asain women queen without a crown i hope you had a great day beautiful inside and outside mormon penpals wanted filipina wife thai escort thailand jessica27

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ایئر پورٹ پر ناکارہ مالِ غنیمت پر طالب کا شکوہ

کابل ڈائری: چمنِ حضوری باغ کا ماضی اور ایئر پورٹ پر ناکارہ مالِ غنیمت پر طالب کا شکوہ

  • ملک مدثر
  • بی بی سی، کابل

کابل

کابل میں چمن حضوری باغ اور غازی سٹیڈیم تفریح کا مقام اور کھیل کا میدان ہے جہاں اکثر میلے لگا کرتے ہیں۔ لیکن یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں طالبان اپنے سابقہ دور میں عوام کو سرِعام سزائیں دیا کرتے تھے۔

ان سزاؤں میں کوڑے، پھانسی، سر قلم کرنا، ہاتھ کاٹنا وغیرہ شامل تھا۔ آج اس باغ سے گزرتے ہوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آنے والے دونوں میں جب یہاں قوانین لاگو ہو جائیں گے، تو کیا ایک بار پھر یہاں کھیل کے میدانوں، سٹیڈیمز اور میلوں کے مقامات سزاؤں کے گھاٹ تو نہیں بنا دیے جائیں گے۔

سب سے پہلے ہم نے سرائے شہزادہ کا رخ کیا۔ بینک چونکہ بند ہیں تو سوچا منی ایکسچینج کے مرکز جائیں۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی میں نے سوچا سرائے شہزادہ بھی کھلا ہو گا، لیکن اس کا مرکزی دروازہ بند تھا۔ وہاں موجود ایک شحص نے مجھے بتایا کہ اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ یہیں ایک طالب چوکس کھڑا دکھائی دیا اور قریب میں ہی امریکہ کی بکتر بند گاڑی ‘ہمویز’ کھڑی تھی۔

چمن حضوری باغ

تاجر سب کے سب باہر سڑک پر کھڑے ہو کر لین دین کر رہے تھے۔ پاکستانی کرنسی جسے مقامی طور پر کالدار کہتے تھے کو ایک زمانے میں یہاں بہت استعمال کیا جاتا تھا مگر اب وقت بدل چکا ہے۔

افغان کرنسی کی مانگ بہت بڑھی ہے اور گذشتہ ہفتے تک ایک ڈالر کے بدلے افغان کرنسی 95 افغانی تک گر گئی تھی لیکن آج وہ کچھ مستحکم ہو کر 85 تک پہنچ گئی ہے۔ طالبان کے آنے سے پہلے تک یہ 78 افغانی تک تھی۔

ایک شخص کے ہاتھ میں یورو دیکھے تو میں نے پوچھا کہ آپ یہ کیوں چینج کروا رہے ہو تو اس نے کہا کہ ‘کم دام مل رہا ہے اس لیے واپس جا رہا ہوں، گھر کے لیے سودا چاہیے تھا سوچا تھا چینج کروا لوں مگر اب ارداہ بدل لیا ہے۔’

وہیں سنار کی دکانیں بھی تھیں۔ میرے ساتھ موجود مترجم نے بتایا کہ یہاں پہلے بہت خواتین آتی تھیں۔ آج وہاں دو خواتین نظر آئیں اور سامنے کھڑا طالب ان کے لیے اس بھیڑ میں راستہ بنا رہا تھا لیکن میں اس لیے تصویر نہ بنا سکا کیونکہ طالبان تصویریں اور ویڈیو بنانے پر غصہ کرتے ہیں۔

مالِ غنیمت

آگے پلِ خشتی مسجد جسے کچھ لوگ کابل کی قدیم ترین مساجد میں شمار کرتے ہیں سے گزر ہوا۔ وہاں طالبان کے بڑے رہنما آتے تھے۔ اسی مسجد کی مشہور ویڈیو اکثر میری نظر سے گزرتی ہے جس میں نوے کی دہائی میں ایک طالب مسجد کے باہر لوگوں کو زبردستی نماز کے لیے کہہ رہا ہوتا ہے۔

اب یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ ملا ہبت اللہ اس مسجد میں آئیں گے لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ قندھار میں سب سے پہلے عوامی منظر پر دکھائی دیں کیونکہ قندھار طالبان کا ابتدائی گڑھ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لیکن آج جب طالبان امریکہ کے چھوڑے ہوئے اسلحے اور گاڑیوں اور ہیلی کاپٹر کی نمائش جسے وہ پریڈ کہہ رہے تھے قندھار میں کی گئی تو وہاں بھی یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ ملا ہیبت اللہ آئیں گے اور سٹیڈیم میں موجود لوگوں سے خطاب کریں گے۔

وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی لیکن ملا ہیبت اللہ منظرعام پر نہ آئے اور ان کی جگہ کسی دوسرے طالبان رہنما نے مجمعے سے خطاب کیا۔

بازار

جاتے جاتے امریکی اور نیٹو فورسز نے آلات ہتھیار اور ہیلی کاپٹرز کو ناکارہ تو بنایا لیکن قندھار میں اڑنے والا ہیلی کاپٹر اور کابل ایئر پورٹ پر افغان فورسز کا سی ون تھرٹی کی مانند شاید کچھ اور طیارے اور گاڑیاں بھی سلامت رہ گئی ہوں۔

میں خود تو کل کابل ایئر پورٹ پر نہیں جا سکا تاہم کل کابل ایئر پورٹ پر طالبان نے صحافیوں کو وہ مالِ غنیمت دیکھنے کی اجازت دی جس میں سے بیشتر سامان ناکارہ کر دیا گیا تھا۔

صحافی انس ملک نے مجھے بتایا کہ ‘صبح جب وہ اور دیگر صحافی ناشتہ کر رہے تھے تو طالبان کے ایک ٹوئٹر ہینڈل سے بتایا گیا کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد ایئر پورٹ پر پریس کانفرنس کریں گے۔ وہ سب ناشتہ ادھورا چھوڑ کر پریس کانفرنس کے لیے ایئر پورٹ پہنچے تو پانچ صحافیوں کے سامنے پریس کانفرنس کا آغاز ہو چکا تھا۔

‘اس کے بعد یہ ہوا گیٹ پر روک لیا گیا۔ پہلے ہم ایبے گیٹ اور نارتھ گیٹ سے جاتے تھے۔ ہمیں تھوڑی دیر روکا لیٹر چیک کیا، جامع تلاشی ہوئی، ڈومیسٹک ٹرمینل سے ہم ملٹری سائیڈ پر پہنچے۔ لیکن تب تک ذبیح اللہ کی پریس کانفرنس ختم ہو چکی ہے۔ ہمیں کہا گیا کہ سب ختم ہو گیا تم واپس چلے جاؤ۔ تم شام پانچ بجے ایک اور پریس کانفرنس کے لیے آنا۔ لیکن ہم نے درخواست کی کہ ہمیں اندر جانے دیا جائے۔’

کابل

وہ بتاتے ہیں کہ ‘ہم صحافی اندر گئے تو ہینگرز آلات سے بھرے پڑے تھے لیکن انھیں امریکہ جاتے جاتے ناکارہ بنا کر چلا گیا تھا۔ یہی حال ہیلی کاپٹرز کا بھی تھا۔

‘ایک طالب رہنما نے برہمی سے کہا کہ انھیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا یہ ہتھیار، آلات اور سامان ہمارے ملک کا اثاثہ تھے۔’

‘آگے بڑھے ایک اور ہینگر پر گئے تو ہینگر پر ایم آئی 17 اور بلیک ہاکس تھے لیکن انھیں بھی ناکارہ بنایا گیا تھا۔ وہاں چینوک ہیلی کاپٹر بھی دکھائی دیے۔ وہیں ایک سی ون تھرٹی بھی دکھائی دیا جو ایک جانب جھکا ہوا تھا یعنی ناکارہ ہو چکا تھا۔ ہم ائیر پورٹ پر جس ہینگر میں جاتے کچھ نہ کچھ ملتا۔ کافی مشین ضرور ملتی تھی۔ ڈھیر ساری پانی کی بوتلیں، ریڈی میڈ کھانا، گولیاں، میگزین بہت زیادہ تھے فلیش پین ، بینڈیج، دوائیاں، میک شفٹ سٹریچر، لائٹیں، گلوز اور ان گنت ضرورت کا سامان۔

‘ایسے میں کچھ صحافی بھائیوں نے بھی کچھ نہ کچھ اٹھایا۔ کچھ نے گلوز رکھ لیے۔ کچھ کو بیٹریاں پسند آئیں، انھوں نے اٹھا لیں۔ کچھ نے پین رکھ لیے کچھ نے مارکر وغیرہ۔ باقی جوس اور پانی تو ہم سب نے خوب پیا۔ وہاں ایک ہینگر میں کتوں کا سامان بہت زیادہ تھا۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.