15 ماہ کی ’حاملہ‘: بانجھ خواتین میں ’معجزانہ‘ طریقے سے حمل ٹھہرانے کا دھوکہ کیسے پکڑا گیا؟

  • مصنف, یمیسی ایدیگوک، چیاگوزی ونو اور لینا شیخونی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

چیوما کو یقین ہے کہ اُن کی گود میں موجود ’ہوپ‘ نامی ننھا بچہ اُن کا اپنا بچہ ہے۔ آٹھ سال تک حمل ٹھہرانے کی ناکام کوششوں کے بعد وہ اس بچے کی اپنی گود میں موجودگی کو ایک معجزے کے طور پر دیکھتی ہیں۔وہ پُراعتماد انداز میں کہتی ہیں ’یہ بچہ میرا ہی ہے۔‘نائجیریا میں حکام اُن سے ایک گھنٹے تک اس بچے سے متعلق پوچھ گچھ کرتے رہے۔ اس تفتیش کے دوران چیوما کے شوہر آئیکے بھی اُن کے ہمراہ موجود تھے۔اس علاقے میں خواتین کے مسائل اور سوشل ویلفیئر کے کمشنر ایفے وبینابو کو اپنے کام میں مہارت ہے لیکن ان کے سامنے موجود کیس کوئی عام تنازع نہیں ہے۔

دفتر کے اس کمرے میں آئیکے کے خاندان کے پانچ لوگ موجود ہیں جو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ننھا ہوپ اس جوڑے کا حقیقی بیٹا ہے تاہم چیوما اور آئیکے اسے اپنا حقیقی بچہ ہی مانتے ہیں۔چیوما کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس بچے کو پندرہ ماہ تک اپنی کوکھ میں رکھا ہے جبکہ ان کے سسرال والے اور کمشنر ایفے اس دعوے کو سچ ماننے کو تیار نہیں۔چیوما کہتی ہیں کہ انھیں اپنے سسرال کی جانب سے ماں نہ بننے کی وجہ سے بہت پریشر کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ بھی دیا گیا۔بچے کی شدید خواہش میں چیوما ایک ایسے ’کلینک‘ گئیں جہاں خواتین کو غیر روایتی علاج کی سہولت ملتی ہے۔دراصل اس سے ایک ایسا دھوکہ آشکار ہوا جس میں ماں بننے کی خواہشمند عورتوں کو شکار کیا جاتا ہے اور جس میں بچوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔بی بی سی کی ٹیم کو نائجیرین حکام نے اجازت دی کہ وہ کمشنر کی چیوما سے کی جانے والی بات چیت کے دوران وہاں موجود رہے۔ یہ بات چیت دراصل حمل کی ایک عجیب و غریب سکیم کا حصہ ہے۔بی بی سی نے اس تحریر میں حکام کی جانب سے تفتیش کا حصہ بننے والے اس جوڑے کے نام تبدیل کر دیے ہیں تاکہ وہ کمیونٹی کی جانب سے آنے والے منفی ردعمل سے محفوظ رہ سکیں۔خیال رہے کہ نائجیریا شرح پیدائش میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں خواتین کو اکثر ماں بننے کے لیے نہ صرفسماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انھیں خاندان کی جانب سے نامناسب سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اس طرح کے دباؤ میں کچھ خواتین ماں بننے کا خواب پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہیں۔ایک سال سے زیادہ عرصے تک بی بی سی افریقہ آئی نے ’کرپٹک پریگنینسی‘ کی سکیم کی تحقیقات کی ہیں۔اس دھوکے میں شامل افراد خود کو نرس یا ڈاکٹر ظاہر کرتے ہیں اور بچے پیدا کرنے میں مشکل کی شکار خواتین کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ان کے بانجھ پن کا معجزاتی علاج کیا جائے گا۔ انھیں حاملہ ہونے کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ابتدائی علاج میں انھیں یا تو کوئی شربت دیا جاتا ہے یا ان کے وجائنا میں کوئی مواد ڈالا جاتا ہے یا پھر انجیکشن لگایا جاتا ہے۔ اس پر عام طور پر کئئ سو ڈالر لاگت آتی ہے۔بی بی سی کو اس معاملے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی متاثرہ خاتون یا حکومتی اہلکار سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ دراصل ان ادویات میں تھا کیا۔لیکن کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ ان ادویات کے استعمال کے بعد انھیں انپے جسم میں تبدیلیاں محسوس ہونا شروع ہوئیں۔ جیسا کہ معدے کا اپھارہ پن اور اسی کیفیت کی بدولت انھیں کچھ عرصے میں یقین ہونے لگا کہ وہ حاملہ ہو چکی ہیں۔جن خواتین کا یہ ’علاج‘ کیا جا رہا ہے تھا انھیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ روایتی ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے چکر میں نہ پڑیں۔ کیونکہ نہ تو پریگنینسی ٹیسٹ اور نہ ہی الٹرا ساؤنڈ یا سکین سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ پیٹ میں موجود بچہ کس حال میں ہے۔رہا سوال بچے کے پیدائش کے وقت کا، تو اس بارے میں خواتین کو کہا گیا کہ لیبر پین یعنی درد زرہ تو تب ہی شروع ہو گا جبکہ انھیں ایک بہت مہنگی اور نایاب دوائی لگائی جائے گی اور اس کے لیے انھیں مزید پیسے ادا کرنے ہوں گے۔اب اس فراڈ پریگنینسی میں بچوں کی پیدائش کا عمل ہوتا کیسے تھا۔ اس بارے میں متاثرہ خواتین کے مختلف جواب ملے لیکن تمام کے تمام پریشان کن تھے۔لیکن جو بھی تھا ان تمام کیسز میں آخر میں خواتین کے پاس ایک بچہ تھا۔چیوما نے کمشر کو بتایا کہ جب ان کا ڈلیوری کا وقت آیا تو اس نام نہاد ڈاکٹر نے انھیں کلائی پر انجیکشن لگایا اور کہا کہ تم زور لگاؤ۔ وہ یہ یاد کر کے نہیں بتا سکیں کہ ننھے ہوپ کی پیدائش کیسے ہوئی لیکن انھیں یہ یاد ہے کہ ڈلیوری تکلیف دہ تھی۔

ہماری ٹیم نے ان خفیہ ’کلینکس‘ میں سے ایک میں موجود خاتون ’ڈاکٹر روتھ‘ سے رابطہ کیا اور ایک جوڑے کے طور پر خود کو متعارف کروایا جو آٹھ سال سے بچے کا خواہشمند ہے۔نام نہاد ڈاکٹر روتھ نے ہفتے میں ایک روز اپنا کلینک چلاتی تھیں۔ان کے کمرے کے باہر درجنوں خواتین راہداریوں میں اپنی باری کے انتظار میں ہوتی تھیں۔ ان میں سے کچھ کے پیٹ واضح طورپر ابھرے ہوئے ہوتے تھے۔یہاں سارا ماحول بہت مثبت دکھائی دیتا ہے۔ ایک موقع پر کمرے میں جب ایک عورت کو بتایا گیا کہ وہ حمل سے ہے تو کمرے میں خوشی کی گونج سنائی دی۔جب بی بی سی کی انڈر کور رپورٹرز کی ٹیم کی ڈاکٹر سے ملنے کی باری آئی تو ڈاکٹر روتھ نے طریقہ علاج کے کارگر ہونے کی ضمانت ہے۔انھوں نے خاتون کو انجیکشن لگانے کی آفر کی اور دعویٰ کیا کہ اس سے یہ جوڑا اس قابل ہو جائے گا کہ وہ مستقبل میں اپنے بچے کی جنس کا ’انتخاب‘ کر سکے حالانکہ ایسا ہونا طبی طور پر ناممکن ہے۔لیکن جب جوڑے نے کہا کہ وہ انجیکشن نہیں لگوانا چاہتے تو ڈاکٹر روتھ نے انھیں پسی ہوئی گولیوں کا ایک ساشے دیا اور الگ سے کچھ ثابت گولیاں بھی دیں اور کہا کہ وہ ساتھ گھر لے کر جائیں۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ انھوں نے کب انٹرکورس یعنی ہمبستری کرنی ہے۔ابتدا میں اس جوڑے سے 205 ڈالر لیے گئے۔ہماری انڈر کور رپورٹر نے نہ تو دوا کھائی اور نہ ہی ڈاکٹر کی کسی بات کو فالو کیا اور چار ہفتے بعد وہ دوبارہ سے ڈاکٹر کے کلینک آئیں۔ہماری رپورٹر کے پیٹ پر الٹراساؤنڈ سکینر جیسی ایک مشین رکھنے کے بعد دل کی دھڑکن جیسی آواز سنائی دی اور ڈاکٹر روتھ نے رپورٹر کو حاملہ ہونے پر مبارکباد دی۔یہ جوڑا خوشی سے چہکنے/ مسکرانے لگا۔یہ خوشخبری دینے کے بعد ڈاکٹر روتھ نے انھیں بتایا کہ بچے کی پیدائش کے لیے مہنگی دوا کے لیے کتنے پیسے ادا کرنے ہوں گے۔ یہ قیمت 1180 بتائی گئی۔بتایا گیا کہ اس دوا کے بغیر حمل نو ماہ سے اوپر چلا جائے گا۔ یہ بات کرتے ہوئے انھوں نے سائنس کے حقائق کو نظر انداز کیا اور کہا کہ بچے میں غذائیت کی کمی ہو گی اور ہمیں اسے دوبارہ سے بنانا پڑے گا۔ڈاکٹر روتھ نے بی بی سی کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔لیکن سوال یہ کہ اس قسم کے واضح جھوٹ کے ثبوت ان آن لائن گروپس میں ملتے ہیں جہاں حمل کے بارے میں غلط اور گمراہ کن خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔غلط اطلاعات فراہم کرنے والے ایک نیٹ ورک میں کرپٹک پریگنینسی طبی طور پر ایک ایسا عمل قرار دیا جاتا ہے جس میں خاتون اپنے حمل کے بہت آخری مراحل میں اس سے آگاہ ہوتی ہے۔لیکن بی بی سی نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ فیس بک کے گروپس اور صفحات میں اس قسم کے حمل کے بارے میں بڑے پیمانے پر غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ایک خاتون جن کا تعلق امریکہ سے ہے اور انھوں نے ایک صفحہ کرپٹک پریگنینسی کے نام سے بنایا تھا اس میں وہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کئی برس تک حاملہ رہیں اور یہ بھی کہ ان کے اس سفر کو سائنسی وضاحت سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔فیس بک میں ایک کلوز گروپ میں بہت سی پوسٹوں میں مذہبی اصلاحات استعمال کی گئی ہیں جس میں اس ’بوگس‘ طریقہ علاج کو ان خواتین کے لیے معجزہ قرار دیا گیا ہے جو حاملہ نہیں ہو پاتیں۔یہ تمام غلط معلومات اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ خواتین اس دھوکے پر کیسے یقین رکھتی ہیں۔اس گروپ کے ممبران کا تعلق فقط نائجیریا سے نہیں ہے بلکہ ان میں افریقہ، کریبئین اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔دھوکہ دینے والے اکثر ان خواتین تک بھی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ’علاج‘ کے لیے دلچسپی ظاہر کرتی ہیں۔ایک بار اگر کوئی رضامندی کا اظہار کرے تو پھر دھوکہ دہی کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ ان خواتین کو محفوظ واٹس ایپ گروپس میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان گروپس کو چلانے والے ’کرپٹک‘ کلینک کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ اس عمل میں کیا شامل ہے۔

’میں اب بھی کنفیوز ہوں‘

حکام نے ہمیں بتایا ہے کہ اس علاج کو مکمل کرنے کے لیے جعل سازوں کو نوزائیدہ بچوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے حصول کے لیے وہ ایسی خواتین کی تلاش میں ہوتے ہیں جو بے یارومددگار ہوں اور خطرے کا شکار ہوں۔ ان میں سے بہت سی نوجوان ہوتی ہیں اور حاملہ ہوتی ہیں اور ایک ایسے ملک میں ہوتی ہیں جہاں اسقاط حمل غیرقانونی ہوتا ہے۔فروری 2024 میں انامبرا کی وزارت صحت نے اس عمارت پر چھاپہ مارا جہاں چیوما کے ہاں ہوپ کی ’پیدائش‘ ہوئی۔بی بی سی نے اس چھاپے کی فوٹیج حاصل کی ہے جو ایک بہت بڑے کمپلیکس، جس میں دو عمارتیں تھیں، پر مارا گیا۔ایک کمرے میں طبی آلات رکھے گئے تھے جو کہ بظاہر مریضوں کے لیے تھے۔ لیکن دوسرے کمرے میں بہت سی حاملہ خواتین تھیں جنھیں ان کی مرضی کے بغیر وہاں رکھا گیا تھا۔ وہ سترہ سال تک کی کمر عمر لڑکیاں تھیں۔اس تحقیق میں ہمیں کچھ ایسے لوگ بھی ملے جنھوں نے بتایا کہ انھیں دھوکہ دیا گیا انھیں نہیں معلوم تھا کہ ان کے بچوں کو آگے فراڈ کرنے والے افراد کے ہاتھوں بیچ دیا جائے گا۔لیکن اوجو (فرضی نام) جیسی خواتین بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔ اوجو نے اپنے خاندان کو بتایا ہی نہیں تھا کہ وہ حاملہ ہیں اور انھوں نے اس سے چھٹکارے کے لیے یہ طریقہ ڈھونڈا ہے۔ وہ کہتی ہیں انھیں بچہ دینے کے لیے آٹھ لاکھ مقامی کرنسی کی آفر دی گئی۔ان سے پوچھا گیا کہ اپنے بچے کو بیچنے پر انھیں کوئی پچھتاوا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’میں اب بھی کنفیوز ہوں۔‘کمشنر اوبینابو کہتی ہیں کہ فراڈ کرنے والے بچوں کی پیدائش کے لیے ایسی عورتوں کو شکار بناتے ہیں جو اوجو کی مانند کمزور اور بے یارومددگار ہوتی ہیں۔اس پریشان کر دینے والی تحقیقات اور پوچھ گچھ کے بعد کمشنر اوبینابو نے یہ دھمکی بھی دی کہ وہ ہوپ اور چیوما سے بچہ واپس لے لیں گی۔لیکن چیوما نے اپنی درخواست دائر کی اور بلآخر کمشنر نے ان کی وضاحت کو تسلیم کیا ہے کہ وہ تو خود متاثرین میں شامل ہیں اور اس سارے عمل میں انھیں معلوم ہی نہیں ہو سکا تھا کہ کیا غلط ہے۔کمشنر نے کہا ہے کہ جب تک حقیقی والدین آ کر اس بچے کی سپردگی کا دعویٰ نہیں کرتے تب تک بچہ چیوما اور ان کے شوہر کے پاس رہ سکتا ہے۔لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جب تک خواتین کے بانجھ پن، افزائش نسل کے حقوق، بچہ گود لینے کے قواعد میں تبدیلی نہیں ہوتی تب تک اس قسم کے فراڈ اور دھوکے دیے جاتے رہیں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}