بائیڈن اور شی جن پنگ کی فون پر بات: ذمہ داری دکھانے پر زور
دونوں رہنماؤں کے درمیان سات ماہ بعد بات ہوئی ہے
چین اور امریکہ کے صدور کے درمیان گزشتہ سات ماہ میں پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت ہوئی ہے۔
امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بات چیت میں دونوں بڑی طاقتوں کے رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ان کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ان کے ملکوں کی باہمی مسابقت کہیں کسی تصادم کی صورت اختیار نہ کر لے۔
امریکہ میں صدر بائیڈن کے صدرات سنبھالنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ انھوں نے چین کے صدر کو فون کیا۔
یہ بھی پڑھیے
امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات ایک عرصے سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ ان ملکوں میں تنازعات تجارت، ایک دوسرے کی جاسوسی اور کووڈ 19 کی وباء تک پھیلے ہوئے ہیں۔
واہٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘دونوں رہنماؤں کے درمیان وسیع دفاعی امور پر بات ہوئی جن میں انھوں نے ان امور پر بات کی جن میں ان کے باہمی مفادات ملتے ہیں اور ان پر بھی بات کی جن میں مفادات، اقدار اور سوچ میں تصادم یا ٹکراؤ ہے۔‘
‘یہ گفتگو جیسا کہ صدر بائیڈن نے واضح کیا تھا امریکہ کی ان مسلسل کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکہ اور عوامی جمہوریہ چین کے ٹکراؤ کا سبب بننے والے مسائل کا ذمہ داری سے حل کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔’
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق فون پر ہونے والی یہ بات چیت تفصیلی اور کھلے انداز میں ہوئی۔ چین کی طرف سے مزید کہا گیا کہ اس گفتگو میں وسیع دفاعی رابطوں اور باہمی تشویش کے مسائل کو بھی اٹھایا گیا۔
سی سی ٹی وی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صدر شی نے کہا کہ چین اور امریکہ اپنے تعلقات کو کسی طرح آگے بڑھا سکتے ہیں یہ سوال دنیا کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔’
صدر بائیڈن سے پہلے سابق صدر ٹرمپ چین کے صدر شی جی پنگ سے اکثر رابطے میں رہتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے پہلے چھ ماہ میں دو مرتبہ صدر شی سے فون پر بات کی اور چین کے صدر کو مار آ لاگو بھی مدعو کیا۔مار آ لاگو سابق صدر ٹرمپ کا نجی کلب ہے جہاں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے تنہائی میں بات کی۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق جمعہ کو ہونے والی فون کال صدر بائیڈن کی درخواست پر کی گئی جو چین کی نچلے درجے کے اہلکاروں کی طرف سے ان کی انتظامیہ کے اہلکاروں سے بات چیت نہ کرنے اور اس سے مسلسل گریز کرنے کی وجہ سے تشویش کا شکار ہو گئے تھے۔
اس سال کے اوائل میں بائیڈن انتظامیہ اور چین کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شدید تلخی ہو گئی تھی اور دونوں طرف کے اہلکاروں نے ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی۔
چین کے حکام نے امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ دوسرے ملکوں کو چین پر حملہ کرنے کے لیے اکسا رہا ہے۔ جبکہ امریکہ اور چین ایک دوسرے پر انسانی حقوق اور مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔
دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان کئی معاملات پر اختلاف پایا جاتا ہے جن میں انسانی حقوق اور جمہوریت بھی بڑے مسائل ہیں۔
امریکہ سنکیانگ کے صوبے میں اویغر مسلمانوں کو دبانے اور ان کے انسانی حقوق کی پاسداری نہ کرنے کا الزام چین کی حکومت پر لگاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ چین پر ہانگ کانگ میں بھی انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک لگتا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت خوبصورت شکل اختیار کر رہے ہیں
دریں اثنا چین نے بار ہا امریکہ سے کہا ہے کہ وہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کو بدنام کرنے کی مہم بند کرے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں سنہ 2018 میں چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ شروع ہوئی تھی۔
امریکہ نے چین سے درآمد کی جانے والی تجارتی اشیاء پر 360 ارب ڈالر کی درآمدی ڈیوٹی لگا دی تھی۔ اس کے ردعمل میں چین نے امریکی مصنوعات پر 110 ارب ڈالر کے محصولات لگا دیئے تھے۔
صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو کی طرف سے چین کے خلاف تجارتی شعبے میں سخت رویے میں کچھ نرمی دکھانی شروع کی ہے۔
اس کے علاوہ ‘ساؤتھ چائنہ سی’ یعنی چین کے جنوبی سمندر کا معاملہ بھی ہے۔
اس سمندر میں پارسلز اور سپارٹرلی کے غیر آباد جزیروں پر چین کے قبضے کا معاملہ بھی ہے جن پر اس خطے کے دیگر کئی ملک اپنی عملداری کا دعوی کرتے ہیں۔
چین کا دعویٰ ہے کہ اس سمندر کا زیادہ تر حصہ اس کی عملداری میں آتا ہے لیکن ہمسایہ ملک بھی اس سمندر کے دعویدار ہیں اور امریکہ چین کے دعوؤں کو تسلیم نہیں کرتا۔
تمام تر اختلافات کے باوجود چین اس سمندر میں اپنی عسکری قوت میں مسلسل اضافہ کر رہا اور اس کا اسرار ہے کہ اس کے ارادے پرامن ہیں۔
افغانستان کے معاملے پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء پر چین نے بہت تنقید کی ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے ایک مرتبہ پھر امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی فوج نے افغانستان میں تباہی مچا دی ہے۔
انھوں نے امریکہ پر افغانستان کے عوام کو شدید نقصان پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
Comments are closed.