ایران لبنان میں جنگ بندی کیوں چاہتا تھا: ’لبنان میں جنگ بندی مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا حل نہیں‘،تصویر کا ذریعہANADOLU

  • مصنف, جیریمی بوون
  • عہدہ, انٹرنیشنل ایڈیٹر
  • 2 گھنٹے قبل

لبنان کے زیادہ تر شہریوں کو جنگ بندی کا بے صبری سے انتظار تھا۔ میں روم میں منعقدہ مشرق وسطیٰ پر ایک کانفرنس میں شرکت کر رہا ہوں۔ یہاں میری ایک لبنانی تجزیہ کار سے ملاقات ہوئی جنھوں نے کہا کہ جیسے جیسے جنگ بندی کا مقررہ وقت قریب آتا گیا اُن کی نیند غائب ہوتی گئی۔’بالکل ویسے تھا جیسے بچپن میں ہم کرسمس کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کب ہو گا۔‘اس جنگ کے دوران لبنان کے علاقوں سے بے گھر ہونے والے لوگوں نے جنگ بندی کے نفاذ والے دن صبح ہونے سے پہلے ہی اپنی گاڑیوں میں سامان باندھ لیا تھا تاکہ حملوں کے بعد اپنے گھروں کی کھنڈر نما باقیات میں واپس لوٹ سکیں۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگوں کو جنگ بندی سے سکون کا سانس کیوں ملا ہے۔

اسرائیلی حملوں میں لبنان کے 3500 سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں، دس لاکھ سے زیادہ لوگ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں جبکہ دسیوں ہزاروں کے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔لیکن اسرائیل میں کچھ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اب بھی حزب اللہ کو مزید نقصان پہنچایا جا سکتا تھا اور جنگ بندی کی وجہ سے اسرائیل نے یہ موقع کھو دیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنگریٹر بیروت کے علاقے دحیہ میں جنگ بندی کے آغاز کے بعد ایک بچی گاڑی میں حزب اللہ کے جھنڈے کے ساتھ جشن منا رہی ہے
وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اسرائیل کی شمالی میونسپلٹیز کے سربراہوں سے ملاقات کی۔ یہ علاقے اب کھنڈر نما قصبوں میں تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ یہاں سے تقریباً 60 ہزار شہریوں کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔اسرائیل کی ’اینیٹ نیوز‘ ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ ملاقات کے دوران جذبات عروج پر تھے اور کچھ دیر میں یہاں آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ کچھ مقامی حکام نے مایوسی کا اظہار کیا کہ اسرائیل نہ تو لبنان میں اپنے دشمنوں پر دباؤ ڈال رہا ہے اور نہ ہی اسرائیلی شہریوں کو اپنے گھر واپس لانے کے لیے کوئی فوری منصوبہ پیش کر رہا ہے۔ایک اخبار کے کالم میں اسرائیل اور لبنان کی سرحد کے قریب کریات شمونہ شہر کے میئر نے کہا کہ انھیں نہیں لگتا جنگ بندی نافذ العمل ہو گی۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل جنوبی لبنان میں بفر زون بنائے۔اسرائیلی سٹیشن چینل 12 نیوز کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں بھی جنگ بندی کے حامی اور مخالفین کی تعداد تقریباً برابر تھی۔سروے میں حصہ لینے والوں میں سے نصف کا خیال ہے کہ حزب اللہ کو شکست نہیں ہوئی ہے جبکہ 30 فیصد کا خیال ہے کہ جنگ بندی بھی جلد ختم ہو جائے گی۔رواں سال ستمبر کے آخر میں نیویارک میں منعقد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے گا۔جنگ کے تمام فریقوں نے سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی شقوں کی بنیاد پر جنگ بندی کو قبول کرنے پر آمادگی کا اشارہ دیا تھا۔ یہ قراردار سنہ 2006 کی لبنان جنگ کے خاتمے کے لیے منظور کی گئی تھی۔ معاہدہ کے مطابق حزب اللہ کو سرحد سے پیچھے ہٹ جانا تھا تاکہ اس کی جگہ اقوام متحدہ کے امن فوجیوں اور لبنانی مسلح افواج کو تعینات کیا جا سکے۔ جیسے جیسے وہ تعینات ہوتے جاتے ویسے ویسے اسرائیلی افواج وہاں سے نکلتی جاتیں۔لیکن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے پوڈیم پر جا کر ایک شعلہ انگیز تقریر کر دی اور کہا کہ اسرائیل کو اپنی کاروائی میں کوئی تعطل قبول نہیں ہے۔اپنے نیویارک کے ہوٹل میں واپسی پر نیتن یاہو کے آفیشل فوٹوگرافر نے اُس لمحے کو اپنے کیمرے میں قید کر لیا جب انھوں نے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کو اُن کی اعلیٰ کمان کے ساتھ قتل کرنے کا حکم جاری کیا۔ امریکی سفارتکاری کو نیچا دکھانے کے لیے نیتن یاہو کے دفتر سے یہ تصاویر جاری کی گئیں۔حسن نصراللہ کی ہلاکت حزب اللہ کے لیے ایک دھچکا تھا جس نے کشیدگی میں اضافہ کر دیا۔ اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کی عسکری تنظیم کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔اس کے باوجود جزب اللہ ابھی بھی سرحد پر راکٹ فائر کر سکتا تھا اور اس کے جنگجو اسرائیلی فوجیوں سے لڑنے میں مصروف تھے۔ لیکن اب حزب اللہ اسرائیل کے لیے پہلے جیسا خطرہ نہیں رہا۔

نیتن یاہو: جنگ بندی اسرائیلی ’فوج کے لیے سانس لینے کا موقع ہے‘

اسرائیلی فوج کی کامیابی متعدد عوامل پر انحصار کرتی ہے جس کی وجہ سے بنیامن نتن یاہو کا خیال ہے کہ جنگ بندی کے لیے یہ اچھا وقت ہے۔لبنان میں اسرائیل کا ایجنڈا غزہ اور باقی مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی نسبت زیادہ محدود ہے۔ وہ حزب اللہ کو اپنی شمالی سرحد سے پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے اور شہریوں کو سرحدی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے۔اگر حزب اللہ حملے کی تیاری کرتی نظر آتی ہے تو اسرائیل کے پاس امریکیوں کی جانب سے ایک ضمنی خط ہے جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔جنگ بندی کے حوالے سے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ایک ریکارڈ شدہ بیان میں نتن یاہو نے اس کی وجوہات بتائیں۔انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے بیروت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہی موقع ہے کہ ‘ہم اپنی فوج کو سانس لینے کا موقع دیں اور ان کی توانائی بحال کریں۔’گذشتہ برس 7 اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کی تو اس کے ایک دن بعد حسن نصراللہ نے بھی اسرائیل کے شمال میں حملے کے احکامات جاری کیے تھے۔ تاہم اس وقت نتن ہایو نے کہا تھا کہ لڑائی تب تک جاری رہے گی جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو جاتی۔تاہم اب نتن یاہو کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کی وجہ سے حماس پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ دوسری جانب غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر اسرائیل غزہ میں اپنی جارحیت میں اضافی کر دے گا۔حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ نتن یاہو ‘ایران سے خطرے’ کے مسئلے سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ کو نقصان پہنچانا ایران کو نقصان پہنچانے کے برابر ہے۔ایران نے ہی اسرائیل کی سرحد پر حزب اللہ کو قائم کیا تھا۔ حزب اللہ ایران کے محور مزاحمت کا سب سے مضبوط حصہ بن گیا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہReuters

ایران جنگ بندی کیوں چاہتا تھا؟

حزب اللہ کے زندہ بچ جانے والے رہنماؤں کی طرح ایران میں اُن کے سرپرست بھی جنگ بندی چاہتے تھے۔حزب اللہ کو اپنے زخم چاٹنے کے لیے ایک توقف کی ضرورت ہے۔ ایران کو جیوسٹریٹیجک حوالے سے اپنے زخموں سے خون بہنے کو روکنے کی ضرورت ہے۔اس کی مزاحمت کا محور یعنی حزب اللہ اب اسرائیل کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ نصراللہ کے قتل کے بعد اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے سے بھی اس کا یہ زخم نہیں بھرا۔دو افراد، جو دونوں اب قتل ہو چکے ہیں، نے حزب اللہ کو ناصرف اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا تھا بلکہ ایران پر حملہ کرنے سے بھی۔ ان میں ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی تھے شامل تھے جو جنوری 2020 میں بغداد کے ہوائی اڈے پر ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جس کا حکم اپنی پہلی صدارتی مدت کے آخری ہفتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جاری کیا تھا۔ دوسرے حسن نصراللہ تھے جو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک بڑے اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔7 اکتوبر کے حملوں کی وجہ سے اسرائیل کا عزم بن گیا کہ وہ اس کے جواب میں ہونے والی جنگوں پر پابندیاں قبول نہیں کرے گا۔ امریکہ جو کہ اسرائیل کا سب سے اہم اتحادی ہے، نے بھی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی یا ان کے استعمال کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی۔نصراللہ اور ایران کو نظر نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آیا کہ اسرائیل کیسے بدل گیا ہے۔ انھوں نے بدلے کی جنگ کرنے کی جدوجہد کی اور تقریباً ایک سال کچھ حد تک کامیاب بھی ہوئے۔لیکن 17 ستمبر کو اسرائیل نے حزب اللہ پر پیجر دھماکے کر کے کڑا جواب دیا۔ یہ وہی پیجرز تھے جو اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے حزب اللہ کو بیوقوف بنا کر فروخت کیے تھے۔حزب اللہ نے اپنا توازن کھو دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ایران کی جانب سے فراہم کیے گئے طاقتور ہتھیاروں کا استعمال کر کے کوئی ردعمل ظاہر کرتا، اسرائیل نے حسن نصراللہ اور ان کے بیشتر اہم رہنماؤں کو ہلاک کر دیا۔اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے جزب اللہ کے اسلحے کے ذخیرے کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد جنوبی لبنان پر حملہ کیا گیا اور لبنان کی سرحد پر واقع گاؤں دیہاتوں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے سرنگوں کے نیٹ ورک کی بھی مکمل تباہی کی۔

ٹرمپ، غزہ اور مستقبل

ضروری نہیں کہ لبنان میں جنگ بندی غزہ میں بھی جنگ بندی کا پیش خیمہ ہو۔غزہ کا معاملہ مختلف ہے۔وہاں ہونے والی جنگ سرحد کی حفاظت اور اسرائیلی یرغمالیوں سے بڑھ کر ہے۔اس جنگ کا مقصد بدلہ لینا بھی ہے اور بنیامن نیتن یاہو کی سیاسی کامیابی اور ان کی حکومت کی جانب سے فلسطین کی آزادی کو مکمل طور پر مسترد کرنا بھی ہے۔لبنان کے ساتھ جنگ بندی نازک معاملہ ہے جسے کارآمد ثابت کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔آنے والے 60 دنوں میں جب تک یہ نافذ العمل رہے گی تب تک نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اوول آفس میں واپس آ جائیں گے۔نومنتخب صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ لبنان میں جنگ بندی چاہتے ہیں لیکن ان کے منصوبے ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔مشرق وسطیٰ کو انتظار ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ خطے کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ کچھ پُرامید لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سنہ 1972 میں صدر نکسن کی طرح چین جا کر ایران سے رابطہ کریں گے۔تاہم جو لوگ اتنے پرامید نہیں ہیں انھیں خدشہ ہے ٹرمپ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کے آئیڈیا کو مکمل طور پر ترک کر دیں جس کی امریکہ کی جانب سے تھوڑی بہت حمایت کی جاتی رہی ہے۔ اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ اسرائیل مزید حملے کر کے فلسطینی علاقوں کو اپنے ساتھ ضم کر لے جس میں مغربی کنارے اور شمالی غزہ شامل ہیں۔تاہم جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں نسل در نسل چلی آنے والی کی جنگ اور پرتشدد موت سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے جب تک کہ خطے کی بنیادی سیاسی ٹوٹ پھوٹ سے نہیں نمٹا جاتا اور اسے ٹھیک نہیں کیا جاتا۔ سب سے بڑا تنازع اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہے۔بنیامن نتن یاہو اور ان کی حکومت کے ساتھ ساتھ زیادہ تر اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ فوجی فتح کے لیے دباؤ ڈال کر اپنے دشمنوں کو مغلوب کرنا ممکن ہے۔نتن یاہو بے لگام طاقت کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں توازن کو اپنے طرف بڑھا سکیں۔ایک صدی سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے تنازع میں عربوں اور یہودیوں نے فوجی فتح کے ذریعے بار بار امن کا خواب دیکھا ہے۔ ہر نسل نے کوشش کی اور ناکام رہی۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے تباہ کن نتائج نے کسی بھی بہانے کو ختم کر دیا کہ تنازع پر قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ اسرائیل فلسطینیوں کے حق خود ارادیت سے انکار کرتا رہا۔ لبنان میں جنگ بندی ایک مہلت ہے۔ یہ کوئی حل نہیں ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}