بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

دس لاکھ ایکڑ کے جنگلات کی نگرانی کرنے والی خاتون

’کولوراڈو کی محافظ‘: دس لاکھ ایکڑ کے جنگلات کی نگرانی کرنے والی خاتون کون ہیں؟

  • کیٹ شون باک
  • صحافی

جنگل

،تصویر کا ذریعہKate Schoenbach

امریکی ریاست کولوراڈو کے پائیک نیشنل فاریسٹ میں واقع ریمپارٹ پہاڑی سلسلے کا بلند ترین مقام ڈیوِلز ہیڈ ہے، جہاں ایشلے فریناکی سلفیز ایک دوربین کے ساتھ اپنے نگراں ٹاور میں کھڑی نظر آتی ہیں۔

وہ دور کہیں تکتے ہوئے کہتی ہیں، ‘وہ آگ ہو سکتی ہے۔’

مگر پھر جلد ہی اُنھیں احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف مٹی تھی جو ممکنہ طور پر کسی ڈرٹ بائیک کی وجہ سے اڑ رہی تھی اور کسی تازہ آگ کے دھویں جیسی لگ رہی تھی۔

‘خوش قسمتی سے اس مرتبہ یہ آگ نہیں ہے۔’

اپنی نوکیلی چوٹیوں کی وجہ سے ڈیولز ہیڈ کہلانے والا یہ مقام نو ہزار 748 فٹ بلند ہے اور فرنٹ رینج پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جو روکی ماؤنٹینز کا انتہائی مشرقی کنارہ ہے۔

اس پہاڑ سے حیران کُن نظارے دیکھنے میں آتے ہیں جو مشرق کی جانب کینساس، مغرب میں کانٹینینٹل ڈیوائڈ (وہ مقام جہاں شمالی اور جنوبی امریکہ الگ ہوتے ہیں)، شمال میں وائیومنگ، اور جنوب میں پائیکس پیک پر مشتمل ہیں۔ پائیکس پیک ایک مقبول فورٹینر ہے، یعنی ایسا پہاڑ جو 14 ہزار فٹ سے بلند ہو۔

اور اس خوبصورت جنگل کا حسن برقرار رکھنے کے لیے آگ پر قابو پانا نہایت ضروری ہے۔

ایشلے امریکی محکمہ جنگلات کی ملازم ہیں اور وہ کولوراڈو کے فرنٹ رینج پہاڑی سلسلے میں آگ پر نظر رکھنے والی آخری شخص ہیں۔

ڈیولز ہیڈ لُک آؤٹ ٹاور امریکہ میں باقی رہ جانے والے چند ایک ایسے ٹاورز میں سے ہے جو اب بھی ایسے موسم میں فعال رہتے ہیں جب آگ لگنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

جنگل

،تصویر کا ذریعہKate Schoenbach

وہ دو موسموں سے یہ ملازمت کر رہی ہیں۔ اب یہ کام کرنے والوں کی جگہ اکثریتی طور پر ٹیکنالوجی نے لے لی ہے جس میں 360 ڈگری کیمرے، ڈرون اور آگ کو محسوس کرنے والے طیارے شامل ہیں، تاہم وہ کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی اُن کی جگہ نہیں لے سکتی۔

وہ کہتی ہیں کہ محکمہ جنگلات کی ٹیمیں انسانی مدد کو پسند کرتی ہیں کیونکہ معلومات کو سمجھنے اور زمین پر موجود ٹیموں سے رابطہ کاری ایسا کام ہے جو ‘ڈرونز نہیں کر سکتے۔’

ایشلے کو آگ پر نظر رکھنے کے لیے سال کے چھ مہینے لکڑی سے بنے ایک دور دراز کیبن میں گزارنے ہوتے ہیں جو ڈیولز ہیڈ کی ہائیکنگ ٹریل کے انتہائی سرے پر بنا ہوا ہے۔

یہاں تک صرف سوا میل تک پیدل چل کر پہنچا جا سکتا ہے جو آپ کو 900 فٹ اوپر تک لے جاتی ہے۔

تاہم اُن کا زیادہ تر وقت ایک قریبی ٹاور میں گزرتا ہے جو ڈینور کی سب سے مشہور ہائیکنگ ٹریل ڈیولز ہیڈ کے اوپر قائم ہے۔

اُنھیں اپنے کام کی منفرد نوعیت پسند ہے اور وہ اپنے آس پاس موجود چیزوں کی خوبصورتی سے بھی لطف اندوز ہوتی ہیں۔

‘ہر گھڑی سورج بدلتا ہے اور کوئی ایسی نئی چیز روشن ہوجاتی ہے جو میں نے اس سے قبل نہیں دیکھی ہوتی۔’

پائیک نیشنل فاریسٹ میں انواع و اقسام کے جانور اور پودے پائے جاتے ہیں، چنانچہ یہ امریکہ کے مغرب میں پائی جانی والی حیران کُن جنگلی حیات کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

ایشلے بتاتی ہیں کہ ویسے تو یہاں رہنے والے پہاڑی شیر اور ریچھ کم ہی کم انسانوں کے سامنے آتے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔ ‘ہم سب یہاں ساتھ ہی رہتے ہیں۔’

جنگل

،تصویر کا ذریعہKate Schoenbach

پائیک نیشنل فاریسٹ اور اس کے گرد و پیش کے علاقوں میں متعدد ہائیکنگ ٹریلز ہیں جہاں دلکش نظارے آنے والے لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں۔

یہاں پر لوگ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں جن میں ہائیکنگ، کیمپنگ، مچھلی پکڑنا، پہاڑوں پر سائیکل چلانا اور گھڑ سواری کرنا شامل ہیں۔

یہ پورا جنگل دس لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں پر ہر کسی کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔

ڈینور شہر سے قریب ہونے کے باعث لوگ یہاں آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔

آگ لگنے کا موسم عام طور پر مئی سے نومبر تک جاری رہتا ہے اور اس دوران روز صبح ایشلے نیند سے بیدار ہو کر 143 زینے اوپر چڑھ کر اپنے ٹاور تک پہنچتی ہیں اور پھر پورا دن الاؤ یا آسمانی بجلی گرنے سے لگنے والی آگ کے دھویں پر نظر رکھتی ہیں۔

جیسے ہی وہ دھواں دیکھ لیتی ہیں تو وہ اوسبورن فائر فائنڈر نامی آلے کی مدد سے اس دھویں کے مقام کا تعین کرتی ہیں۔

اوسبورن فائر فائنڈر سنہ 1911 میں امریکی محکمہ جنگلات کے اہلکار ولیم اوسبورن نے ایجاد کیا تھا اور اس کی مدد سے دور دراز آگ کے محلِ وقوع کا پتا چلا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے

اس کے بعد وہ ریڈیو پر اس کی اطلاع زمین پر موجود عملے کو جاری کر دیتی ہیں جو فوراً ہی آگ بجھانے والے عملے کو اس جگہ روانہ کر دیتے ہیں۔

گذشتہ سال ریاست کولوراڈو میں سینکڑوں جگہوں پر جنگلات میں آگ لگی مگر ایشلے نے اپنے علاقے میں پانچ آتش زدگیوں کو فوراً ڈھونڈ کر اُن کی اطلاع دے دی تھی۔

فرنٹ رینج میں آگ لگنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس کی خشک آب و ہوا ہے۔ سنہ 2020 آتش زدگی کے واقعات کے حوالے سے بدترین سال تھا جب تقریباً سات لاکھ ایکڑ کے رقبے کو آگ سے نقصان پہنچا۔

‘گذشتہ سال فرنٹ رینج کے شمالی حصے میں ہم نے آتش زدگی کے بہت سے واقعات دیکھے مگر یہ ریمپارٹ رینج جتنے جنوب میں نہیں تھیں جہاں پر ہم موجود ہیں۔’

اب تک اُنھوں نے غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے اس موسم میں کوئی بے قابو آگ نہیں دیکھی ہے تاہم اُنھیں لگتا ہے کہ بارشوں میں کمی کے بعد آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔

جنگل

،تصویر کا ذریعہKate Schoenbach

ایشلے کی ملازمت میں صرف یہی کام شامل نہیں، بلکہ وہ فائر ٹاور کی دیکھ بھال کی بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی منفرد تاریخ اور یہاں سے نظر آنے والے خوبصورت نظاروں کے باعث امریکہ بھر میں مشہور ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں امریکی محکمہ جنگلات کے قیام کے بعد فرنٹ رینج میں وائیومنگ سے لے کر نیو میکسیکو تک سات بڑے فائر ٹاورز کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ جنگلات کی آگ کو پھیلنے سے پہلے ہی دیکھ لیا جائے۔

ڈیولز ہیڈ اُن اولین سائٹس میں سے تھا جہاں پر ایسے ٹاور کا قیام ہونا تھا۔

یہاں پہلا ٹاور 1919 میں قائم کیا گیا اور یہاں ہیلین ڈوو کو تعینات کیا گیا۔ وہ کولوراڈو میں اس کام کے لیے مقرر ہونے والی پہلی خاتون اور امریکہ میں دوسری تھیں۔ اُن سے قبل کیلیفورنیا کی ہالی مورس ڈیگر آگ پر نظر رکھنے والی امریکہ کی پہلی خاتون اہلکار بن چکی تھیں۔

سنہ 1951 میں امریکی فوج کے انجینیئرنگ عملے نے یہاں پر نیا ٹاور تعمیر کیا جو کہ آج تک زیرِ استعمال ہے۔

پھر گرینائٹ کی چٹانوں پر قائم یہ ٹاور اپنے منفرد محلِ وقوع کی وجہ سے عوام میں مقبول ہونے لگا جہاں سے فرنٹ رینج سامنے پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔

سنہ 1991 میں ڈیولز ہیڈ پر قائم اس ٹاور کو تاریخی مقامات کی قومی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

دو سال قبل بلی ایلس کے 87 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کے بعد ایشلے کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اپنے 35 موسموں پر پھیلے ہوئے کریئر میں بلی نے 200 آتش زدگیوں کو دیکھا اور مجموعی طور پر 43 مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے جتنی چڑھائی طے کی۔

ایشلے مسکراتے ہوئے یاد دلاتی ہیں کہ سو سال قبل ہیلن ڈوو اس ٹاور پر آتش زدگیوں کی نگران پہلی خاتون تھیں اور اب اس ٹاور پر ایک مرتبہ پھر ایک خاتون تعینات ہے۔

اپنے فارغ وقت میں وہ اس جنگل میں موجود حیوانات اور نباتات کے بارے میں پڑھتے ہوئے گزارتی ہیں۔ وہ پڑھتی ہیں کہ کس طرح کے بادلوں سے بجلی گر سکتی ہے، ہائیکرز سے باتیں کرتی ہیں اور اپنی دو بلیوں فیورڈ اور فیونا کے ساتھ کھیلتی ہیں۔

ٹاور میں اپنی ڈیسک پر بیٹھے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ جنگل کی آگ سے ارد گرد کے علاقوں کو کتنا بھیانک نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 2002 میں لگنے والی ہیمین فائر (جو گذشتہ سال تک کولوراڈو کی سب سے خوفناک آگ تھی) میں ایک لاکھ 37 ہزار ایکڑ پر قائم جنگلات راکھ ہو گئے تھے۔

وہ ہیمین فائر کے دوران اس ملازمت پر نہیں تھیں تاہم اُنھوں نے کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی میں فاریسٹ مینیجمنٹ سٹڈیز کے دوران اس کے بارے میں پڑھا تھا۔

وہ کہتی ہیں: ‘یہ ریاست کولوراڈو کی تاریخ کی بدترین آتش زدگی تھی۔’

جنگل

،تصویر کا ذریعہKate Schoenbach

گذشتہ چند برس میں مغربی امریکہ میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ لوگوں کا خشک زمینوں پر تجاوزات قائم کر لینا، اور جنگلات کا بے ہنگم انداز میں بڑھنا ہے جس کی وجہ سے خشک گھاس میں اضافہ ہوتا ہے جو آگ کی وجہ بنتی ہے۔

اس کے علاوہ ایشلے کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی اس مسئلے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے اور اب آگ پہلے سے زیادہ عرصے تک جلتی رہتی ہے۔

گذشتہ سال امریکہ بھر میں ایک کروڑ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر آگ لگی جو درست ریکارڈ رکھنے کے آغاز سے لے کر اب تک کا سب سے بڑا رقبہ ہے۔

اپنی ملازمت کے خطرات کے باوجود ایشلے کو لگتا ہے کہ جنگلات کا تحفظ اُن کی زندگی کا مقصد ہے۔

وہ بچپن میں اپنی والدہ کے ساتھ کیمپنگ پر جایا کرتی تھیں اور اسی دوران اُن کا قدرت سے گہرا تعلق قائم ہو گیا تھا۔

وہ چاہتی ہیں کہ لوگ ‘آنے والی نسلوں’ کے لیے ہائیکنگ اور کیمپنگ کے تجربات سے لطف اندوز ہوں اور اُنھیں لگتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے جنگل کی نگہبانی کر کے ماحول کا تحفظ کر رہی ہیں۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ اُنھیں جنگل میں رہنے کے بارے میں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے تو اُنھوں نے کہا: ‘صبح سورج کے ساتھ اٹھنا اور سورج غروب ہونے پر سونے کے لیے چلے جانا۔ اور سورج کے ساتھ ساتھ دن بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنا۔ میں اس مسلسل ردھم کے لیے شکرگزار ہوں۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.