بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانوی میڈیا کے لیے کام کرنے والے افغان صحافیوں کو برطانیہ منتقل ہونے کی ’پیشکش‘

افغانستان: طالبان کی جانب سے خطرے سے دوچار برطانوی میڈیا کے لیے کام کرنے والے افغان صحافیوں کو برطانیہ منتقل ہونے کی پیشکش کی جائے گی

  • میری او کونر
  • بی بی سی نیوز

Afghan security forces and militia guard against Taliban attacks in Herat

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا ہے کہ ایسے افغان صحافی جو برطانوی میڈیا کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور انھیں طالبان کی جانب سے فوری خطرہ ہے، انھیں برطانیہ منتقل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔

برطانوی میڈیا تنظیموں کو ایک خط میں ڈومینک راب نے کہا ہے کہ ایسے کیسز کو خصوصی بنیاد پر دیکھا جائے گا۔

برطانوی خبر رساں اداروں نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ افغان صحافیوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو برطانوی فوج کے مترجموں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ جمعے کے روز افغانستان کے اعلیٰ ترین میڈیا اہلکار کو طالبان نے قتل کر دیا تھا۔

افغانستان کے میڈیا اور انفارمیشن سنٹر کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب وہ دارالحکومت کابل میں ایک مسجد سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا رہے تھے۔ طالبان کا کہنا تھا کہ دعوا خان کو ’ان کے کیے کی سزا دی گئی ہے۔‘

دوا خان مینہ پال

،تصویر کا ذریعہSocial Media

،تصویر کا کیپشن

افغانستان میں ملک کے میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کو دارالحکومت کابل میں طالبان جنگجوؤں نے قتل کر دیا ہے

امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے فیصلے کے بعد سے طالبان نے ملک میں تیزی سے پیش قدمی کی ہے اور اہم شہروں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

جنوب مغربی صوبے نمروز کے مقامی حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ طالبان نے صوبائی دارالحکومت زرنج پر قبضہ کر لیا ہے۔

حالیہ برسوں میں یہ افغانستان کے کسی صوبے کا پہلا دارالحکومت ہے جس پر طالبان قابض ہوگئے ہیں اور جمعے کو کئی مقامی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ زرنج پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔

جمعے کے روز ہی برطانوی حکومت نے ملک میں موجود تمام برطانوی شہریوں کو ملک میں ’بگڑتی سیکیورٹی صورتحال‘ کے پیشِ نظر ملک چھوڑ کی ہدایات جاری کی ہیں۔

برطانوی دفترِ خارجہ نے برطانوی شہریوں کو کمرشل فلائٹوں کے ذریعے ملک سے نکلنے اور برطانوی سفارتخانے کو اپنے منصوبوں سے آگاہ کرنے کے لیے کہا ہے۔

سنہ 2013 سے ایسے افغان مترجموں کو برطانیہ منتقل ہونے کی اجازت ہے جنھوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر برطانوی فوج کے ساتھ کام کیا ہے۔

اپنے حالیہ خط میں برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی صحافیوں تنظیموں کی آزادی ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’آزاد افغان میڈیا گذشتہ 19 سال میں افغانستان میں ہونے والی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے اور اسے تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔‘

برطانوی وزیر خارجہ نے خبر رساں اداروں کو اپنے پیغام میں کہا کہ ’آپ کے خط نے ان خطرات کی نشاندہی کی جو آپ کے ساتھ کام کرنے والے افغان عملے کو برطانیہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے لاحق ہوں گے۔‘

افغانستان

’ہم موجودہ قوانین کے دائرہ کار میں ہی ایسے انفرادی کیسز کو خصوصی طور پر دیکھ سکتے ہیں جہاں یہ واضح ہے کہ کہ برطانیہ کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان لوگوں کو فوری طور پر خطرات ہیں۔ اس میں صحافی اور ان کے سہولت کار شامل ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

اس سال کے آغاز میں افغان مترجموں اور ان کے خاندانوں کی نقل مکانی کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا اور تقریباً 3000 ایسے افراد کے برطانیہ جانے کی توقعات ہیں۔

جمعرات کو ایک پرواز میں 104 افراد جن میں مترجم اور ان کی فیملیاں شامل تھیں، برطانیہ پہنچے تھے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک مترجم نے کہا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے تو خوش ہیں تاہم انھیں اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ آنے کا افسوس ہے۔

’خانہ جنگی‘

افغان

،تصویر کا ذریعہReuters

گذشتہ ماہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ افغانستان میں نیٹو مشن میں تعینات تمام برطانوی فوجی گھروں کو لوٹ آئیں گے اور ان میں سے زیادہ پہلے ہی لوٹ چکے ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ ان کی تمام افواج 11 ستمبر تک ملک سے انخلا کر لیں گی۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.