک نئی ٹیم نے یہ کام سنبھال لیا تھا۔
پھر 2011 کے اوائل میں یہ تصویر آئی ٹی وی نیوز کو دی گئی جنھوں نے نائیجیریا میں جوئس کی تلاش کی کوشش کی۔
جوئس نے کہا کہ تصویر میں موجود بچہ واقعی ایڈم ہی تھا اور اُن کا اصل نام اکپومووسا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے بچے کی دیکھ بھال کی تھی تاہم اُنھوں نے بچے کو باوا نامی ایک شخص کے حوالے کر دیا تھا۔
یہ لگنے لگا تھا کہ ایڈم کی شناخت کے حوالے سے موجود سوالات کے جوابات مل گئے ہیں۔
مگر تفتیش کار اس بچے کی شناخت کی تصدیق کرنے اور تفتیش کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔
2012: جوئس سے نائیجیریا میں ملاقات
ایک سال بعد ہمیں کیوں کا جواب مل گیا۔ اچانک جوئس کے بھائی وکٹر نے مجھے نائیجیریا سے فون کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی اور تصویر میں موجود بچہ نہ ایڈم تھا اور نہ ہی اس کا نام اکپومووسا تھا۔ وہ اور جوئس ریکارڈ درست کرنا چاہتے تھے۔
جوئس اوساگیئد نائیجیریا میں، سنہ 2012 میں
میں نک چالمرز کے ساتھ بینن سٹی گیا جو تب تک میٹروپولیٹن پولیس سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ ہمیں جوئس ایک کم آمدنی والے علاقے میں چھوٹے سے گھر میں رہتی ہوئی ملیں۔ اُنھیں ہم سے مل کر بہت خوشی ہوئی مگر کچھ مواقع پر وہ خود گھبرائی ہوئی محسوس ہوئیں۔
اُن کے بارے میں لوگوں کو معلوم تھا کہ اُن کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل ہیں۔
جوئس نے ہمیں بتایا کہ تصویر میں موجود بچہ اصل میں ‘ڈینی’ کہلاتا تھا جسے نک اور میں ہیمبرگ میں تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔
اس کے علاوہ جوئس نے ایڈم کا ایک اور نام پیٹرک ایرہابور بتایا جس کی ہم تصدیق کرنے میں ناکام رہے۔
بالآخر جوئس کو ہم نے ایک تصویر مزید دکھائی۔ اُنھوں نے فوراً ہی اس شخص کا نام باوا بتایا، جس کے بارے میں اُنھوں نے کہا تھا کہ اُنھوں نے ایڈم کو جرمنی میں 2001 میں اس کے حوالے کیا تھا۔
یہ تصویر کنگسلے اوجو کی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ تھی کہ اُنھوں نے یہ الزام عائد کیا تھا۔
نک چالمرز اور میں نائیجیریا میں کنگسلے اوجو کی تلاش کرنے میں کامیاب رہے مگر وہ ہم سے ملاقات کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ تاہم اُنھوں نے ہم سے فون پر بات کرنے کی حامی بھری۔
اُنھوں نے اصرار کیا کہ وہ ایڈم کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔ اور واقعتاً اس قتل سے اُنھیں منسلک کرنے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔
کنگسلے اوجو پر آج تک الزام عائد نہیں کیا جا سکا ہے
مگر سابق تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ وہ اب بھی اس کیس کی چابی رکھتے ہیں۔
سنہ 2013 کے اوائل میں نشر ہونے والی ہماری رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے میٹروپولیٹن پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ کسی بھی نئی معلومات کی ‘گہری جانچ’ کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے
2021: اب تک معاملہ حل طلب ہے
سنہ 2013 کے بعد سے اب تک یہ ایک ‘ٹھنڈا معاملہ’ بن چکا ہے اور تفتیش میں کوئی اہم معلومات حاصل نہیں ہوئی ہیں۔
مگر ایک اہم پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔ میرا جوئس کے بھائی وکٹر سے رابطہ رہا اور اُنھوں نے گذشتہ سال مجھے بتایا کہ جوئس کی وفات ہو گئی ہے۔
ایڈم سے منسلک آخری لوگوں میں سے ایک اور ممکنہ طور پر ایک اہم گواہ اب نہیں رہی تھیں۔
ایڈن منٹر جنھوں نے دریا میں لاش کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا اُن میں شدید پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کی تشخیص ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں یہ سوچ کر انتہائی لاچاری کا احساس ہوا کہ دریافت ہونے والی لاش کسی کے بیٹے کی تھی۔
‘یہ صدمہ انگیز ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کس نے ایسا کیا؟ یہ مشکل ترین چیز ہے۔ وہ ایک شخصیت رکھنے والا ایک چھوٹا بچہ تھا اور اسے ظالمانہ طریقے سے کسی رسم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔’
ریٹائرڈ تفتیش کار نک چالمرز کے لیے جوابات کی عدم موجودگی اب بھی انتہائی پریشان کُن ہے۔
‘یہ ایک معصوم چھوٹا سا بچہ تھا۔ اُس کی موت کے ذمہ دار موجود ہیں اور وہ اب تک کٹہرے میں نہیں پہنچے ہیں۔’
‘بیس سال بعد بھی میری خواہش ہے کہ ہمیں ایڈم کی شناخت اور اس کے والدین کا پتا چل جاتا۔ درحقیقت وہ اپنے خاندان سے بچھڑا ہوا ایک بچہ ہے جنھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ لندن میں مدفون ہے۔’
Comments are closed.