سندھ حکومت کی جانب سے صحرائے تھر میں خراب فلٹر پلانٹس کی بحالی کے لیے مزید دو ارب روپے کا ٹھیکہ عارضی طور پر نجی کمپنی کو دے دیا گیا ہے جبکہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ تھر کے باسیوں کو پانی کی فراہمی شروع کردی گئی ہے۔
صحرائے تھر میں صوبائی حکومت نے 2014ء میں میٹھے پانی کی فراہمی کا منصوبہ پیش کیا تھا، 2016ء میں ساڑھے پانچ ارب روپے کی لاگت سے 750 فلٹریشن پلانٹس کے منصوبے پر عمل شروع ہوا اور صرف 650 فلٹریشن پلانٹس سے کھارے پانی کو میٹھا کرکے تھری باسیوں کو فراہمی شروع کر دی گئی تھی جس میں مٹھی میں موجود ایشیا کا سب سے بڑا فلٹریشن پلانٹ بھی شامل تھا۔
ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ تکنیکی خامیوں کے باعث بمشکل ایک سال ہی چل سکا تھا، تمام فلٹریشن پلانٹ بند ہوگئے اور اربوں روپے کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے اب پانچ سال بعد غیرفعال فلٹریشن پلانٹس کو فعال کرنے کے لیے دوبارہ ایک نجی کمپنی کو دو ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے، نجی کمپنی کو ٹھیکہ عارضی طور پر ایک سالہ کے لیے دیا گیا ہے جس میں ملازمین کی تنخواہ بھی شامل ہے لیکن نجی کمپنی فلٹریشن پلانٹ کی استعداد کے مطابق پانی فراہم کرنے سے قاصر نظر آ رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق فلٹر پلانٹ بیس لاکھ یومیہ گیلن کے بجائے اب دس لاکھ گیلن اور اسلام کوٹ کا فلٹریشن پلانٹ پندرہ لاکھ گیلن کے بجائے محض چھ لاکھ گیلن یومیہ پانی فراہم کر رہا ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ تھر میں فلٹریشن پلانٹس کے زریعے پانی کی فراہمی مستقل اور پائیدار حل نہیں ہے، دریائے سندھ سے نکلنے والی نہروں کے ذریعے پانی فراہم کرکے تھر کو حقیقی معنوں میں ترقی دی جاسکتی ہے۔
Comments are closed.