طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے تقریباً تین ہفتوں بعد افغانستان میں عبوری حکومت اور کابینہ کا اعلان کردیا جس میں ملا محمد حسن آخوند کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا ہے۔
قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا محمد حسن آخوند طویل مدت تک طالبان کے فیصلہ سازی کے اعلیٰ ادارے رہبری شوریٰ کے سربراہ رہے ہیں۔
طالبان کے افغانستان میں گزشتہ دور میں وہ پہلے وزیر خارجہ اور پھر نائب وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
ملا آخوند کا نام اقوام متحدہ کی عالمی شخصیات سے متعلق پابندی کی فہرست میں بھی شامل ہے، جبکہ اس فہرست کے مطابق وہ ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی اور ان کے مشیر برائے امورِ سیاست تھے۔
دیگر طالبان قیادت کی طرح ملا آخوند بھی تحریک طالبان کے بانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور ان کے ملا محمد عمر سے قریبی تعلقات بھی تھے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ملا آخوند کو طالبان کے درمیان کافی عزت و وقار حاصل ہے۔
کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ ملا آخوند کی عمر 65 سال یا ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ ہے، وہ اپنے گروہ میں سیاسی شخصیت سے زیادہ ایک مذہبی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔
پشتون قوم کے درانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملا آخوند رہبری شوریٰ میں بطور رہبر اور رہنما اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
Comments are closed.